جہیز کے بارے میں

شادی میں جہیز دینے کی رسم ہندوستانی مسلمانوں میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ رسم ہندوستان اور پاکستان کے سوا دوسرے مسلم ملکوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ برصغیر ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم یقینی طور پر ہندوئوں سے آئی ہے۔ ہندو لوگ اپنے قدیم قانون کے مطابقٗ بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھی، اس کی تلافی کے لیے ان کے یہاں یہ رواج پڑ گیا کہ شادی کے موقع پر لڑکی کو زیادہ سے زیادہ دیا جائے۔ چنانچہ وہ جہیز کے نام پر بیٹی کو اپنی دولت کا ایک حصہ دینے کی کوشش کرنے لگے۔

اسی ہندو طریقہ کی تقلید ہندوستان کے مسلمان بھی کر رہے ہیں۔ اسلام میں اگرچہ لڑکی کو وراثت میں باقاعدہ حصہ دار بنایا گیا ہے۔ مگر مسلمانوں نے عملی طور پر لڑکیوں کو اس شرعی حق سے محروم کر رکھا ہے۔ اس کی تلافی کے لیے انہوں نے اس ہندو طریقہ کو اختیار کر لیا ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی کو کافی سامان دے کر اسے خوش کر دیا جائے۔ جہیز حقیقۃً اسلام کے قانونِ وراثت سے فرار کی تلافی ہے جس کو پڑوسی قوم سے لے کر اختیار کرلیا گیا ہے۔

کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ جہیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کیا تو ان کو اپنے پاس سے جہیز بھی عطا کیا۔ اس قسم کی بات دراصل غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیا اس کو کسی طرح بھی’’جہیز‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اور اگر اس کو جہیز کہا جائے تو ساری دنیا میں غالباً کوئی ایک مسلمان بھی نہیں جو اپنی لڑکی کو یہ پیغمبرانہ جہیز دینے کے لیے تیار ہو۔

وہ جہیز کیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو دیا۔ یہاں ہم اس کی روایت نقل کرتے ہیں:جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ(سنن النسائی، حدیث نمبر 3384)۔ یعنی حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو جہیز میں ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ دیا جس میں اذخرگھاس کا بھرائو تھا۔

واضح ہو کہ حدیث میں جہیز کا لفظ معروف قسم کا جہیز دینے کے معنیٰ میں نہیں ہے بلکہ ضروری چیزوں کا انتظام کرنے کے معنی میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتظام خود حضرت علیؓ کی رقم پر کیا تھا۔ یہ رقم حضرت علی نے اپنی ایک پرانی زرہ فروخت کرکے آپ کے حوالے کی تھی۔

مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حضرت فاطمہ کے علاوہ تین اور صاحبزادیاں تھیں جو بڑی ہوئیں اور پھر بیاہی گئیں۔ مگر مذکورہ’’جہیز‘‘ آپ نے صرف حضرت فاطمہ کو دیا۔ بقیہ صاحبزادیوں کو اس قسم کا کوئی جہیز نہیں دیا۔ اگر جہیز فی الواقع آپ کی مستقل سنت ہوتی تو آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی ضرور جہیز دیا ہوتا۔ مگر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا کہ آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی ’’جہیز‘‘ دیا ہو۔

یہ فرق خود ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ جہیز اگر اس کو جہیز کہا جا سکے بربنائے ضرورت تھا، نہ کہ بربنائے رسم۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی جب چھوٹے تھے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد(ابو طالب) سے کہہ کر ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ حضرت علی بچپن سے آپ کی زیرِ کفالت تھے۔ گویا حضرت علی ایک اعتبار سے آپ کے چچا زاد بھائی تھے اور دوسرے اعتبار سے آپ کے بیٹے کے برابر تھے۔ بچپن سے آپ کے تمام اخراجات کی فراہمی آپ کے ذمہ تھی۔ اس لیے بالکل قدرتی بات تھی کہ نکاح کے بعد نیا گھر بسانے کے لیے آ پ انہیں بطور سرپرست کچھ ضروری سامان دے دیں۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اسلام ایک ناقص دین ہے اس میں زندگی کے تمام معاملات کے بارے میں احکام موجود نہیں۔ تو مسلمان ایسے شخص سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ مگر عملاً مسلمان اسی بات کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اسلام ایک ناقص دین ہے یاا کم ازکم یہ کہ اسلام کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے طریقے زیادہ بہتر اور زیادہ قابل عمل ہیں۔

جہیز کے بارے میں مسلمانوں نے واضح طور پر ہندو طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کی دوسری رسوم جو مسلمانوں میں رائج ہیں وہ اسلام سے زیادہ دوسری قوموں کے طور طریقوں سے ماخوذ ہیں۔ اگر مسلمانوں کا یہ خیال ہو کہ اسلام کے کامل دین ہونے پر فخر کرنا ہی خدا کے یہاں ان کی مقبولیت کے لیے کافی ہے تو اس سے بڑی غلط فہمی اور کوئی نہیں۔ کیوں کہ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر فخر کرتے تھے اس کے باوجود وہ خدا کے یہاں ملعون قرار دےدیے گئے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom