اصول تعلیل کی موت

کہا جاتا ہے کہ نیوٹن (1727-1642)اپنے باغ میں تھا۔اس نے سیب کے ایک درخت سے سیب کا پھل گرتے ہوئے دیکھا۔ سیب کا پھل شاخ سے الگ ہو کر نیچے کیوں گرا۔وہ اوپر کیوں نہیں چلا گیا۔اس نے سوچا،اس سوال نے آخرکار اس کو یہاں تک پہنچایا کہ زمین میں قوتِ کشش ہے۔وہ ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پھل درخت سے ٹوٹ کر زمین پر گرتا ہے، وہ اوپر کی طرف نہیں جاتا۔

مگر یہ آدھی حقیقت تھی۔نیوٹن کو سوچنا چاہیے تھا کہ درخت کا پھل اگر اوپر سے نیچے گرتا ہے تو اسی درخت کا تنہ نیچے سے اوپر کی طرف کیوں جاتا ہے۔ایک ہی درخت ہے۔اس کی جڑیں زمین کے نیچے کی طرف جا رہی ہیں۔اس کا پھل ٹوٹتا ہے تو وہ گر کر نیچے آجاتا ہے۔مگر اسی درخت کا تنہ اور اس کی شاخیں زمین سے اُٹھ کر اوپر کی طرف چلی جا رہی ہیں۔

درخت کا یہ دو گونہ پہلو نیوٹن کے مفروضہ کی نفی کر رہا تھا۔تا ہم اس نے معاملہ کے ایک پہلو کو چھوڑ کر اس کے دوسرے پہلو کو لے لیا۔پھر اسی کی روشنی میں اس نے خلا میں پھیلے ہوئے شمسی نظام کے اصول مرتب کیے۔وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ تمام اجرام میں ایک خاص تناسب سے قوتِ کشش موجود ہوتی ہے۔یہی کشش سورج اور اس کے گرد گھومنے والے سیاروں کو سنبھالے ہوئے ہے اور اس کو نہایت صحت کے ساتھ متحرک رکھتی ہے۔

یہ طرزِ فکر مزید آگے بڑھا۔یہاں تک کہ آئن سٹائن (1955-1879) نے اپنے نظریہ اضافیت کے تحت اس کو مزید موکّدکیا۔آئن سٹائن کی تحقیق اگرچہ نیوٹن کے تمام نظریات کی تصدیق نہیں کرتی ۔تاہم نظامِ  شمسی کے سلسلے میں اس کے نظریہ کی بنیاد کشش ثقل کے اصول پر ہی قائم ہے۔

Einstein's theory of relativity declares that gravity controls the behaviour of planets, stars, galaxies and the universe itself and does it in a predictable manner.

آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت کہتا ہے کہ کشش ثقل سیاروں، ستاروں ، کہکشاؤں اور خود کائنات کے عمل کو کنٹرول کرتی ہے۔یہ عمل اس طرح ہوتا ہے کہ اس کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔

اس سائنسی دریافت کو ہیوم (1776-1711) اور دوسرے مفکرین نے فلسفہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کائنات کا سارا نظام اصول تعلیل (Principle of Causation)  پرچل رہا ہے۔جب تک اسباب و علل کی کڑیاں معلوم نہیں تھیں انسان یہ سمجھتا رہا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والا ایک خدا ہے۔مگر اب ہم کو اسباب و علل کے قوانین کا علم ہو گیا ہے۔ اب ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ تعلیل (Causation)کا مادی اصول کائنات کو متحرک کرنے والا ہے، نہ کہ کوئی مفروضہ خدا۔

مگربعد کی تحقیقات نے اس مفروضے کا خاتمہ کر دیا۔بعد کو ڈیراک ، ہیزن برگ اور دوسرے سائنس دانوں نے ایٹم کے ڈھانچہ کا مطالعہ کیا۔انہوں نے پایا کہ ایٹم کا نظام اس اصول کی تردید کر رہا ہے جو شمسی نظام کے مطالعہ کی بنیاد پر اختیار کیا گیا تھا۔

اس دوسرے نظریہ کو کوانٹم نظریہ کہا جاتا ہے اور وہ مذکورہ اصول تعلیل کی  کامل تردید ہے:

The quantum mechanics theory maintains that at the atomic level, matter behaves randomly.

 کوانٹم میکینکس  کا نظریہ کہتا ہے کہ ایٹم کی سطح پر مادہ غیر مرتب انداز میں عمل کرتا ہے۔

سائنس میں کسی "اصول" کامطلب یہ ہوتا  ہےکہ وہ سارے عالم میں یکساں طور پر کام کرتا ہو۔اگر ایک معاملہ بھی ایسا ہو جس پر وہ اصول چسپاں نہ ہوتا ہو تو علمی طور پر اس کا مسلّمہ اصول ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔چنانچہ جب یہ معلوم ہوا کہ ایٹم کی سطح پر مادہ  اس طرح عمل نہیں کرتا جس کا مشاہدہ نظامِ شمسی کی سطح پر کیا گیا تھا تو تعلیل بحیثیت سائنسی اصول کے رد ہو گیا۔

آئن سٹائن کو یہ  بات نا قابلِ فہم معلوم ہوئی۔کیونکہ اس طرح کائنات مادی کرشمے کے بجائے ارادی کرشمہ قرار پا رہی تھی۔اس نے اس مسئلہ پر باقاعدہ تحقیق شروع کی۔ اپنی زندگی کے آخری 30 سال اس نے اس کوشش میں  صرف کر دیے کہ نظام فطرت میں اس تضاد کو ختم کرے۔شمسی نظام اورایٹمی نظام دونوں کے عمل کو ایک قانون کے تحت منّظم کر سکے۔مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔یہاں تک کہ بالآخر ناکام مر گیا ۔

Einstein spent the last 30 years of his life trying to reconcile these seeming contradictions of nature. He rejected the randomness of quantum mechanics. "I cannot believe that God plays dice with the cosmos", he said.

آئن سٹائن نے اپنی آخری زندگی کے30 سال اس پر صرف کیے کہ فطرت کے اس بظاہر متضاد اصول کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرے۔اس نے کوانٹم نظریہ کی بے ترتیبی کو ماننے سے انکار کر دیا ۔اس نے کہا کہ میں یقین نہیں کر سکتا کہ خدا کائنات کے ساتھ جوا کھیل رہا ہے۔

ایسامعلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا بیان کائنات کو پکڑے ہوئے ہے۔شمسی نظام کی سطح پر حرکت کا مطالعہ کر کے انسان نے اٹھارویں  اور انیسویں صدی میں یہ رائے قائم کر لی کہ اس کی حرکت معلوم مادی اسباب کے تحت ہو رہی ہے۔یہ با اختیار خدا کے قرآنی تصور کی گویا تردید تھی مگر علم کا دریا جب آگے بڑھا تو دوبارہ قرآن والی بات غالب آگئی۔بیسویں صدی میں ایٹمی نظام کے مطالعہ نے بتایا کہ ایٹم کی سطح پر اس کے ذرات کی حرکت کا کوئی معلوم قاعدہ نہیں۔

ایک سائنس دان اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے:

The laws of physics discovered on earth contain arbitrary numbers, like the ratio of the mass of an electron to the mass of a proton, which is roughly 1840 to one. Why? Did a creator arbitrarily choose these numbers? (lan Roxburg).

طبیعات کے قوانین جو زمین پر دریافت کیے گئے ہیں وہ تحکمی گنتیوں پر مشتمل ہیں، جیسے الیکٹران کی مقدار مادہ کا تناسب ایک پروٹان کے مقدار مادہ سے جو کہ تقریباً 1840 کے مقابلے میں ایک ہوتا ہے۔کیوں۔کیا ایک خالق نے تحکمی طور پر انہیں گنتیوں کا انتخاب کر رکھا ہے۔(سنڈے ٹائمس،  لندن، 4 دسمبر 1977)

یہ الفاظ سائنس دان کی زبان سے اس بات کا اعتراف ہیں کہ کائنات انسانی علم کے احاطہ میں نہیں آتی۔کائنات ایک قادر مطلق خدا کی مرضی کا ظہور ہے۔اور خدا کی مرضی کے تصور کے تحت ہی اس کی واقعی توجیہ کی جا سکتی ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom