سوال وجواب
سوال
میں بہت مجبور ہوں ۔ بات یہ ہے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی اور جہاں میری ممی شادی کروارہی ہیں وہاں تو بالکل ہی نہیں کرنا چاہتی ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی لڑکا صرف دنیا کو دکھا نے کے لیے مجھ سے شادی کرلے ۔
مجھے صرف زندگی گذارنی ہے ۔ زندگی جینے کی ذرہ برابر بھی خواہش نہیں ہے لیکن سماج میں اکیلے ایک لڑکی زندگی نہیں گزار سکتی ۔اور کسی سے یہ بات کہہ نہیں سکتی اور کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جس سے میں مشورہ لے سکوں ۔پليزآپ میری مدد کریں ۔ میں اپنے جواب کا بے صبری سے انتظار کروں گی۔ (ایک مسلم خاتون(
جواب
شادی کے سلسلے میں اکثر لڑکے یا لڑکیاں اپنی فرضی آرزوؤں کے تحت یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا میں ان کے لیے کوئی معیاری جوڑا موجود ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں نہ کوئی بیوی معیاری بیوی ہے اور نہ ہی کوئی شوہر معیاری شوہر ۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر پسند والی شادیاں درمیان ہی میں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی معیاری جوڑے کے حصول کانام نہیں ہے بلکہ وہ غیر معیاری جوڑے کے ساتھ نباہ کرنے کا نام ہے۔
عورت اور مرددونوں کے لیے زندگی فطرت کا ایک قیمتی تحفہ ہے ۔ ہر عورت اور ہر مرد کو چاہیے کہ وہ اس تحفہ کو خوشی کے ساتھ قبول کرے ۔
وہ جینے کی طرح جیے اور جب اس کی موت آئے تو وہ اس احساس کے ساتھ مرے کہ اس نے زندگی کا فریضہ ادا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کوتا ہی نہیں کی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ غیر مطلوب جوڑے کے ساتھ زندگی گزارنا یا غیر مطلوب افراد کے ساتھ کام کرنا کوئی برائی نہیں ۔ اس کے اندر ایک بے حد مثبت پہلوچھپا ہوا ہے، وہ یہ کہ اسی کے دوران انسان کی ذہنی اور روحانی ترقی ہوتی ہے ۔
ذہنی اور روحانی ترقی، اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ انسان ناموافق صورتحال پر راضی ہوجائے، وہ فرق اور اختلاف کے باوجود مل جل کر رہنے کا طریقہ سیکھ لے ۔ اپنی پسند کی دنیا تلاش کرنے کا نام عقل مندی نہیں، عقل مندی یہ ہے کہ آدمی پسند کے خلاف جینے کا راز دریافت کرلے۔
سوال
کامیاب ازدواجی زندگی میں صرف بہو کو نصيحت كي جاتيہے۔ ایسا کیوں ہے کہ گھر کے سارے جھگڑے کی وجہ بہو کو مانا جاتا ہے ۔ کیا سسرال میں بہو کو داعی کی طرح رہنا چاہیے جو یک طرفہ نا خوش گوار یوں کو برداشت کرے؟(مز صوفیہ حیدر، بہار)
جواب
شرعی اعتبار سے ساس اور بہو، دونوں کی ذمہ داری بالکل یکساں ہے ۔ ساس کافرض ہے کہ وہ اپنی بہو کو وہی عزت اورمحبت دے جو وہ اپنی بیٹی کا حق سمجھتی ہے ۔ اسی طرح بہو کا فرض ہے کہ وہ ساس کے ساتھ اسی عزت اور محبت کا معاملہ کرے جو وہ اپنی ماں کے لیےکرتی رہی ہے۔ اس معاملہ میں دونوں میں سے جو بھی کوتاہی کرے گا وہ یقینی طور پر اس کے لیے آخرت میں پکڑاجائے گا ۔ دونوں میں سے کوئی بھی آخرت کی پکڑ سے بچنے والا نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر گھر کو امتحان کا مقام بنادیا ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے امتحان کا پرچہ ہیں ۔ اسی طرح ساس اور بہو دونوں ایک دوسرے کے لیے امتحان کا پرچہ ہیں ۔ یہ امتحان اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس میں کوتاہی کی تلافی نماز روزہ کے ذریعے بھی نہیں ہوسکتی۔
سوال
واقعہ یہ ہے کہ میرا مسئلہ وہی ہے جو بہت سی مسلم لڑکیوں کا مسئلہ ہے، اور وہ میری شادی کا مسئلہ ہے ۔ میری ماں آج کل پر یشانی میں ہیں، ورنہ وہ خود آپ سے رابطہ قائم کرتیں ۔ میرے رشتہ کے لیے بہت سے پیغامات آئے ۔ ان میں سے کوئی رشتہ میرے والدین کو پسند نہ آسکا۔ میں اللہ پر بہت یقین رکھتی ہوں مگر جب میں اپنے والدین کو پریشان دیکھتی ہوں تو اپنا اعتمادکھودیتی ہوں ۔ میری عمر20 سال سےزیادہ ہو چکی ہے ۔ میں ایک تعلیم یافتہ لڑ کی ہوں اور میں نے کمپیوٹر کی ٹر یننگ لی ہے ۔ آج کل میں ایک اسلامک ویب سائٹ پر کام کر رہی ہوں ۔ میری گزارش ہے کہ آپ مجھے پڑھنے کے لیےدعا بتائیں اور مشورہ دیں۔میں سمجھتی ہوں کہ ہر ایک کے لیے نکاح کا ایک مقر روقت ہے۔ اللہ کی رحمت سے میں اپنے کام میں کامیاب ہوں ۔(ایک پاکستانی خاتون )
جواب
مذکورہ قسم کا مسئلہ بہت سی مسلم لڑکیوں کے ساتھ پیش آرہا ہے ۔ میرے نزدیک اس معاملہ میں اصل غلطی والدین کی ہے ۔ والد ین عام طور پراپنی بیٹی کے لیے ایک آئیڈ یل لڑ کے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ یہ تلاش اکثر برعکس نتیجہ کا سبب بنتی ہے ۔ والدین اپنے جذ بہ محبت کے تحت یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ دنیا میں نہ کوئی آئیڈ یل لڑ کا ہے اور نہ کوئی آئیڈ یل لڑ کی ۔ایسی حالت میں صحیح بات یہ ہےکہ آئیڈیل کو چھوڑ کر پریکٹکل کے اصول پرمسئلہ حل کیا جائے ۔ تجر بہ بتا تا ہے کہ شادی کی کامیابی کا انحصاراس پرنہیں ہے کہ والدین کو اپنی پسند کا داماد یابہو مل جائے۔
شادی کی کامیابی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ لڑ کا اورلڑ کی دونوں زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہوں اور حقائق کی بنیاد پر ، نہ کہ جذبات کی بنیاد پر باہمی زندگی کی تعمیر کریں ۔ایسی حالت میں والدین کے لیے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ اپنی اولا دکوزندگی کے عملی حقائق سے باخبر کر یں ۔ وہ انہیں تیار کریں کہ وہ شادی کے بعد تحمل اور دانش مندی کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے زندگی کی جد و جہد کر یں ۔ اگرلڑ کے اورلڑ کی میں اس قسم کا شعور حیات موجود ہوتو یقینی طور پر وہ کامیاب زندگی حاصل کر لیں گے ،خواہ شادی کے وقت بظاہر ان کی معاشی حالت زیادہ بہتر نہ ہو۔ مذکورہ قسم کی صورت میں والد ین کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ لڑکی کی رضامندی لے کر اور اللہ کے بھروسہ پر بلا تاخیر نکاح کا معاملہ کر دیں ۔کامیاب زندگی کے معاملہ میں وہ اللہ پر بھروسہ کر میں ، نہ کہ اپنی سوچ اور تدبیر پر ۔
سوال
میں آپ کے الرسالہ کا برابر مطالعہ کرتا ہوں ۔ آپ کی بات ہمیشہ دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ مجھے آپ سے ایک سوال کا جواب چاہیے۔
مجھے بچے رکھنے میں زبردست دشواری محسوس ہوتی ہے۔ میں نے اپنے دل میں ٹھان لیا ہے کہ میں شادی کے بعد پوری زندگی بے اولاد رہوں گا۔ اس معاملہ میں آپ اپنے مشورہ سے آگاہ فرمائیں ۔(ڈاکٹر عمر علی، مہاراشٹر)
جواب
اولاد مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اولاد سے غیر معتدل محبت کی بنا پر اپنے خرچ کو غیرضروری طور پر بڑھالیا جائے۔
خرچ کو اپنی آمدنی کے دائرہ میں رکھا جائے تو کبھی اس قسم کا مسئلہ پیدا نہ ہوگا۔ اصل ضرورت خرچ پر کنٹرول کرنے کی ہے، نہ کہ اولاد پر کنٹرول کرنے کی۔
سوال
میرے دو بچے ہیں، دوسرا بچہ بڑا ضدّی ہے۔ بار بار اس کا حیران وپریشان کرنا میرے لیے ایک مسئلہ ہے۔ میں اس مسئلہ سے کیسے نجات پاؤں ؟ (ابرار احمد رفعت، سورت(
جواب
آپ نے لکھا ہے کہ آپ کا دوسرا بچہ بڑا ضدّی ہے ۔ اُس کا حیران وپریشان کرنا آپ کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق اکثر باپ اس مسئلہ سے دوچار رہتے ہیں ۔ مگر میرے نزدیک یہ کوئی مسئلہ نہیں ۔ یہ حقیقتاً لاڈ پیار کی قیمت ہے جس کو والدین عام طور پر ضد کا نام دے دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ نہ اس مسئلہ کی جڑ کو سمجھتے ہیں اور نہ اُس کو حل کر پاتے ہیں۔
میرے نزدیک لاڈپیار(pampering)سب سے بُرا تحفہ ہے جو اکثر ماں باپ اپنے بچوں کو دیا کرتے ہیں ۔ بطور خود وہ اس کو محبت سمجھتے ہیں حالاں کہ نتیجہ کے اعتبار سے وہ ایک دشمنی ہے۔ کیوں کہ ایسی روش بچہ کو ہمیشہ کے لیے غیر حقیقت پسند بنا دیتی ہے۔
سوال
میں ذہنی اعتبار سے پریشان ہوں اور اس کا حل آپ کے ذریعے سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک دینی ادارے میں سروس کرتا ہوں ۔ میری تنخواہ کم اور گھریلو حالات ناقابلِ بیان ہیں ۔ اس وقت حالات بڑے ہی خراب ہیں ۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لڑائی وفساد رونما ہوتا ہے۔ ان حالات میں دل کو اطمینان نہیں ہوتا اور خیالات فاسد ہ دل ودماغ میں آتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں؟ کیا سروس ختم کردوں یا ان تمام حالات کو برداشت کروں؟ میں معاشی اعتبار سے بہت ہی پریشان ہوں ۔ برائے کرم اس کاکوئی حل بتائیں ۔(محمد عتیق الرحمن، ہنگولی)
جواب
معاشی مسئلہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہر ایک کو اپنے حالات کے اعتبار سے ڈھونڈھنا پڑتا ہے۔ کسی کے لیے معاشی مسئلہ کا حل یہ ہوتا ہے کہ وہ کفایت اور سادگی کا طریقہ اختیار کرے ۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ کوئی ہنر سیکھے ۔ کسی کے لیے یہ ہوتا کہ وہ صرف تنہا نہ کمائے بلکہ اپنے گھروالوں کو بھی اس کام میں لگائے۔
کسی کا کیس یہ ہوتا ہے کہ وہ بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکا ۔ ایسے شخص کے لیے میرا مشورہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے قناعت کا طریقہ اختیار کریں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں ۔ تاکہ آپ کی اگلی نسل دوبارہ اس مسئلہ کا شکار نہ ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مسائل ہر ایک کو پیش آتے ہیں، خواہ اُس کی آمدنی کم ہو یا زیادہ ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ گھر والوں کی طرف سے شکایات ہوں تو اُن کا جواب تحمل کے ساتھ دیا جائے۔
ردعمل کا طریقہ ہرگز نہ اختیار کیا جائے۔ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز دانش مندی ہے ، نہ کہ زیادہ آمدنی۔
سوال
سوال یہ ہے کہ انسان کی خودداری کی اہمیت کیا ہےاور گھر والوں سے خودداری کس حد تک برتی جاسکتی ہے اور دنیا والوں سے کس حد تک۔(حافظ محمد الیاس، بیجا پور)
جواب
آج کل جس چیز کو خودداری کہاجاتا ہے اس کی تائید میں مجھے کوئی لفظ قرآن وحدیث میں نہیں ملا۔ میں اس خودداری کو غیر اسلامی سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں حمیت جاہلیہ کالفظ آیا ہے(48:26)۔
اسلام کے نزدیک اصل مطلوب چیز خودداری نہیں ہے بلکہ خود شکنی ہے۔ حمیت نہیں ہے بلکہ تواضع ہے اصرار نہیں ہے بلکہ اعتراف ہے۔ اسلام میں نہ خود ی ہے اور نہ بے خودی۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے فکر وعمل کا محور خدا بن جائے، اس کی محبوب چیز تواضع اور انکساری ہو۔
اس مزاج کا تعلق گھر کے اندر کی زندگی سے بھی ہے اور باہرکی زندگی سے بھی ۔ ایک حدیث کے مطابق، مومن کو نرم پودے کی طرح ہوجانا چاہیے جو اکڑ سے خالی ہوتا ہے۔ خود داری دراصل اکڑ کا خوبصورت نام ہے۔ جو آدمی لچک یا اعتراف کو بے عزتی سمجھتا ہے وہ اپنی اس کمزوری کے جواز کے لیے اس کو خودداری کا نام دے دیتا ہے۔
سوال
میری ازدواجی زندگی میں، میری اور میری شریک حیات کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ اس سلسلے میں میرے دماغ میں مختلف سوالات گونج رہے ہیں ۔ میری شریک حیات صحت خراب ہونے کی وجہ سے میری اجازت کے بغیر اپنے گھر چلی گئی ۔ ایک دن بعد پتہ چلا کہ خدا نے ہمیں اولاد عطا کیا ہے۔
چار ماہ بعد اس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ میں الگ سکونت اختیار کرلوں گی کیونکہ آپ کے گھر والوں سے میری بنتی نہیں ۔ وہ الگ سکونت اختیار کرنے کی ضد پر قائم ہے جب کہ میری رائے اس سے مختلف ہے۔ اس سلسلہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔(ایک قاری الرسالہ، کشمیر)
جواب
جو مسئلہ آپ نے تحریر فرمایا ہے وہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض ہیں:
1۔ ساس اور بہو کا جھگڑا کبھی دو طرفہ بنیاد پر حل نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ یک طرفہ بنیاد پر حل ہوتا ہے۔ یعنی یا تو ساس یک طرفہ طور پر سمجھوتہ کرے یا بہو یک طرفہ طور پر سمجھوتہ کرے ۔
مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ بہو کو اس کے نادان ماں باپ یک طرفہ سمجھوتہ کرنے نہیں دیتے۔ اسی طرح ساس کو اس کا نادان بیٹا یک طرفہ سمجھوتہ پر راضی نہیں کر پاتا ۔ اس بنا پر وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ۔
2۔ اس مسئلہ کا پائدار حل صرف یہ ہے کہ آدمی اُس وقت شادی کرے جب کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ مکان میں رہنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ جب تک یہ استطاعت نہ ہو، وہ انتظار کرے ۔
3۔ موجودہ حالات میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کو اس کے میکے میں رہنے دیں ۔ آپ خود وہاں کبھی کبھی جائیں مگر بیوی کو اپنے گھر لانے کی کوشش نہ کریں۔
فی الحال آپ یہی کریں اور كشادگيکے لیے مستقبل کا انتظار کریں ۔
سوال
میں1999میں، بینک میںAgriculture Officerکے عہدے پر فائزہوا تھا۔ دورانِ تعلیم الرسالہ کا مستقل قاری تھالیکن ملازمت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔
لیکن میں جب بھی گھرجاتا ہوں تو وہاں سے سارا الرسالہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔ کیوں کہ میرے والد محترم اس کے مستقل قاری ہیں۔
میری شادی ہوئے تقریباً چار سال ہونے جا رہے ہیں۔ ایک لڑکا بھی ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ شادی ہونے کے اتنی مدّت کے بعد بھی ہم لوگوں میں خوشگوار ماحول نہیں بن سکا۔ شادی کے اوائل سے ہی جھگڑے ہوتے رہے۔ کئی بار ایسے حالات ہوئے کہ شاید ہم لوگوں کو الگ ہو جانا پڑے گا۔ لیکن میں ہمیشہ صبر اور تحمل سے کام لیتا رہا۔ اور اب بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے بہتر حالات کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔
شادی کے اوائل سے ہی میری بیوی میرے گھروالوں سے نفرت کرنے لگی۔ پھر میرے والدین اور میرے سسرال والوں کے درمیان نا اتفاقی بڑھتی گئی۔ فرزانہ میرے خاندان کی پہلی بہو تھی۔اس لیے میرے والدین کو بھی بہت ساری توقعات تھیںلیکن اس نے کسی بھی طرح adjustکرنے کی کوشش نہیں کی۔
پھر کچھ دن بعد وہ سسرال جانے سے منع کرنے لگی۔ جب کہ وہ میرے ساتھ’پیلی بھیت‘ میں رہتی تھی۔ ہم لوگ لمبے وقفے کے بعد گھر جاتے تھے۔ دو چار دن گھر میں مہمان کی طرح گزار کر پھر واپس ’پیلی بھیت‘ آجانا تھا۔
دوران قیام ہم لوگ مہمان ہی رہتے تھے۔ لیکن فرزانہ نے کبھی بھی میرے بوڑھے والدین کو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلائی۔ جب کہ میں ہمیشہ اسے یہی سمجھاتا تھا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے آئے ہیں۔ سب سے مل جل کر اورسب کو خوش کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس نے میری باتوں کو کبھی نہیں مانا۔
جس کی وجہ سے میںupsetرہتا تھا۔ پھر ہم لوگوں کے درمیان اِنھیں گھریلومعاملات کو لے کر جھگڑے بھی ہوئے۔ حالانکہ وہ میرا خوب خیال رکھتی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں سے اس کی نفرت میں اضافہ ہوتا گیا۔
پھر وہ کہنے لگی کہ آپ اپنے بھائیوں کو خرچ نہیں دیں گے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ اب میں اپنے میکے ہی میں رہوں گی جب تک آپ اپنے فرائض سے چھٹکارا نہیں پا لیں گے۔
میں عید کے موقع پر اسے گھر چھوڑ آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر میں پھر اسے لینے گیا لیکن وہ آنے سے انکار کر گئی۔ میں ٹکٹcancelکرکے واپس آ گیا ہوں۔ میں نے صبر سے کام لے کر کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں کیا۔ چپ چاپ واپس’پیلی بھیت‘ آچکا ہوں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد طرح طرح کے سوالات میرے ذہن کو پریشان کیے ہوئے تھے۔
انھیںtensionsکی وجہ سے فرزانہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ وہ گھنٹوں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ کافی علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری غلطی سے ہی حالات اتنے بگڑتے چلے گئے۔ یا پھر میرے گھر والوں کی کوئی کمی رہی۔ یا پھر میرے سسرال والوں نے اسکی صحیح رہنمائی نہیں کی۔
حالانکہ میرے گھروالوں نے اس کا بہت خیال رکھنے کی کوشش کی۔ یہ بھی کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ میری بیوی اپنے سسرال میں جاکر رہی ہو۔ جہاں میری غیر موجودگی میں میرے گھروالوں نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی ہو۔ وہ جب بھی سسرال گئی میرے ساتھ ہی گئی اور میرے ساتھ ہی واپس آ گئی۔
جہاں تک میری ازدواجی زندگی کا سوال ہے میں نے اپنے جانتے ہوئے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ ایکofficerجنbasic amenitiesکے ساتھ زندگی گزارتا ہے وہ ساری چیزیں دستیاب ہیں۔ میں اپنے بھائیوں کو صرف تین ہزار روپئے ماہانہ دیتا ہوں۔
اس کے علاوہ میں اپنے گھر میں کچھ بھی نہیں دیتا ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں اپنے والدین کو کچھ دنوں کے لیے لاؤں اور U.P.دکھادوں۔لیکن میں یہ خواہش کبھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ یہ میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی میرے گھر والوں کی خیریت دریافت نہیں کرتی ہے۔ جب کہ میرے گھروالے اکثر فون کرکے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔(نازش ریحان، پیلی بھیت(
جواب
آپ کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آپ جب ملازمت میں آئے تو آپ نے الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ الرسالہ، زندگی کی سائنس بتاتا ہے۔’’الرسالہ‘‘آرٹ آف لونگ (Art of Living)کا شعور دیتاہے۔ الرسالہ یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو کیسے مینیج (manage)کیا جائے۔
الرسالہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو کچھ دن پڑھا جائے اور پھر اس کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ الرسالہ پوری زندگی کا کورس ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ دوبارہ الرسالہ پڑھنا شروع کر دیں۔ اور پابندی کے ساتھ بلا ناغہ ہر ماہ پڑھیں۔
بیوی کے معاملے میں آپ کا نظریہ غیر فطری ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھ لیجیے کہ آپ کو خونی رشتے کی بنا پر اپنے والدین سے جو دلچسپی ہے وہ آپ کی بیوی کو کبھی نہیں ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ آپ کی بیوی کا خونی رشتہ آپ کے والدین سے نہیں ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بیوی سے وہ امید نہ رکھیں جو فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ خوشگوار زندگی گذاریں تو بیوی جیسی ہے ویسی ہی اس کو قبول کرلیںاور پھر اس پر راضی ہو جایئے۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ مشترک خاندانی زندگی کو ختم کردیجیے، اور الگ گھر بنانا شروع کر دیجیے۔یاد رکھیے، زندگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔
آپ اپنے جذبات کے مطابق، زندگی کانقشہ نہیں بنا سکتے۔ زندگی کا نقشہ وہی رہے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ کی موجودہ شکایت آپ کے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اپنے غیرحقیقت پسندانہ ذہن کو ختم کر دیجیے اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔
سوال
میرا لڑکا افسر ہے۔عرب میں رہتا ہے۔بہت دیندار ہے۔میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ہے۔B.A.پاس بہو ہے۔ وہ لوگ بھی کھاتے پیتے خوش حال ہیں۔ ہم لوگ بہت ارمان سے بہو بیاہ کر لائے لیکن بہو کسی کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ میرے گھر میں بہو کی بہت عزت ہوئی۔کوئی روک ٹوک اور نہ کوئی دباؤ۔ جب میکے جانا چاہتی، میں اسے بھیج دیتی۔
میں بلاتی تو وہ اپنی مرضی سے ہی آتی۔ شادی کو 2 سال گزر گئے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ رہتی ہے۔میرے کسی رشتے دار کا فون آتا ہے تو بات نہیں کرتی۔ گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتی۔ کبھی میں کوئی چیز بنانے کو کہتی، تو کہتی ہے مجھے نہیں آتا ہے بنانا۔
بہو اچھی شکل و صورت کی ہے۔ میں نے کچھ نہیں کہا، میں خود ہی ہر کام کر لیتی ۔ پھر بھی وہ میرے گھر خوش نہیں رہی۔ ہم لوگوں نے اور میرے بیٹے نے اسے ہر طرح کا سکھ دیا۔ ہر آدمی اس کے لیے کچھ سامان لاتا، تاکہ وہ میرے گھر خوش رہے لیکن نہیں۔ وہ کسی کو اپنا نہیں سمجھتی۔ نہ صبح میں ناشتہ بنانے کی فکر نہ کھانا بنانے کی۔
میرا بیٹا اسے عرب اپنے ساتھ لے گیا وہاں بھی اس کا وہی حال ہے۔ میرے بیٹے نے لکھا ہے کہ میں نے آرام کی ہر چیز گھر میں رکھ دی ہے کہ وہ خوش رہے لیکن اس کا یہاں دل نہیں لگتا۔ میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ یہ میکے رہنا چاہتی ہے۔ مولانا صاحب مجھے اس مسئلے کا حل بتایئے۔(ایک قاری الرسالہ(
جواب
زندگی میں ہمیشہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے۔ مگر آدمی ایسا کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے، جب کہ تیسرا چوائس اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ شادی کا معاملہ بھی یہی ہے۔اکثر ماں باپ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ کر اچھی شکل و صورت والی بہو لاتے ہیں، اور پھر شادی کے بعد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بہو ان کی بات نہیں سنتی۔
والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اچھی شکل و صورت والی بہو کبھی ان کی بات نہیں سنے گی۔ اگر وہ بات سننے والی بہو چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ معمولی صورت والی بہو اپنے گھر میں لائیں۔ اس معاملے میں اور کوئی چیز ان کے لیے قابل عمل نہیں۔
اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ دو چیزیں اس کے مزاج کو خراب کر دیتی ہیں۔ ایک، اس کے ماں باپ، اور دوسرے آئینہ۔ ایسی لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی سسرال میں آتی ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کو بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔
ایسی حالت میں لڑکے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اگر اچھی شکل و صورت والی لڑکی کو اپنی بہو بناتے ہیں تو وہ اس سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اور اگر وہ بہو کو اپنی امید کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی لڑکی کو اپنے گھر لائیں جو صورت کے اعتبار سے پُر کشش نہ ہو۔اس معاملے میں سب سے بُرا کردار لڑکی کے ماں باپ کا ہے۔لڑکی کے ماں باپ عام طور پر یہ کرتے ہیںکہ وہ اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار(over-pampering)کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی جب شادی کے بعد اپنی سسرال میں جاتی ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہاں بھی اپنے لیے لاڈ پیار والے سلوک کی امیدوار رہتی ہے۔
مگر فطری طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس لیے اس قسم کی لڑکیاں ہمیشہ پریشان رہتی ہیں۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ بھاگ کر اپنے میکے جاتی ہیں جو کہ صرف ان کی پریشانی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میکے والے اور سسرال والے دونوں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔
سوال
میری عمر 29 سال ہے۔شادی ہوئے قریب دو سال ہو گئے۔ایک بچہ بھی ہے۔ میں ایک گاؤں میں رہتا ہوں۔لیکن میری شادی شہر میں رہنے والی لڑکی سے ہوئی ہے۔ میری سمجھ میں میری بیوی کسی بھی طرح عقل مند نہیں ہے۔ہمارے گھر والے اس کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔لیکن وہ جب سے میرے گھر آئی ہے، گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ کرنے لگتی ہےاور کسی بات کا فوراً الٹا جواب دے دیتی ہے۔اس کے ذہن میں ذرا سا بھی اس بات کا اثر نہیں رہتا کہ ہم سسرال میں ہیں اور سسرال والوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔یہاں تک کہ میرے ساتھ بھی الٹی سیدھی بات بول جاتی ہے۔ لاکھ سمجھاؤ لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتی۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ امیر باپ کی بیٹی ہے۔بلکہ مالی اعتبار سے ہم دونوں گھر والے یکساں ہیں۔
آخر یہ اس کی نادانی ہے یا اس کا غرور کہ گھر میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتی، حالاں کہ کئی بار ہم نے اس کو مارا بھی۔لیکن پھر بھی اس کی عادت میں ذرا سا سدھار پیدا نہیں ہوا۔میں سوچتا ہوں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عقل مند عور ت کا ہاتھ ہوتا ہے۔لیکن میرا کیا ہوگا۔ میری زندگی کیسے گزرے گی؟(ایک قاری الرسالہ، جھاڑکھنڈ)
جواب
آپ کا خط مورخہ یکم اگست 2006 ملا۔اس کو میں نے غور سے پڑھا۔میرے نزدیک اس معاملے میں ساری غلطی صرف آپ کی ہے، کسی اور کی نہیں۔
1۔ عقل مند عورت، ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کو تربیت دے کر عقل مند بنانا پڑتا ہے۔میرے اندازے کے مطابق، آپ نے یہ کام نہیں کیا۔
2۔ قرآن میں عورت کو تنبیہ کے لیے علامتی ضرب کی اجازت، استثنائی طور پر، صرف اُس وقت ہے جب کہ اُس کے اندر نُشوز(سورہ النساء،4:34) پایا جائے۔آپ نے جو اپنی بیوی کو مارا تو بلاشبہ اس کا سبب نشوز نہیں تھا۔اس لیے آپ نے بلا شبہ ایک سخت غلط کام کیا ہے۔ آپ اس کی تلافی کے لیے فوراً اپنی بیوی سے معافی مانگیےاور خدا سے اس کے لیے توبہ کیجیے۔
3۔ اپنے تجربے کے مطابق، میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیوی سے آپ کی شکایت کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے والدین کی خدمت نہیں کرتی۔ میرے نزدیک، آپ کا یہ مطالبہ بھی غلط ہے۔ کیوں کہ شوہر کے والدین کی خدمت کرنا، بیوی کے شرعی فرائض میں شامل نہیں۔
4۔ آپ نے لکھا ہے کہ میرے گھر والے میری بیوی کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔ یہ بات بلا شبہ غلط ہے۔آپ نے صرف یہ کیا ہے کہ گھر والوں کے بولے ہوئے لفظ کو یک طرفہ طور پر سن کر اس کو اپنے خط میں نقل کر دیا۔آپ نے خود سے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ عملاً آپ کے گھر والوں کا روّیہ آپ کی بیوی کے ساتھ کیا ہے۔میں آپ کے اس بیان کو قطعی طور پر درست نہیں مانتا۔
5۔ آپ کی اصل غلطی یہ ہے کہ آپ مشترک خاندان میں رہتے ہیں۔آپ کو دو میں سے ایک کام کرنا چاہیے، یا تو آپ الگ گھر لے کر بیوی کے ساتھ رہیں، یا آپ کو اگر مشترک خاندان میں رہنا ہےتو آپ یک طرفہ طور پر صبر کا طریقہ اختیار کریں۔
آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ میری دو کتابیں’’خاتونِ اسلام‘‘اور’’عورت معمارِ انسانیت‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
سوال
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی یا نکاح کے معاملے میں اسلام کا طریقہ ارینجڈ میریج (arranged marriage)کا طریقہ ہے، مگرموجودہ زمانے میں اِس طریقے کو روایتی (traditional) طریقہ سمجھا جاتا ہے۔آج کل کے نوجوانوں کا خیال ہے کہ شادی یا نکاح زندگی کا ایک بے حد اہم معاملہ ہے۔ اِس لیے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کایہ ماننا ہے کہ اُنھیں اِس معاملے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔اِس دوسرے طریقے کو عام طور پر لَو میریج(love marriage)کہا جاتاہے۔ اِس معاملے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں۔(رابعہ، کرناٹک)
جواب
موجودہ دنیا عقل کا امتحان ہے۔ جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اورجو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے، شادی لَو میریج کا نام نہیں۔ لَو أفیئر(love affair)یا لَو میریج کی کوئی حقیقت نہیں۔
یہ صرف سطحی جذباتیت کا خوب صورت نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی یا نکاح اپنے لیے ایک لائف پارٹنر حاصل کرنے کا نام ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ نکاح کے معاملے کو اِسی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔اِس معاملے میں وہ جذباتی مغلوبیت کے تحت کوئی کام نہ کریں، بلکہ خالص عقلی فیصلے کے تحت کام کریں۔
لَو أفیئر(love affair)یا لَو میریج صرف وقتی جذباتیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جب کہ نکاح کا تعلق عور ت یا مرد کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں دانش مندانہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے آدمی کی زندگی کو خوش گوار بنا دیتا ہے۔
اِس کے برعکس، جذباتی فیصلہ ہمیشہ کے لیے اُس کی زندگی کو تلخ بنا دیتا ہے۔ اِس دنیا میں عقلی فیصلے کا نتیجہ کامیابی ہےاور جذباتی بہاؤ کا نتیجہ ناکامی۔
سوال
عرض ہے کہ میں ازدواجی زندگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہوں۔ مجھ کو اپنی بیوی کی طرف سے مسلسل شکایت رہتی ہے۔ وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔
ان کا ذہنی معیار بہت پست ہے۔ اِس لیے گھر میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے میں سخت قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوں۔ براہِ مہربانی، میرے اِس مسئلے کا کوئی حل تجویز فرمائیں۔(ایک قاری الرسالہ، جموں و کشمیر(
جواب
آپ جس ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں، اس کا حل صرف ایک ہےاور وہ ہے اِس کا سبب خود اپنے اندر ڈھونڈنا۔
اب تک آپ اِس کا سبب فریقِ ثانی کے اندر ڈھونڈتے رہے۔ اب آپ یہ کیجیے کہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیےاور خود اپنے آپ کو بدلیے۔ آپ کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور ممکن حل موجود نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہےتو وہ فوراً یہ کرتا ہے کہ خود اپنے ذہنی معیار کے مطابق، اُس کا حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ مگر جب اس کے خود ساختہ فارمولے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو وہ فریقِ ثانی کو الزام دینے لگتا ہے۔ اس کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں تو صحیح ہوں، یہ دراصل دوسرا فریق ہے جو مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔
یہ آئڈیل ازم(idealism)کا طریقہ ہے۔ مگر اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں آئڈیل ازم کبھی حاصل نہیں ہوتا۔
Idealism can not be achieved in this world.
آپ کے لیے ذہنی تناؤ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ پریکٹکل طریقہ ہے۔ یعنی یہ دیکھنا کہ موجودہ صورِ ت حال میں عملی طور پر کیا ممکن ہے، نہ یہ کہ معیاری اعتبار سے کیا ہونا چاہیے۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔ اور ہر مسئلہ صرف حکمت کے ذریعے حل ہوتا ہے۔
پریکٹکل طریقہ اختیار کرنے کا مطلب پسپا ہونا یا شکست قبول کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد اپنے لیے فرصتِ عمل تلاش کرنا ہے۔ ذہنی تناؤ کے ساتھ کوئی شخص، مواقع کو استعمال(avail) نہیں کرسکتا۔ اِس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی یک طرفہ طور پر ایڈجسٹ کر لے، تاکہ وہ مواقع کو زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے کے قابل ہو سکے۔
ذہنی تناؤ ایک قسم کی نفسیاتی خود کشی ہے۔ ذہنی تناؤ ہمیشہ کسی خارجی سبب سے پیدا ہوتا ہے۔ اور آدمی اُس سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ کو اس کی سزا دینے لگتا ہے۔ ایسی نادانی آپ کیوں کریں۔اس خود اختیار کردہ سزا سے بچنے کی آسان تدبیر یہ ہے کہ آدمی آئڈیل ازم کو چھوڑ دے، وہ پریکٹکل بن جائے۔ وہ اُس فارمولے کو اختیار کرے جس کو ایک شخص نے مثال کی صورت میں اِس طرح بیان کیا ہے -------------------- اگر تم چوکور ہو، اور تم کسی گول خانے میں پڑ جاؤتو اپنے آپ کو گول بنا لو۔
یہ شکست کا فارمولا نہیں ہے، بلکہ وہ فتح کا فارمولا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
سوال
میری شادی 2004 میں ہو ئی، اس میں میری سسرال والوں نے مجھے کافی جہیز دیاجس میں دوسری چیزوں کے ساتھ 10 تولہ سونا بھی موجود ہے۔اس وقت تو ان کو میں نے منع کیا تھا کہ آپ یہ سب چیزیں نہ دیں، لیکن وہ نہیں مانے۔
ظاہر ہے کنڈیشنڈ مائنڈ (conditioned mind)ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا اور میں بھی یہ سارا سامان لے کر گھر چلا آیا۔اب جیسا کہ آپ کی تحریریں مسلسل پڑھنے سے میری ڈی کنڈیشننگ ہو رہی ہےتو خدا کی پکڑ اور آخرت کے ڈر سے میں یہ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ یہ چیز کہیں آخر ت میں گھاٹے کا سبب نہ بن جائے۔آپ مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ کیا مجھے اس کی رقم اپنے سسر کو واپس کرنا چاہیے یا پھر اس کی کوئی اوردوسری صورت ہےجس سے اس کی تلافی ہو سکے۔ (شکیل احمد، اندور)
جواب
شادیو ں میں جہیز کا موجودہ طریقہ بلا شبہ ایک بدعت ہے۔ اس اعتبار سے جہیز کے رواج کو ختم کیا جانا چاہیے۔ لیکن ملے ہوئے جہیز کا معاملہ اِس سے الگ معاملہ ہے۔ اس کی واپسی کی ضرورت نہیں۔البتہ اگر ممکن ہو تو آپ اس کو کسی تعمیری کام میں استعمال کریں، مثلاً اپنے لیے گھر بنانا، دعوہ ورک کرنا، وغیرہ۔
سوال
مجھے نہیں معلوم میں کہاں سے شروع کروں۔ میں جب سولہ سال کی تھی، تو میں نے اپنے اکیس سالہ بھائی کو کھو دیا۔ اس کے فوراً بعد میرے والدین فوت ہو گئے۔ شادی کے بعد میرے دو بھائی(brothers in law)اپنے پیچھے دو لڑکیوں کو چھوڑ کر انتقال کر گئے۔ ایسی کٹھن صورتِ حال میں ، میں کیا کروں۔ کیا آپ مجھے کوئی دعا پڑھنے کی نصیحت کریں گے؟(مز ثنا خان، پاکستان)
جواب
آپ کو جو صورتِ حال پیش آئی ہے، وہ آپ کے لیے ایک نعمت ہے۔ دنیا کے سہارے کا رہنا یا نہ رہنا، دونوں اللہ کے فیصلے ہیں۔ جب آپ دیکھیں کہ دنیا کے سہارے آپ سے ٹوٹ رہے ہیں، تو اس کو پازیٹیو سنس (positive sense) میں لیں۔ اِس کو سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ رب ا لعالمین کا آپ کے لیے منصوبہ ہے کہ آپ رب ا لعالمین سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ آپ اس کی رحمت کے مستحق بنیں۔ آپ کے اندر زیادہ سے زیادہ اسپریچول ڈیولپمنٹ(spiritual develpment) ہو۔ یہ سب باتیں شکر کی باتیں ہیں، نہ کہ شکایت کی باتیں۔