غلط رواج

موجودہ زمانہ میں نکاح کی اصل اسلامی روح تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ مسلمانوں میں آج نکاح کا جو طریقہ عام طور پر نظر آتا ہے وہ اسلامی نکاح سے زیادہ رواجی نکاح ہے۔ اس کا ایک نمونہ مہر ہے لڑکی والے عام طور پر مہر زیادہ باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد مرد کے مقابلہ میں عورت کے مفاد کی حفاظت ہے۔

ڈکشنری آف اسلام میں اس سلسلہ میں حسب ذیل الفاظ درج ہیں:

The custom of fixing heavy dowers, generally beyond the husbands` means, especially in India, seems to be based upon the intention of checking the husband from ill-treating his wife, and above all, from his marrying another woman, as also from wrongfully or causelessly divorcing the former. For in the case of divorce the woman can demand the full payment of the dower.

The Dictionary of IsIam by Thomas Patrick Hughes. (1979) p.91

بہت زیادہ مہر باندھنے کا رواج جو شوہر کے ذرائع سے زیادہ ہو، خاص طورپر ہندوستان میں، بظاہر اس مقصد سے ہے کہ شوہر کو اس سے روکا جائے کہ وہ بیوی کے ساتھ برا سلوک کرے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ دوسری شادی نہ کر سکے۔ اور مزید یہ کہ وہ غلط طور پر یابلا سبب اپنی بیوی کو طلاق نہ دے کیوں کہ طلاق کی صورت میں عورت پوری مہرکی ادائیگی کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

مذکورہ مقصد کے تحت مہر زیادہ باندھنا اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ نکاح کے موقع پر مہر تو مقرر کرنا ہے مگر اس کو ادا نہیں کرنا ہے۔ اگر نکاح کے ساتھ فوراً مہر ادا کر دیا جائے تو مانع طلاق یا اور کسی مانع کی حیثیت سے اس کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ جب مہر خود باقی نہیں رہا تو اس کے مانع ہونے کی حیثیت کیسے باقی رہے گی۔

مگر یہ مفروضہ سراسر اسلام کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اسلام میں مہر کی جائز صورتیں صرف دو ہیں۔ ایک مہر معجل، یعنی وہ مہر جو نکاح ہونے کے بعد اسی وقت ادا کر دیا جائے دوسرے مہر مؤجل، یعنی وہ مہر جس کو فوراً ادا نہ کیا جائے بلکہ اس کی ادائیگی بعد کو ہو۔ مگر یہ ’’بعد‘‘ لازمی طور پر متعین ہونا چاہیے۔ یعنی مرد اس کی ادائیگی کی ایک اجل (مدت) مقرر کرے اور اس مدت پر لازماً اس کو ادا کر دے۔ تیسری مروجہ شکل(نکاح کے وقت ادائیگی مہر کی مدت مقرر نہ کرنا) ایک غیر شرعی طریقہ ہے۔ اس کی بنیاد پر جو کچھ کیا جائے وہ بھی یقینا غیر شرعی ہوگا۔

اب غور کیجیے کہ جب مہر کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ یا تو اس کو فوراً بوقت نکاح ادا کر دیا جائے یا نکاح کے وقت ایک متعین مدت مقرر کی جائے اور اس متعین مدت پر اس کو ضرور ادا کر دیا جائے تو ایسی صورت میں طلاق کو روکنے کے لیے زیادہ مہر مقرر کرنا بالکل بے معنی ہے۔ صرف وہی مہر مانع کا کام کر سکتی ہے جو بلاتعین مدت مقرر کی جائے۔ مگر یہ خود اسلامی طریقہ کے مطابق نہیں۔ مہر کے لیے ادائیگی كي مدتِ تعیین اپنے آپ اس کو اس اعتبار سے بے اثر کر دیتی ہے کہ وہ مرد کے لیے مانع طلاق کا کام دے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom