داعی اور مدعو کا تعلق

دوسرا اہم مسئلہ مسلمانوں اور غیر مسلموں  کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ بحال کرنا ہے۔امت مسلمہ کی حیثیت سے مسلمان خدا کے دین کے داعی ہیں اور بقیہ تمام قومیں ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں۔مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ انھوں نے دوسری قوموں کو اپنا قومی حریف اور مادی رقیب بنا لیا ہے۔ان قوموں سے وہ ساری دنیا میں معاشی اور سیاسی جھگڑے چھیڑے ہوئے ہیں۔ قرآن میں داعی کا کلمہ لَا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً (11:51)بتایا گیا ہے،یعنی میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ایسی حالت میں حقوق طلبی کے یہ تمام ہنگامے اپنی دعوتی حیثیت کی نفی کے ہم معنی ہیں۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے یہاں ہم کو خدا کے گواہ کا مقام حاصل ہو تو ہم کو یہ قربانی دینی ہوگی کہ دوسری اقوام سے ہمارے دنیوی جھگڑے ،خواہ وہ بظاہر درست کیوں نہ ہوں،ان کو ہم یک طرفہ طور پر ختم کر دیں۔تا کہ ہمارے  اور دوسری قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم ہو،ہمارے اور دوسری قوموں کے درمیان وہ معتدل فضا وجود میں آئے جس میں ان کے سامنے توحید اور آخرت کی دعوت پیش کی جائے اور وہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کر سکیں۔

صلح حدیبیہ (6ھ) میں مسلمانوں نے یک طرفہ طور پر مخالفین اسلام کے تمام معاشی اور قومی مطالبات مان لیے تھے۔انھوں نے اپنے حقوق سے دستبرداری پر خود اپنے ہاتھ سے دستخط کر دیے تھے۔مگر جب مسلمان یہ معاہدہ کر کے لوٹے تو خدا کی طرف سے یہ آیت اتری اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا(48:1 بیشک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی۔

بظاہرشکست کے معاہدے  کو  خدا  نے  فتح  کا  معاہدہ  کیوں کہا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس معاہدہ نے مسلمانوں اورغیر مسلموں کے درمیان مقابلے کے میدان کو بدل دیا تھا۔اب اسلام اور غیر اسلام کا مقابلہ ایک ایسے میدان میں منتقل ہو گیا تھا جہاں اسلام واضح طور پر زیادہ بہتر حیثیت (advantageous position) میں تھا۔

غیر مسلموں کی جارحیت کی وجہ سے اس وقت اسلام اور غیر اسلام کا مقابلہ جنگ کے میدان میں ہو رہا تھا۔غیر مسلموں کے پاس ہر قسم کے زیادہ بہتر جنگی وسائل تھے۔  یہی  وجہ  ہے  کہ  ہجرت  کے  بعد  مسلسل  غزوات  کے  باوجود  معاملہ  کا  فیصلہ  نہیں  ہو  رہا  تھا۔  اب حدیبیہ میں غیر مسلموں کے تمام قومی مطالبات مان کر ان سے یہ عہد لے لیا گیا کہ دونوں فریقوں کے درمیان دس سال تک براہ راست یا بالواسطہ کوئی جنگ نہیں ہو گی۔

مسلسل جنگی حالات کی وجہ سے اسلام کا دعوتی کام رکا ہوا تھا۔جنگ بند ہوتے ہی دعوت کا کام پوری قوت کیساتھ ہونے لگا۔جنگی میدان میں اس وقت اسلام کمزور تھا۔مگر جب مقابلہ پر امن تبلیغ کے  میدان میں آگیا تو یہاں شرک کے پاس کچھ نہ تھاجس سے وہ توحید کی حقا نیت کا مقابلہ کر سکے۔نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے قبائل اتنی کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے کہ کفر کا زور بالکل ٹوٹ گیا اور معاہدہ کے صرف دو سال کے اندر مکہ فتح ہو گیا۔

موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح کے ایک "معاہدہ حدیبیہ" کی ضرورت ہے۔ مسلمان دوسری قوموں سے ہر جگہ مادی لڑائی لڑرہے ہیں۔مسلمان چوں کہ اپنی غفلت کی وجہ سے مادی پہلو سے دوسری قوموں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہو گئے ہیں ،وہ ہر محاذ پر ان سے شکست کھا رہے ہیں۔اب ضرورت ہے کہ یک طرفہ قربانی کے ذریعے ان محاذوں کو بند کر کے میدان مقابلے کو بدل دیا جائے۔ان قوموں کو مادی مقابلے کے میدان سے ہٹا کر فکری مقابلے کے میدان میں لایا جائے۔قدیم زمانے میں میدان مقابلہ کی یہ تبدیلی جنگ کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے حاصل کی گئی تھی،آج یہ تبدیلی قومی حقوق کی مہم کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے حاصل ہو گی۔

قومی مفادات کی یہ قربانی بلا شبہ ایک نہایت مشکل کام ہے مگر اسی کھونے میں پانے کا سارا راز چھپا ہوا ہے۔  مسلمان جس دن ایسا کریں گے اسی دن فتح اسلام کا آغاز ہو جائے گا۔ کیوں کہ فکری میدان میں کسی اور کے پاس کوئی چیز موجود  ہی   نہیں ۔مادی مقابلے کے میدان میں مسلمانوں کے پاس "روایتی ہتھیار" ہیں اور دوسری قوموں کے پاس "جدید ہتھیار" ۔جب کہ فکری میدان میں مسلمانوں کے پاس حقیقت ہے اور دوسری قوموں کے پاس تعصب ،اور حقیقت کے مقابلہ میں تعصب دیر تک ٹھہر نہیں سکتا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom