زوجین کا تعلق
انسان کے خالق نے انسان کو زوجین (pair) کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا نصف ثانی (counterpart) ہیں۔ دونوں شادی شدہ زندگی کی صورت میں مل کر تخلیقی منصوبہ کو پورا کریں۔ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا کاگ (cog) بن کر زندگی کاسفر کامیابی کے ساتھ طے کریں۔ دونوں ایک دوسرے کا تکمیلی حصہ (complement) بنیں۔
اس حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (30:21)۔ یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بیشک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون (peace of mind) کا ذریعہ ہیں۔ خالق نے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے محبت رکھی ہے، تاکہ یہ مشترک سفر حسن رفاقت کے ساتھ انجام پائے۔ عورت اور مرد کو یہ سکون ابتدائی طور پر ایک دوسرے کا رفیق حیات (life partner) بننے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ اعلی صورت میں یہ سکون دونوں کو ذہنی سطح پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون دونوں کو اس وقت ملتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partner) بن جائیں۔دونوں مسلسل طور پر ایک دوسرے سے فکری تبادلۂ خیال کرتے رہیں۔ اگر آپ پتھر کے دو ٹکروں کو ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اس کے بعد وہاں ایک چنگاری نکلے گی۔ یہ اسپارکنگ (sparking)فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو دونوں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز ایمرج (emerge) کرتی ہے۔یہ اصول جس طرح مادی دنیا کے لیےہے،اسی طرح وہ انسانی دنیا کے لیے ہے۔ عورت اور مرد کو نکاح کی صورت میں یکجا کرنےسے یہی مقصود ہے۔ خالق کی منشا یہ ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد دونوں مسلسل طور پر ساتھ رہیں۔ دونوں زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال (exchange) کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہ عمل کرتے رہیں جس کو میوچول لرننگ (mutual learning) کہا جاتا ہے۔ اس طرح نکاح کی زندگی دونوں کےلیے ایک سنہری موقع ہے کہ دونوں اپنے لیے ایک انٹلکچول پارٹنر پالیں۔ اور دونوں باہمی تعاون سے اپنے آپ کو فکری اعتبار سے زیادہ ارتقا یافتہ انسان بنائیں۔
یہ بلاشبہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔ لیکن اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا دونوں کے لیے اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں اس امکان سے باخبر ہوں، اور دونوں اپنے آپ کو اس باہمی استفادے کے لیے تیار رکھیں۔ اس معاملہ کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ دونوں کے درمیان کھلا تبادلہ خیال (open exchange)ہو، اور تبادلۂ خیال کے لیےہمیشہ اعلی موضوعات کو اختیار کیا جائے۔ قرآن میں زوجین کے باہمی تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ (3:195)۔یعنی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو:
Man or woman, you are members one of another.
عورت اور مرد دونوں بلاشبہ ایک دوسرے کےلیے بہترین پارٹنر ہیں۔ لیکن یہ بات امکان کے اعتبار سے ہے۔ دونوں کے لیے پھر بھی یہ کام باقی رہتا ہے کہ وہ حسن تدبیر سے اس امکان کو واقعہ بنائیں۔ وہ عملاً اپنے آپ کو اس پارٹنر شپ کا اہل ثابت کریں۔