کتابِ محفوظ

ایک کاتب صاحب کو ایک کتاب کا مسوّدہ کتابت کے لیے دیا گیا۔اس مسودہ میں ایک جگہ محدث "ابو دعاد" کا نام تھا۔کاتب صاحب "ابو دعاد" سے واقف نہ تھے۔البتہ وہ "ابو داؤد" کو جانتے تھے۔چنانچہ انھوں نے "ابو دعاد" کی جگہ "ابو داؤد" لکھ دیا۔اسی طرح ایک مضمون میں ایک جگہ "ہیلی کاپٹر" کا لفظ تھا۔کاتب صاحب اس کو سمجھ نہ سکے۔انھوں نے اصل لفظ کی جگہ "املی کا پیڑ" لکھ دیا۔

اس قسم کی غلطیوں کی مثالیں بہت عام ہیں۔ایک آدمی کسی مضمون کو پڑھ رہا ہے یا اس کو نقل کر ہا ہے۔اس درمیان میں ایک ایسا جملہ آتا ہے جس کو وہ سمجھ  نہیں پاتا۔چنانچہ اس کو وہ اپنے ذہن کے مطابق بدل کر کچھ سے کچھ کر دیتا ہے۔حتٰی      کہ ایسے بھی لوگ ہیں جو کسی ذاتی غرض کے تحت اصل  متن میں بالقصد  تبدیلی کرتے ہیں اور اپنی طرف سے اس میں ایسی باتیں شامل کر دیتے ہیں  جو اصل کتاب میں اس کے مصنف نے شامل نہ کی تھیں۔

پچھلی آسمانی کتابوں میں جو تحریفات ہوئی ہیں ان کی وجہ انسان کی یہی کمزوری ہے۔ قرآن میں ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو سات دنوں (ایّام)  میں پیدا کیا۔یہی بات بائبل میں اس طرح ہے کہ ساتوں دن کی الگ الگ تفصیل ہے۔ہر دن کی تخلیقات کا ذکر کرنے کے بعد اس میں یہ فقرہ ملتا ہے "اور شام ہوئی اور صبح ہوئی" ۔یہ فقرہ یقینی طور پر مذکورہ بالا ذہن کے تحت  انسان کا اضافہ ہے ۔کسی بزرگ نے بطور  خود بائبل کے جملہ کو مکمل کرنے کے لیے یہ الفاظ بڑھا دیے۔قرآن کے الفاظ میں یہ گنجائش ہے کہ دن کو دور (period) کے معنی میں لے سکیں۔مگر بائبل میں مذکورہ فقرہ کے اضافہ نے اس کو دور کے معنی میں لینا نا ممکن بنا دیا۔

بائبل میں اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔حتیٰ کہ بعض مثالیں نہایت بھونڈی ہیں۔ مثلاً قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰ کو خدا نے یہ معجزہ دیا کہ وہ اپنا ہاتھ نکالیں تو وہ چمکنے لگے۔مگر بائبل میں اس کا ذکر ہے تو وہاں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر ڈھانک لے۔اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا۔اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا(خروج،:74)۔ بائبل کے اس فقرہ میں "کوڑھ سے" یقینی طور پر بعد کے لوگوں کا تشریحی اضافہ ہے۔قرآن کے الفاظ کے مطابق حضرت موسیٰ کے ہاتھ کا چمکنا خدائی سبب سے معلوم ہورہا ہے اور بائبل کے الفاظ کے مطابق مرض کے سبب سے۔

قرآن  تمام آسمانی کتابوں میں واحد کتاب ہے جس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہو سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری خود ان کتابوں کے حامل انسانوں پر ڈالی گئی تھی۔اس لیے قرآن میں ان کے لیے استحفاظ کا لفظ آیا ہے۔یعنی حفاظت چاہنا :اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ (5:44)۔وہ خدا کی کتاب پر نگہبان ٹھہرائے گئے تھے۔اس کے برعکس، قرآن  کے بارے میں حافظ کا لفظ آیا ہے یعنی حفاظت کرنے والا:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْن(15:9)۔ یہ یاد دہانی (قرآن) ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

قرآن میں ایسے بہت سے مواقع تھے جہاں حاملین قرآن کے لیے گنجائش تھی کہ وہ اس میں مذکورہ بالا قسم کی تبدیلیاں کر ڈالیں۔کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں کہ انھوں نے عملاً ایسا کیا بھی مگر انہوں نے جو کچھ کیا وہ " حاشیہ" کی حد تک محدود رہا۔ "متن" میں وہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کر سکے۔حاشیہ اور تفسیر میں چونکہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے نہ تھے،اس لیے اس میں انھوں نے طرح طرح کی معصومانہ تبدیلیاں کردیں۔مگر جہاں تک متن کا تعلق ہے،اس کو خدا نے براہِ راست اپنی نگرانی میں لے رکھا تھا، اس لیے یہاں وہ کسی قسم کا ردّو بدل کرنے سے قاصر رہے۔

اس موقع پر وضاحت کے لیے ہم دو مثالیں دیتے ہیں۔قرآن کی پہلی نزولی آیت ہے:اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ(96:1)۔پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ اسی طرح دوسرے مقام پر ہے:  سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى (87:6)۔ہم تجھ کو پڑھا دیں گے پھر تو نہ بھولے گا۔ان آیات میں  اقرأ اور سنقرء کے الفاظ سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے کوئی کتاب یا کوئی لکھی ہوئی چیز رکھی گئی اور کہا گیا کہ اس کو پڑھو۔

یہ بات مسلمانوں کے عام عقیدہ کے سراسر خلاف ہے ۔کیونکہ مسلمان ساری دنیا میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ اُمی تھے۔گویا آیت کے یہ الفاظ اپنے ظاہر کے اعتبار سے مسلمانوں کے عقیدہ میں مانع ہیں اور مخالفین اسلام کو غیر ضروری طور پر یہ کہنے کا موقع دیتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمی نہیں تھے بلکہ پڑھے لکھے تھے۔اس کے باوجود ایسا نہیں ہوا کہ دوسری کتابوں کے متن کی طرح مسلمان قرآن کے ان الفاظ کو بدل دیں۔یہ قرآن کے محفوظ کتاب ہونے کا ایک واضح داخلی ثبوت ہے۔ورنہ اگر دوسری کتابوں کی طرح کا معاملہ ہوتا تو قرآن میں ہم کو  اقرأ(پڑھو)کی  جگہاُتلُ(تلاوت کرو)یا تَلَفَّظ(بولو) لکھا ہوا ملتا۔اسی طرح لکھنے والوں نے  سَنُقرِئُکَ (ہم تم کو پڑھائیں گے)کے بجائے سنحفظک (ہم تمھارے لیے محفوظ کردیں گے) لکھ دیا ہوتا۔

اسی طرح ایک مثال  سورہ القیامۃکی آیت ہے: وَقِيلَ ‌مَنْ ‌راقٍ (75:27)۔اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک والا۔تمام دنیا کے مسلمان جب اس آیت کو پڑھتے ہیں تو وہ مَن پر وقفہ (pause)کرتے ہیں۔یعنی مَن کے بعد کسی قدر رک کر راقٍ کہتے ہیں۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے والے اصحاب نے بیان کیا کہ آپ نے جب یہ آیت پڑھی تو آپ نے حرف مَنپر وقفہ (pause)کیا۔ورنہ   نحو و صرف کے فن (عربی گریمر)کے اعتبار سے اس کی کوئی بھی وجہ نہیں ہے کہ یہاں یہ وقفہ کیوں کیا جائے۔اگر قرآن کے ساتھ اس کے حاملین وہ معاملہ کر سکتے جو دوسری کتابوں کے ساتھ اس کے حاملین نے کیا تو لازماًایسا ہوتا کہ یہ وقفہ باقی نہ رہتا۔ایسی حالت میں مسلمان اس کو   وَقِيلَ ‌مَنْ ‌راقٍ پڑھتے، نہ کہ وَقِيلَ ‌مَنْ ‌ (سکتہ) راقٍ ۔

اسی طرح قرآن میں ہے:

يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذا طَلَّقْتُمُ النِّساءَ ((65:1۔اے نبی، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو۔

یہ جملہ نحو و صرف کے عام قاعدہ کے خلاف ہے۔اس میں واحد سے خطاب کر کے جمع کی ضمیر لائی گئی ہے۔عام لکھنے اور بولنے والے کبھی ایسا نہیں کرتے۔اگر قرآن کا وہ معاملہ ہوتا جو دوسری آسمانی کتابوں کا ہے تو یقینی طور پرایسا ہوتا کہ کچھ مسلمان اس آیت کے الفاظ کو بدل کر اس طرح لکھ چکے ہوتے  :

یا ایّھا النبی اذا طلقت النساء (اے نبی، جب تو عورتوں کو طلاق دے)، یا ایھا الرسل اذا طلقتم النساء(اے رسولو، جب تم سب لوگ عورتوں کو طلاق دو)۔

یہی معاملہ طرز تحریر کا ہے۔عربی فن خطاطی نےبعد  کے  زمانے  میں  بہت  زیادہ  ترقی  کی ۔جب  کہ  قرآن  اس  وقت  لکھا  گیا  جب  کہ  فنِّ  خطاطی  نے   ابھی اتنی ترقی نہیں کی تھی۔چنانچہ قرآن کے طرز کتابت میں اور عام خطوں کے طرز کتابت میں بہت سے مقامات پر فرق ہے۔مثلاً قرآن میں مَالِک کو مٰلِک لکھا ہوا ہے۔حتٰی کہ اس طرز کتابت کی وجہ سے آیت کے دو تلفظ بن گئے ہیں۔کوئی اس کو مَا لِک یَوم الدین پڑھ رہا ہے اور کوئی  اس کو مَلِک یوم الدین (1:4)پڑھتا ہے۔اس کے باوجود کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ آیت کا املاء بدل کر اس کو مالک یوم الدین بنا دے۔

قرآن کے حاشیہ میں بعد کے لوگوں نے جو معنوی تبدیلیاں کی ہیں۔ان میں سے ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ((2:30۔میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔بعد کے متعددمفسرین نے اس آیت میں خلیفہ کے لفظ کو  خلیفۃ اللہ کے ہم معنی بنا دیا اور اس کی تشریح ان الفاظ میں کی کہ خدا نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔

حالانکہ "اپنا" کا لفظ یہاں سراسر اضافہ ہے۔ان حضرات نے حاشیہ میں تو اس قسم کے اضافے خوب کیے، مگر متن میں اضافہ کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو سکا۔اگر قرآن کے متن پر خدا کا پہرہ نہ ہوتا تو غالباً وہ آیت کے الفاظ کو ناکافی سمجھ کر اس کو اس طرح لکھ دیتے:

انی جاعل فی الارض خلیفتی (میں زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں)یا  انی جاعل فی الارض خلیفۃ منی (میں زمین میں اپنی جانب سے ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں)

دوسری  آسمانی کتابوں میں سے ہر کتاب میں یہ ہوا ہے کہ ان کتابوں کے ماننے والے اپنے طور پر جو کچھ چاہتے تھے وہ سب انھوں نے خدا کی کتاب میں کہیں نہ کہیں داخل کر دیا۔مثال کے طور پر یوحنا کی موجودہ انجیل میں ہم کو یہ فقرہ ملتا ہے:

" دوسرے دن اس نے یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا، دیکھو یہ خدا کابرّہ ہے جو دنیا کا گناہ اٹھا لے جاتا ہے۔یہ وہی ہے جس کی بابت میں نے یہ کہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آتا ہے جو مجھ سے مقدم ٹھہرا ہے کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا"   (یوحنا،1:29-30)۔

انجیل یوحنا کا یہ فقرہ حضرت یحیٰ کی زبان سے حضرت مسیح کے بارے میں ہے۔حضرت یحیٰ کی یہ تقریر بقیہ تینوں انجیلوں میں بھی ہے مگر ان میں" جو دنیا کا گناہ اٹھا لے جاتا ہے " موجود نہیں۔یہ الفاظ یقینی طور پر بعد کو اصل تقریر میں اس لیے بڑھائے گئے تا کہ ان سے کفارہ کا عقیدہ نکالا جا سکے۔بعد کے مسیحیوں کا پسندیدہ عقیدہ (کفارہ)کو انجیل سے ثابت کرنے کے لیے حضرت یحیٰ کی مذکورہ تقریر میں یہ جملہ بڑھا دیا گیا۔حالانکہ وہ اگر حضرت یحیٰ کا جملہ ہوتا تو چاروں انجیلوں میں موجود ہوتا۔

یہی بات قرآن میں بھی ہو سکتی تھی۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے بہت سے انتہائی محبوب عقیدے بھی قرآن کے متن کے اندر موجود نہیں۔مثال کے طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل الانبیاء ہونا اور خدا کے یہاں آپ کا شفیع المذنبین ہونا مسلمانوں کے محبوب ترین عقائد ہیں۔مگر قرآن میں کسی مقام پر وہ واضح طور پر موجود نہیں ہیں۔مسلمان یہ تو کر سکے کہ اپنے ان عقائد کو بعض آیات سے بطریق استنباط نکالیں۔مگر وہ  ان کو متن قرآن میں داخل نہ کر سکے۔اگر مسلمانوں کو متن میں تصرف کی قدرت حاصل ہوتی تو یقیناً آج ہم قرآن میں کوئی ایسی آیت پڑھتے جس کے یہ الفاظ ہوتے:

یامحمد انت افضل الانبیاء وانت شفیع المذنبین یوم القیامۃ (اے محمد، تم افضل الانبیاء ہو، تم قیامت کے دن گناہ گاروں کی سفارش کرنے والے ہو )

یہ چند سادہ قسم کی داخلی مثالیں ہیں۔جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن آج بھی اسی ابتدائی حالت میں موجود ہے جس حالت میں اس کے پیغمبر حضرت محمد  نے اسے اپنے زمانے میں لکھوایا تھا۔ اس میں کسی قسم کا معمولی تغیر   بھی   نہ ہو سکا۔

اب  ظاہر ہے کہ قرآن جب واحد آسمانی کتاب ہے جس کا متن پوری طرح محفوظ ہے تو اسی کا حق ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کے لیے واحد رہنما کتاب بنے جو وحی الہٰی کو مانتے ہیں اور خدا کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔محفوظ اور غیر محفوظ  دونوں قسم کی کتابوں کی موجودگی میں یقینی طور پر محفوظ کتاب کی پیروی کی جائے گی،نہ کہ غیر محفوظ اور تبدیل شدہ کتاب کی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom