دعوت اسلامی کی ذمہ داری کو ادا کرنے اور موجودہ مواقع کو استعمال کرنے کے لیے افراد کار کی ضرورت ہے۔قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ منتخب لوگ مخصوص تربیت کے ذریعے اس مقصد کے لیے تیار کیے جائیں۔وہ دین میں تفقہ حاصل کر کے مختلف قوموں میں جائیں اور ان کو توحید کی تعلیم دیں اور آخرت سے آگاہ کریں:فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاىِٕفَةُ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ (9:122)۔آج دنیا میں مسلمانوں کے بے شمار مدرسے اور تعلیم کے ادارے ہیں مگر ساری دنیا میں کوئی ایک مدرسہ بھی خاص اس مقصد کے لیے موجود نہیں جہاں خالص دعوتی ضرورت کے تحت لوگوں کی تعلیم و تربیت کی جائے تا کہ وہ وقت کی ضرورت کے مطابق تیار ہو کر موثر انداز میں لوگوں کے اوپر دعوت الی اللہ اور انذار آخرت کا کام کریں۔ آج کی ناگزیر ضرورت ہے کہ ایسی ایک تعلیم گاہ قائم کی جائے اور اس کو معیار کے مطابق بنانے کے لیے ہر وہ قیمت ادا کی جائے جو موجودہ حالات میں ضروری ہے۔
افراد کار کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو صرف " با علم" نہیں بلکہ "بامقصد" ہونا چاہیے۔مقصد کے بغیر علم صرف معلومات ہے۔مگر علم جب مقصد کے ساتھ ہو تو وہ معرفت بن جاتا ہے۔اگر ایک ایسی تعلیم گاہ قائم ہو جہاں ڈگری یافتہ اساتذہ کے ذریعے لوگوں کو قدیم و جدید علوم پڑھا دیے جائیں تو صرف اس بنا پر وہ مطلوبہ داعی نہیں بن جائیں گے۔ضروری ہے کہ ان کے سینےمیں مقصد کی آگ لگی ہوئی ہو۔کیوں کہ مقصد ہی لوگوں کے اندر وہ اعلیٰ فکر اور اعلیٰ کردار پیدا کرتا ہے جس کے ذریعے وہ دعوت کے میدان میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں۔
خواہ کوئی دنیوی مقصد ہو یا دینی مقصد،دونوں ہی کے لیے ایسے افراد درکار ہیں جو ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر ہر قسم کی ضروری قربانی دے سکیں۔
ٹائمس (The Times) لندن کا ایک قدیم اخبار ہے۔اس اخبار میں 1900 میں ایک اشتہار چھپا ۔اس اشتہار کے ساتھ نہ عورتوں کی تصویریں تھیں نہ کسی قسم کے بناوٹی تماشے۔اس میں ایک چھوٹے سے چوکھٹے میں حسب ذیل الفاظ درج تھے―ایک جوکھم کے سفر کے لیے آدمی درکار ہیں۔معمولی رقم ،سخت سردی،مکمل تاریکی کے لمبے مہینے،مسلسل خطرہ،محفوظ واپسی مشتبہ۔کامیابی کی صورت میں عزّت اور اعتراف:
Men wanted for Hazardous Journey. Small wages, bitter cold, long months of complete darkness, constant danger safe return doubtful. Honour and recognition in case of success.
Sir Ernest Shackleton, 4 Burlington St.
یہ اشتہار قطب جنوبی کی مہم کے لیے تھا۔اس کے جواب میں اتنی زیادہ درخواستیں آئیں کہ ذمہ داروں کو ان میں سے انتخاب کرنا پڑا۔اسی قسم کے بلند ہمت لوگ تھے جو مغرب میں سائنسی انقلاب لائے اور اہل مغرب کے لیے عالمی قیادت کی راہ ہموار کی۔
مذکورہ بالامثال ایک دنیوی مثال تھی۔یہی معاملہ ان لوگوں کا بھی ہے جنھوں نے اسلام کی تاریخ بنائی۔بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انصار مدینہ کے نمائندہ افراد سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اس کی نمایاں مثال پیش کرتی ہے۔یہاں ہم سیرت ابن ہشام کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں:
قَالَ كَعْبٌ: ثُمَّ خَرَجْنَا إلَى الْحَجِّ، وَوَاعَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْعَقَبَةِ مِنْ أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ. قَالَ: فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنْ الْحَجِّ، وَكَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي وَاعَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَهَا، وَمَعَنَا عَبْدُ الله بن عَمرو بن حرام أبو جابر، سيد من سادتنا، وَشَرِيفٌ مِنْ أَشْرَافِنَا، أَخَذْنَاهُ مَعَنَا وَكُنَّا نَكْتُمُ مَنْ مَعَنَا مِنْ قَوْمِنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ أَمْرَنَا… قَالَ: فَنِمْنَا تَلِكَ اللَّيْلَةَ مَعَ قومِنا فِي رِحَالِنَا، حَتَّى إذَا مَضَى ثُلثُ اللَّيْلِ خَرَجْنَا مِنْ رِحَالِنَا لِمِيعَادِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَتَسَلَّلُ تَسَلُّلَ القَطا مُستَخفين، حَتَّى اجْتَمَعْنَا فِي الشِّعْب عِنْدَ الْعَقَبَةِ، وَنَحْنُ ثَلَاثَةٌ وَسَبْعُونَ رَجُلًا، وَمَعَنَا امْرَأَتَانِ مِنْ نِسَائِنَا(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ441)۔ یعنی، کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ ہم مدینہ سے حج کے لیے روانہ ہوئے، اور (پچھلے سال) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریق کے درمیانی دن کا وعدہ کیا تھا۔چنانچہ جب ہم حج سے فارغ ہوگئے اور وہ رات آگئی جس میں ہمیں حسبِ وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا تھا۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار ابوجابر عبد اللہ بن عمرو بن حرام تھے۔ہم نے ان سے گفتگو کی، وہ ہمارے ساتھی بن گئے۔ چنانچہ ہم نے ان کو اپنے ساتھ لےلیا۔ اس کے علاوہ دوسرے مشرکین کو ہم اپنامنصوبہ نہیں بتاتے تھے۔ رات کے وقت ہم دوسروں کی طرح ان کے ساتھ سو گئے۔ یہاں تک کہ جب رات کا تہائی حصہ گزر گیا تو ہم رسول اللہ کی قرار داد کے مطابق اپنے بستروں سے خاموشی کے ساتھ اٹھے، اورطے شدہ مقام کی طرف اس طرح چلے جیسے چڑیا جھاڑیوں میں آہستہ آہستہ سکڑ کر چلتی ہے۔یہاں تک کہ ہم سب، تهترمرد اور دو عورتیں، عقبہ کی گھاٹی میں اکٹھا ہوگئے۔
اس کے بعدکیا واقعہ پیش آیا، اس کو ابن اسحاق نے آگے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ: أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا اجْتَمَعُوا لِبَيْعَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَ الْأَنْصَارِيُّ، أَخُو بَنِي سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ: يَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ، هَلْ تَدْرُونَ عَلَامَ تُبَايِعُونَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إنَّكُمْ تُبَايِعُونَهُ عَلَى حَرْبِ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ مِنْ النَّاسِ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ إذَا نُهِكَتْ أَمْوَالُكُمْ مُصِيبَةً، وَأَشْرَافُكُمْ قَتْلًا أَسْلَمْتُمُوهُ، فَمِنْ الْآنَ، فَهُوَ وَاَللَّهِ إنْ فَعَلْتُمْ خِزْيُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ وَافُونَ لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إلَيْهِ عَلَى نَهْكَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ، فَخُذُوهُ، فَهُوَ وَاَللَّهِ خَيْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى مُصِيبَةِ الْأَمْوَالِ، وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ، فَمَا لَنَا بِذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إنْ نَحْنُ وَفَّيْنَا بِذَلِكَ؟ قَالَ: الْجَنَّةُ. قَالُوا: اُبْسُطْ يَدَكَ، فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعُوهُ(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ446)۔يعنی، یثرب کے لوگ جب آپ سے بیعت کے لیے جمع ہوئے تو عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری نے کہا:اے گروہ خزرج ! کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز پر ان کے ہاتھ بیعت کر رہے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں۔ عباس بن عبادہ نے کہا، تم سرخ و سفید سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارا مال ضائع ہو اور تمہارے اشراف قتل کیے جائیں تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کی قوم کے حوالےکر دو گے تو ابھی ایسا کر لو۔ کیونکہ بعد کو تم نے ایسا کیا تو خد ا کی قسم وہ دنیا وآخرت کی رسوائی ہوگی، او راگر تمہارا یہ خیال ہو کہ تم نے جو کچھ وعدہ کیا ہے اس کو تم پورا کرو گے، خواہ تمہارے مال ضائع ہوں اور تمہارے اشراف قتل کیے جائیں تو ان کو اپنے ساتھ لے جاؤ، کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ان لوگوں نے کہا: مال کے ضائع ہو نے اور اپنےاشراف کے قتل کے (اندیشہ کے باوجود) ہم آپ سے بیعت کررہے ہیں۔اس وقت اہل انصار نے آپ سے سوال کیا کہ اگر ہم آپ سے كيے اپنے وعدہ کو پورا کریں تو ہمارے لیے کیا ہے۔ آپ نے کہا:جنت۔ انھوں نے کہا: اپنا ہاتھ بڑھائیے، پھر ان لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اسی قسم کے باشعور اور با ہمت اصحاب تھے جنھوں نے تاریخ میں شرک کے تسلسل کو ختم کیا اور انسانی تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔آج دوبارہ تاریخ کو وہی حرکت دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے اسلاف نے اپنے زمانے میں دیا تھا۔انھوں نے شرک کے دور کو ختم کر کے توحید کا دور شروع کیا۔اب ہم الحاد کے دور كو ختم کر کے دوبارہ توحید کا دور انسانی تاریخ میں لانا ہے۔یہ ایک بہت اعلیٰ کام ہے۔اور اس کے لیے اعلیٰ افراد انتہائی طور پر ضروری ہیں۔ضرورت ہے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جہاں تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے افراد تیار کیے جائیں۔ڈاکٹر فلپ ہٹی کے الفاظ میں ،آج اسلام کو دوبارہ ایک ہیروؤں کی نرسری (nursery of heroes) درکار ہے۔اس کے بغیر یہ اہم کام انجام نہیں پاسکتا۔ مذکورہ درس گاہ گویا اسی قسم کی ایک نرسری ہو گی جہاں دعوت اسلامی کے ہیرو تیار کیے جائیں۔