عورت اور مرد کا تعلق
جدید دور میں ایک نظریہ بہت زیادہ عام ہے، وہ ہے صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ۔ اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ نظریہ ایک غیرفطری نظریہ ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ پیدائشی طورپر ہر عورت مس ڈِفرنٹ (Ms. Different) ہے، اور ہر مرد مسٹرڈِفرنٹ (Mr. Different) ۔
عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر (adviser) بنیں۔حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری (gender partnership) کا نظریہ زیادہ درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ۔انسان کی زندگی مسائل (problems)کا مجموعہ ہے۔ یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس لیے بار بار یہ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتھیوں میں دو مختلف صفات ہوں تاکہ ہر مسئلہ کو منیج (manage)کیا جاسکے۔ ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ اداکرسکے۔ ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ اداکرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے:
There must be a partner who can deal with the problem differently.
فطرت کے نظام میں یکسانیت (uniformity)موجود نہیں، اس لیے اگر عورت اور مرد کےتعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ جھگڑا ہوتا رہے گا۔ ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پھر نزاع کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کار (division of labour) کا طریقہ رائج ہوجائے گا۔ دونوں خود اپنے فطری تقاضے (natural urge) کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے۔ ایک دوسرے سے الجھنے کا طریقہ ختم ہوجائے گا، اور ایک دوسرےسے معاونت کا طریقہ رائج ہوجائے گا۔