رفاقت، نہ کہ مساوات

18 نومبر 2015 کو انڈیا کے باہر کے ایک ملک سے ایک مسلم نوجوان کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ آج میری شادی ہونے والی ہے۔ آپ میرے لیے اور میری ہونے والی بیوی کے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا کہ اس معاملے میں سب سے بہتر بات وہ ہے جو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتی ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1846 ) ۔ یعنی نکاح میری سنت ہے۔

 اس حدیث کے مطابق، نکاح ایک سنت ِرسول ہے۔ لیکن گہرے معنی کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح اللہ کی ایک سنت ہے۔ یعنی نکاح کا طریقہ خدا کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) کے مطابق ہے۔ اس لیے نکاح کو اس کے وسیع تر معنی میں لینا چاہیے۔ نکاح کرنے والے کو یہ سمجھنا کہ وہ وسیع تر معنی میں خدا کے نقشۂ تخلیق کا ایک حصہ بن رہاہے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ نکاح کے دونوں پارٹنر نکاح کو اپنے اپنے مائنڈ سٹ (mindset) کے مطابق لیتےہیں۔ اگر وہ حقیقت پسند ہوں تو وہ نکاح کو خدا کے مائنڈ سٹ کے مطابق لیں گے اور پھر ان کی شادی شدہ زندگی درست لائن پر چلنے لگے گی۔ اور پھر ان کی زندگی کے تمام معاملات فطرت کے نقشے پر قائم ہوجائیں گے۔ اور زندگی کو فطرت کے نقشے پر چلانا یہی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔

 موجودہ زمانے میں عورت اور مرد کے معاملے میں سب سے بڑا نظریہ عورت اور مرد کے مساوات (gender equality)کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس معاملے کا کلیدی اصول صنفی مساوات نہیں ہے بلکہ صنفی رفاقت ہے۔ نکاح کے ذریعےایسا نہیں ہوتا کہ دو مساوی صنفیں یکجا ہوجائیں۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں رکھنے والی صنفیں یکجا ہوجاتی ہیں۔ یہ فطری تقسیم کا معاملہ ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں باہمی رفاقت سے زندگی کا نظام زیادہ بہتر طور پر چلا سکیں۔ یہ معاملہ گاڑی جیسا ہے۔ گاڑی ہمیشہ دو پہیوں پر چلتی ہے۔ اسی طرح فطرت کے قانون کے مطابق، زندگی کا نظام بھی دو افراد کی شرکت پر چلتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom