مہر معجل
مہر اصطلاحی طور پر اس رقم(یا کسی متعین چیز) کا نام ہے جو ایک مرد نکاح کے وقت اپنی بیوی کو ادا کرتا ہے۔ اس مہر کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس کو نکاح کے وقت فوراً ادا کر دیا جائے۔ مہر کی اس قسم کو مہر معجل کہتے ہیں۔ معجل کا لفظ عجلت سے بنا ہے۔ یعنی جلد یا بلاتاخیر ادا کی جانے والی مہر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں عام رواج مہر معجل ہی کا تھا۔ وہ لوگ مختصر مہر باندھتے اور نکاح کے وقت ہی اس کو ادا کر دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح حضرت علی ابن ابی طالب سے کیا۔ اس سلسلہ میں مختلف تفصیلات حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اس کا ایک جزء مہر کے بارے میں ہے۔ نکاح کی بات طے ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ایک حصہ یہ ہے:
فَقَالَ وَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تَسْتَحِلُّهَا بِهِ؟ فَقُلْتُ:لَا، واللَّه يَا رَسُولَ اللَّه.فَقَالَ: مَا فَعَلَتْ دِرْعٌ سلّحتكها- فو الذي نَفْسُ عَلِيٍّ بِيَدِهِ إِنَّهَا لَحُطَمِيَّةٌ مَا ثَمَنُهَا أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ- فَقُلْتُ عِنْدِي فَقَالَ قَدْ زَوَّجْتُكَهَا فَابْعَثْ إِلَيْهَا بِهَا فَاسْتَحِلَّهَا بِهَا. فَإِنْ كَانَتْ لَصَدَاقُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّه عليه وسلم(دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد3، صفحہ 160)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، کیا تمہارے پاس کوئی چیز(بطور مہر) ہے جس کے ذریعہ تم فاطمہ کو اپنے لیے جائز کرو۔ میں نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم اے خدا کے رسول۔ آپ نے کہا کہ وہ زرہ کیا ہوئی جو میں نے تم کو دی تھی۔(حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں علی کی جان ہے، وہ زرہ ٹوٹ چکی تھی، اس کی قیمت چار درہم بھی نہ تھی۔ پس میں نے کہا کہ وہ میرے پاس ہے۔ آپ نے کہا کہ میں نے تمہارا نکاح فاطمہ سے کر دیا تو اس زرہ کو فاطمہ کے پاس بھیج دو اور اس کے ذریعہ فاطمہ کو اپنے لیے جائز کرو۔ تو یہ تھا فاطمہ بنت رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر۔
حضرت ربیعہ اسلمی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ربیعہ تم نکاح کیوں نہیں کر لیتے۔ میں نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں۔ یہ سوال و جواب کئی بار ہوا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے فلاں قبیلہ کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بھیجا ہے اور کہا ہے کہ تم فلاں عورت سے میرا نکاح کر دو۔ چنانچہ میں نے جا کر کہا اور انہوں نے میرا نکاح کر دیا۔ مگر مجھے یہ غم تھا کہ میرے پاس مہر دینے کے لیے کچھ نہیں۔ میں نے واپس آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’يَا بُرَيْدَةُ الْأَسْلَمِيُّ، اجْمَعُوا لَهُ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ‘‘، قَالَ: فَجَمَعُوا لِي وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَخَذْتُ مَا جَمَعُوا لِي فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:’’اذْهَبْ بِهَذَا إِلَيْهِمْ فَقُلْ:هَذَا صَدَاقُهَا‘‘، فَأَتَيْتُهُمْ فَقُلْتُ: هَذَا صَدَاقُهَا فَرَضُوهُ وَقَبِلُوهُ، وَقَالُوا:كَثِيرٌ طَيِّبٌ (مسند احمد، حدیث نمبر 16577)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے سردار بریدہ اسلمی سے کہا کہ اے بریدہ، تم لوگ اس کے لیے ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا جمع کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے میرے لیے ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا جمع کیا پھر میں نے جو کچھ انہوں نے جمع کیا تھا لیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو لے کر ان کے پاس جائواور کہو کہ یہ اس کا مہر ہے۔ پھر میں ان کے پاس گیاا اور کہا کہ یہ اس کا مہر ہے انہوں نے قبول کیا اور راضی ہوگئے انہوں نے کہا کہ بہت ہے، اچھا ہے۔