تاریخ کی مثال

نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان اور حیوان دونوں ایک مشترک مورث اعلیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔حیوانات کی ایک نسل ترقی کرتے کرتے بندر (چمپینزی) تک پہنچی۔اور بندر کی یہ نسل مزید ترقی کرتے کرتے انسان بن گئی۔

اس سلسلے میں  ایک سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ ہے تو حیوان اور انسان کی درمیانی کڑیاں کہاں  ہیں۔یعنی وہ انواع کون سی ہیں جو ابھی ارتقاء کے درمیانی سفر میں تھیں اور اس بنا پر ان کے اندر کچھ حیوانی پہلو تھے اور کچھ انسانی۔اگرچہ حقیقی طور پر ابھی ایسی کوئی درمیانی نوع دریافت نہیں ہوئی ہے۔تا ہم علماء ارتقاء کو یقین ہے کہ ایسی انواع گزری ہیں۔البتہ ان کا سراغ انہیں ابھی تک نہیں ملاہے۔ان مفروضہ کڑیوں کو غلط طور پر گم شدہ کڑیوں (missing links)کا نام دیا گیا ہے۔

1912ء میں لندن کے اخبارات نے جو پر جوش طور پر یہ خبر دی کہ بندر اور انسان کے درمیان کی ایک گمشدہ کڑی دریافت ہو گئی ہے۔یہ وہی کڑی ہے جس کو ارتقاء کی تاریخ میں پلٹ ڈاؤن انسان (Piltdown Man)کہا جاتا ہے۔  اس کی حقیقت یہ تھی کہ لندن کے برٹش میوزیم کو قدیم زمانے کا ایک جبڑا ملا جس کا ڈھانچہ بندر جیسا تھا مگر اس کا دانت انسان کے دانت سے مشابہ تھا۔اس ہڈی کے ٹکڑے کی بنیاد پر ایک پوری تصویر بنائی گئی جو دیکھنے والوں کو بندرنما انسان یا انسان نما بندر دکھائی دیتی تھی۔اس کو پلٹ ڈاؤن   انسان  کا  نام  دیا  گیا  ۔کیوں  کہ  وہ  پلیٹ  ڈاؤن  نامی مقام سے حاصل ہوا تھا۔

پلٹ ڈاؤن انسان کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی۔وہ باقاعدہ طور پر نصاب کی کتابوں میں شامل کر لیا گیا۔مثال کے طور پر آر ایس لل (R.S.Lull) کی کتاب عضویاتی ارتقاء (Organic Evolution)میں۔بڑے بڑے علماء و مفکرین نے اس کو جدید انسان کی علمی فتوحات میں شمار کیا۔مثلاً ایچ جی ویلز (1946-1866)نے اپنی کتاب، تاریخ کا خاکہ (The Outline of History)میں، اور برٹرینڈررسل (1970-1872) نے اپنی کتاب ،مغربی فلسفہ کا تاریخ(A History of Western Philosphy) میں۔تاریخ اور حیاتیات کی کتابوں میں پلٹ ڈاؤن انسان کا ذکر اس طرح کیا جانے لگا جیسے کہ وہ ایک مسلمہ حقیقت ہو۔

تقریباًنصف صدی تک جدید علماء اس  "عظیم دریافت"  سے مسحور   رہے۔یہاں تک کہ 1953 ء میں بعض علماء کو شبہ ہوا۔انہوں نے برٹش  میوزیم کے آ  ہنی فائر پروف بکس سے مذکورہ جبڑا  نکالا۔اس کو سائنسی طریقے سے جانچا۔تمام متعلق پہلوؤں  سے اس کی تحقیق کی۔آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مکمل طور پر ایک فریب تھا جس کو حقیقت سمجھ لیا گیا۔

پلٹ ڈاؤن انسان کی اصل حقیقت یہ تھی کہ ایک شخص نے بندر کا ایک جبڑا لیا۔اس کو مہوگنی رنگ میں رنگا اور پھر اس کے دانت کو ریتی سے گھس کر آدمی کے دانت کی طرح بنایا۔اس کے بعد اس نے یہ جبڑا یہ کہہ کر برٹش میوزیم کے حوالے کر دیا کہ یہ اس کو پلٹ ڈاؤن (انگلینڈ) میں ملا ہے۔

یہ ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے۔اس کی تفصیل کے لیے چند حوالے یہاں نقل کیے جاتے ہیں:

1. Encylopaedia Britanica (1984) "Piltdown Man"

2. Bulletin of the British Museum (Natural History) Vol. 2, No. 3 and 6     

3. J.S Weiner, The Piltdown Forgery   (11955)

4. Ronald Millar, The Piltdown Men  (1972)

5. Reader’s Digest, November 1956

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom