داخلی تضاد

کلام میں داخلی تضاد حقیقتاًمتکلم کی شخصیت میں داخلی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔داخلی تضاد سے بچنے کے لیے دو چیزیں لازمی طورپر ضروری ہیں، ایک کامل علم اور دوسرے کامل موضوعیت(objectivity)۔ کوئی انسان ان دونوں کمیوں سے خالی نہیں ہوتا۔اس لیے انسان کا کلام داخلی تضاد سے پاک بھی نہیں ہوتا۔یہ صرف خدا   ہے جو تمام کمیوں سے پاک ہے۔اس لیے صرف خدا کا کلام ہی وہ کلام ہے جو داخلی تضاد سے پوری طرح خالی ہے۔

انسان اپنی محدودیت کی وجہ سے بہت سی باتوں کو اپنی عقل کی گرفت میں نہیں لاسکتا۔اس لیے قیاسی طور پر کبھی وہ ایک بات کہتا ہے اور کبھی دوسری بات۔ہر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ نا پختہ عمر سے پختہ عمر کی طرف سفر کرتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نا پختہ عمر میں جو بات کہتاہے، پختہ عمر کو  پہنچ  کر  وہ  خود  اس  کے  خلاف  بولنے  لگتا  ہے۔ہر  آدمی  کا  علم  اور  تجربہ  بڑھتا  رہتا  ہے  اس  بنا  پر   اس کا ابتدائی کلام کچھ ہو جاتا ہے اور آخری کلام کچھ۔ انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے۔اس کی واقفیت ابھی مکمل نہیں ہوتی کہ اس کی موت آجاتی ہے۔وہ اپنی نامکمل واقفیت کی بنا پر ایسی بات کہتا ہے جو اس کے بعد درست ثابت نہیں ہوتی۔

اسی طرح آدمی کو کسی سے دوستی ہوتی ہے اور کسی سے دشمنی ۔وہ کسی سے محبت کرتا ہے اور کسی سے نفرت۔وہ کسی کے بارے میں سادہ ذہن کے تحت سوچتا ہے اور کسی کے بارے میں رد عمل کی نفسیات کا شکار ہو جاتا ہے۔انسان پر کبھی غم کا لمحہ گزرتا ہے اور کبھی خوشی کا۔وہ کبھی ایک ترنگ (emotion)میں ہوتا ہے اور کبھی دوسری ترنگ میں ۔اس بنا پر انسان کے کلام میں یکسانیت نہیں ہوتی۔وہ کبھی ایک طرح کی بات کہتا ہے اور کبھی دوسری طرح کی بات بولنے لگتا ہے۔خدا ان تمام کمیوں سے پاک ہے اس لیے اس کا کلام ہمیشہ یکساں ہوتا ہے اور ہر قسم کے تناقض سے خالی بھی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom