موجودہ زمانے میں تاریخ دوبارہ وہیں پہنچ گئی ہے جہاں وہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے دور میں پہنچی تھی۔قدیم زمانے میں انسان کے اوپر شرک کا غلبہ اس طرح ہوا کہ تاریخ میں اس کا تسلسل قائم ہو گیا۔اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر شخص جو انسانی نسل میں پیدا ہوتا وہ مشرک پیدا ہوتا۔اب پچھلے چند سو سال کے عمل کے نتیجے میں ملحدانہ افکار انسان کے اوپر غالب آگئے ہیں۔علم و عمل کے ہر شعبے میں الحادی طرز فکر اس طرح چھا گیا ہے کہ دوبارہ تاریخ انسانی میں الحاد کا تسلسل قائم ہو گیا ہے۔اب ہر شخص جو پیدا ہوتا ہے،خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں پیدا ہو ، وہ ملحدانہ افکار کے زیرِ اثر پیدا ہوتا ہے۔الحاد آج کا غالب دین ہے۔اور اسلام کا احیا موجودہ زمانے میں اس وقت تک ممکن نہیں جب تک الحاد کو فکری غلبے کے مقام سے ہٹایا نہ جائے۔
موجودہ زمانہ میں احیاءِاسلام کو ممکن بنانے کے لیے دوبارہ وہی دونوں طریقے اختیار کرنے ہیں جو پہلے غلبہ کے وقت اختیار کیے گئے تھے۔یعنی افراد کی تیاری ،اور مخالفین حق کی مغلوبیت۔
پہلا کام ہم کو خود اپنے وسائل کے تحت انجام دینا ہے۔جہاں تک دوسرے کام کا تعلق ہے،اس کو موجودہ زمانے میں دوبارہ خدا نے اسی طرح بہت بڑے پیمانے پر انجام دے دیا ہے جس طرح اس نے دورِ اول میں انجام دیا تھا۔ضرورت صرف یہ ہے کہ ان پیداشدہ مواقع کواستعمال کیا جائے۔
1۔موجودہ زمانے میں احیا اسلام کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے پہلے افراد کار کی ضرورت ہے۔گویا اب دوبارہ ایک نئے انداز سے وہی چیز درکار ہے جو حضرت ابراہیم کے منصوبہ میں مطلوب تھی۔یعنی حقیقی معنوں میں ایک مسلم گروہ کی تیاری۔
موجودہ زمانے میں اسلامی احیا کی مہم چلانے کے لیے جو افراد درکار ہیں وہ عام قسم کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جن کے لیے اسلام ایک دریافت (discovery) بن گیا ہو۔وہ واقعہ جو سب سے زیادہ کسی انسان کو متحرک کرتا ہے وہ یہی دریافت کاواقعہ ہے ۔جب آدمی کسی چیز کو دریافت کے درجہ میں پائے تو اچانک اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھر آتی ہے۔یقین ،حوصلہ،عزم، فیاضی،قربانی، اتحاد ،غرض وہ تمام اوصاف جو کوئی بڑا کام کرنے کے لیے درکار ہیں، وہ سب دریافت کی زمین پر پیدا ہوتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں مغربی اقوام میں جو اعلیٰ اوصاف پائے جاتے ہیں وہ سب اسی دریافت کا نتیجہ ہیں۔مغربی قوموں نے روایتی دنیا کے مقابلے میں سائنسی دنیا کو دریافت کیا ہے ۔یہی دریافت کا احساس ہے جس نے مغربی قوموں میں وہ اعلیٰ اوصاف پیدا کر دیے ہیں جو آج ان کے اندر پائے جاتے ہیں۔
قرنِ اول میں اصحاب رسول کا معاملہ بھی یہی تھا۔ان کو خدا کا دین بطور دریافت کے ملا تھا۔انھوں نے جاہلیت کے مقابلےمیں اسلام کو پایا تھا۔انھوں نے شرک کے مقابلے میں توحید کو دریافت کیا تھا۔ان پر دنیا کے مقابلے میں آخرت کا انکشاف ہوا تھا۔ یہی چیز تھی جس نے ان کے اندروہ غیر معمولی اوصاف پیدا کر دیے جن کو آج ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔آج اگر اسلامی احیا کی مہم کو موثر طورپر چلانا ہے تو دوبارہ ایسے انسان پیدا کرنے ہوں گے جنھیں اسلام دریافت کے طور پر ملا ہو، نہ کہ محض نسلی وراثت کے طور پر۔
2۔اسلام چودہ سو سال پہلے شروع ہوا۔اس کے بعد اس کی تاریخ بنی،تمدنی عظمت اور سیاسی فتوحات کی تاریخ۔آج جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، وہ اسی تاریخ کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں۔جس قوم کی بھی یہ صورت حال ہو، وہ ہمیشہ قریبی تاریخ میں اٹک کر رہ جاتی ہے۔وہ تاریخ سے گزر کر ابتدائی اصل تک نہیں پہنچتی۔یہی معاملہ آج مسلمانوں کا ہے۔موجودہ زمانے کے مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر ،اپنا دین تاریخ سے اخذ کر رہے ہیں، نہ کہ حقیقتاً قرآن اور سنت رسول سے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آج کے مسلمانوں کے لیے فخر کی چیز بنا ہوا ہے، نہ کہ ذمہ داری کی چیز ۔ان کے افکار و اعمال میں یہ نفسیات اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ہر جگہ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔اسلام کو قرآن و سنت میں دیکھئے تو وہ سراسر ذمہ داری اور مسئولیت کی چیز نظر آئے گا۔اس کے برعکس، اسلام کو جب اس کی تمدنی تاریخ اور سیاسی واقعات کے آئینہ میں دیکھا جائے تو وہ فخر اور عظمت کی چیز معلوم ہونے لگتا ہے۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی انقلابی تحریکیں اسی جذبہٴ فخر کے تحت اٹھیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ وقتی ہنگامے پیدا کر کے ختم ہو گئیں۔کیوں کہ فخر کا جذبہ نمائش اور ہنگامے کى طرف لے جاتا ہے۔اور مسئولیت کا جذبہ حقیقی اور سنجیدہ عمل کی طرف۔
اسلامی احیا کی مہم کو موثرطور پر چلانے کے لیے وہ افراد درکار ہیں جنھوں نے اسلام کو قرآن و حدیث کی ابتدائی تعلیمات سے اخذ کیا ہو، نہ کہ بعد کو بننے والی تمدنی اور سیاسی تاریخ سے۔قرآن و حدیث سے دین کو اخذکرنے والے لوگ ہی سنجیدگی اور احساس ذمہ داری کے تحت کوئی حقیقی مہم چلا سکتے ہیں۔اس کے برعکس، جو لوگ تاریخ سے اپنا دین اخذ کریں وہ صرف اپنے فخر کا جھنڈا بلند کر یں گے۔وہ کسی نتیجہ خیز عمل کا ثبوت نہیں دے سکتے۔مسلمان موجودہ زمانے میں ایک شکست خوردہ قوم بنے ہوئے ہیں۔پوری مسلم دنیا پر ایک قسم کا احساس مظلومی (persecution complex)چھایا ہوا ہے۔اس کی وجہ یہی تاریخ سے دین کو اخذ کرنا ہے۔ہم نے تاریخی عظمت کو دین سمجھا۔ہم نے "لال قلعہ" اور " غرناطہ" میں اپنی اسلامیت کا تشخص دریافت کیا۔چوں کہ موجودہ زمانے میں دوسری قوموں نے ہم سے یہ چیزیں چھین لیں،اس لیے ہم فریاد و ماتم میں مشغول ہو گئے۔اگر ہم ہدایت ربّانی کو دین سمجھتے تو ہم کبھی بھی احساس محرومی کا شکار نہ ہوتے۔کیوں کہ وہ ایسی چیز ہے جس کو کوئی طاقت ہم سے کبھی چھین نہیں سکتی۔ہم نے چھن جانے والی چیزوں کو اسلام سمجھا۔ اس لیے جب وہ چھن گئی تو ہم شکایت او رمحرومی کا پیکر بن کر رہ گئے۔اگر ہم نہ چھننے والی چیز کو اسلام سمجھتے تو ہمارا کبھی وہ حال نہ ہوتا جو آج ہر طرف نظر آ رہا ہے۔کیسی عجیب بات ہے کہ جو زیادہ بڑی چیز ہمارے پاس ابھی تک بغیر چھنی ہوئی محفوظ ہے، اس کا ہمیں شعور نہیں۔اور جو چھوٹی چیز ہم سے چھن گئی ہے اس کے لیے ہم شکایت اور احتجاج میں مصروف ہیں۔
اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان دوسری قوموں سے لڑائی جھگڑے میں مصروف ہیں۔وہ اسلام کو اپنی قومی عظمت کا نشان سمجھتے ہیں۔اس لیے جو لوگ انھیں اس عظمت کو چھینتے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے خلاف وہ لڑنے کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں۔کہیں یہ لڑائی الفاظ کے ذریعہ ہو رہی ہے اور کہیں ہتھیاروں کے ذریعہ۔اس صورت حال نے مسلمانوں کے پورے رویہ کو منفی بنا دیا ہے۔اسلام اگر ان کو ربانی ہدایت کے طور پر ملتا تو وہ محسوس کرتے کہ ان کے پاس دوسری قوموں کو دینے کے لیے کوئی چیز ہے۔وہ اپنے کو دینے والا سمجھتے اور دوسرے کو لینے والا۔جب کہ موجودہ حالت میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ چھنے ہوئے لوگ ہیں اور دوسرے چھیننے والے لوگ۔ہمارے اور دوسری قوموں کے درمیان حقیقی رشتہ داعی اور مدعو کا رشتہ ہے۔مگر تاریخی اسلام کو اسلام سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قومیں ہمارے لیے صرف حریف اور رقیب بن کر رہ گئی ہیں۔ہمارے اور دوسری قوموں کے درمیان جب تک یہ حریفانہ فضا باقی ہے،اسلامی احیاکا کوئی حقیقی کام شروع نہیں کیاجا سکتا۔
پہلے ہی مرحلہ میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام مسلمانوں کو حریفانہ نفسیات سے پاک کر دیا جائے۔مگر کم سے کم ایک ایسی ٹیم کا ہونا ضروری ہے جس کے افراد اپنی حد تک اس ذہنی فضا سے نکل چکے ہوں۔جن کے اندر ایسی فکری تبدیلی آچکی ہو کہ دوسری قوموں کو وہ اپنا مدعو سمجھیں، نہ کہ مادی حریف اور قومی رقیب۔یہ بظاہر سادہ سی بات انتہائی مشکل بات ہے۔اس کے لیے اپنے آپ کو ذبح کرناپڑتا ہے۔اپنے اور دوسری قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم کرنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ ہم یک طرفہ طور پر تمام شکایتوں کو بھلا دیں۔ہر قسم کے مادی نقصانات کو گوارا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔داعی اورمدعو کا رشتہ داعی کی طرف سے یک طرفہ قربانی پر قائم ہوتا ہے۔اور موجودہ دنیا میں بلاشبہ یہ سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔
یہ اور اس طرح کے دوسرے اوصاف ہیں جو ان لوگوں میں ہونا ضروری ہیں جو موجودہ زمانہ میں احیا اسلام کی مہم کے لیے اٹھیں۔ایسے افراد تیار کرنے کے لیے موجودہ زمانےمیں دوبارہ اسی قسم کا ایک منصوبہ درکار ہے جو دور اول میں خیر امت کے اخراج (آل عمران،3:110)کے لیے زیر عمل لایا گیاتھا۔موجود ہ زمانے کے اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج یہ ضرورت ہے کہ جدید طرز کی ایک اعلیٰ تربیت گاہ قائم کی جائے ۔یہ تربیت گاہ تمدنی ماحول سے الگ قدرت کی بے آمیز فضا میں قائم ہونی چاہیے۔یہ تربیت گاہ گویا دوبارہ قوم کے کچھ اعلیٰ افراد کو وادیِ غیرِ ذی زرع میں بسانے کے ہم معنی ہوگی۔
مذکورہ تربیت گاہ کو کامیاب طور پر چلانے کے لیے کچھ ایسے ابراہیمی والدین درکار ہیں جو اپنی اولاد کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوں۔وہ اس پر راضی ہو جائیں کہ ان کی ذہین اولاد کو وقت کےاعلیٰ معاشی مواقع سے محروم کر کے ایک ایسے ماحول میں ڈال دیا جائے جہاں سب کچھ دے کر بھی تعلق باللہ اور فکر آخرت کے سوا کوئی اور چیز نہ ملتی ہو۔اس طرح کی ایک تربیت گاہ،فلپ ہٹی کے مذکورہ الفاظ میں،دوبارہ ایک قسم کی "نرسری آف ہیروز" بنانے کے ہم معنی ہوگی۔جب تک اس قسم کے افراد کی ایک قابل لحاظ ٹیم تیار نہ ہو جائے،احیا اسلام کی جانب کوئی حقیقی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔اس قسم کی تربیت گا ہ کا قیام گویا جدید زمانہ کے لحاظ سے اس آیت قرآنی کی تعمیل ہو گی:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ (9:122)۔ ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا، تاکہ وہ دین میں گہری سمجھ پیدا کرتا اور واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے۔
یعنی قوم کے کچھ ذہین افراد کو عام ماحول سے الگ کر کے ایک علاحدہ ماحول میں لایا جائے اور وہاں متعین مدت تک خصوصی تعلیم و تربیت کے ذریعہ انھیں اس کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ موجودہ زمانہ میں احیا اسلام کی مہم کو کامیابی کے ساتھ چلا سکیں۔وہ اہل عالم کے لیے منذر اور مبشر بن سکیں۔
دور اول میں اسلامی انقلاب کو ممکن بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اہتمام یہ کیا کہ ایران اور روم کی سلطنتیں جو اس زمانہ میں دین توحید کی سب سے بڑی حریف تھیں،ان کو باہم ٹکرا کر اتنا کمزور کر دیا کہ اہل اسلام کے لیے ان کو مغلوب کرنا آسان ہو گیا۔
خدا کی یہی مدد موجودہ زمانہ کے اہل ایمان کے لیے ایک اور شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔اور وہ ہے کائنات کے بارے میں ایسی معلومات کا سامنے آنا جو دینی حقیقتوں کو معجزاتی سطح پر ثابت کر رہی ہیں۔قدیم زمانے میں توہماتی طرزِفکر کا غلبہ تھا،اس بنا پر عالم کائنات کےبارے میں انسان نے عجیب عجیب بے بنیاد رائیں قائم کر رکھی تھیں۔کائنات کو قرآن میں آلاءِرب (کرشمہٴ خدا) کہا گیا ہے (55:30)۔مگر یہ خدائی کرشمہ توہماتی مفروضوں کے پردہ میں چھپا ہوا تھا۔دور اول کے اسلامی انقلاب کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ ہے کہ مظاہر فطرت جو اس سے پہلے پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے وہ انسان کے لیے تحقیق و تسخیر کا موضوع بن گئے۔اس طرح تاریخ انسانی میں پہلی بار واقعات ِ فطرت کا خالص علمی انداز میں جاننے کا ذہن پیدا ہوا۔یہ ذہن مسلسل بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ وہ یورپ پہنچا۔یہاں ترقی پا کر وہ اس انقلاب کا سبب بنا جس کو موجودہ زمانہ میں سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔
سائنس نے گویا توہماتی پردےکو ہٹا کر کرشمہٴ خدا کا کرشمہٴ خدا ہونا ثابت کر دیا۔اس نے مظاہر فطرت کو "معبود" کے مقام سے ہٹا کر "مخلوق" کے مقام پر رکھ دیا ۔حتٰی کہ یہ نوبت آئی کہ چاند جس کو قدیم انسان معبود سمجھ کر پوجتا تھا،اس پر اس نے اپنے پاؤں رکھ دیے اور وہاں اپنی مشینیں اتار دیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس نے جو نئے دلائل فراہم کیے ہیں، ان کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دین توحید کی دعوت کو اس برتر سطح پر پیش کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے اس سے پہلے معجزات ظاہر کیے جاتے تھے۔
زمین و آسمان میں جو چیزیں ہیں وہ اس لیے ہیں کہ ان کو دیکھ کر آدمی خدا کو یاد کرے۔مگر انسان نے خود انھیں چیزوں کو خدا سمجھ لیا۔یہ ایک قسم کا انحراف تھا۔اسی قسم کا انحراف موجودہ زمانےمیں سائنسی معلومات کے بارے میں پیش آرہا ہے۔سائنسی تحقیق سے جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ سب خدا کی خدائی کا ثبوت ہیں۔وہ انسان کو خدا کی یاد دلانے والے ہیں۔مگر موجودہ زمانے کے ملحد مفکرین نے دوبارہ ایک انحراف کیا ۔انھوں نے سائنسی حقیقتوں کو غلط رخ دے کر یہ کیا کہ جس چیز سے خدا کا ثبوت نکل رہا تھا اس کو انھوں نے اس بات کا ثبوت بنا دیا کہ یہاں کوئی خدا نہیں ہے۔بلکہ سارا نظام ایک مشینی عمل کے تحت اپنے آپ چلا جا رہا ہے۔
سائنس نے جو کائنات دریافت کی ہے وہ ایک حد درجہ با معنی اور با مقصد کائنات ہے۔جدید دریافتوں نے ثابت کیا ہے کہ ہماری دنیا منتشر مادہ کا بے معنی انبار نہیں ہے۔بلکہ وہ ایک اعلیٰ درجہ کا منظم کار خانہ ہے۔دنیا کی تمام چیزیں بے حد ہم آہنگی کے ساتھ ایک ایسے رخ پر سفر کرتی ہیں جو ہمیشہ با مقصد نتائج پیدا کرنے والے ہوں۔کائنات میں نظم اور مقصدیت کی دریافت واضح طورپر ناظم کی موجودگی کا اقرار ہے۔وہ کائنات کے پیچھے خدائی کار فرمائی کا یقینی ثبوت ہے۔مگر موجودہ زمانے کے بے خدا مفکرین نے یہ کیا کہ اس سائنسی دریافت کا رخ الحاد کی طرف موڑدیا۔انھوں نے کہا کہ جو کچھ ثابت ہوا ہے وہ بجائے خود واقعہ ہے۔مگر اس کا کیا ثبوت کہ وہ کوئی نتیجہ (end) ہے۔عین ممکن ہے کہ وہ محض ایک اثر (effect) ہو۔یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ یہاں کوئی ذہن ہو جو شعور اور ارادے کے تحت بالقصد واقعات کو ایک خاص انجام کی طرف لے جا رہا ہو۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ واقعات کے بے شعور عمل کے اثر سے اپنے آپ ایک چیز بر آمد ہو رہی ہو جو اتفاق سے بامعنی بھی ہو۔یہ بے معنی توجیہ خود ایک ارادہ کے تحت وجود میں آئی ہے۔پھر کیسی عجیب بات ہے کہ کائنات کو بلا ارادہ کار فرمائی مان لیا جائے۔
ایک طرف سائنس کے ظہور کے بعد ملحد مفکرین نے بہت بڑے پیمانے پر سائنس کو الحاد کا رخ دینے کی کوشش کی ہے۔دوسری طرف اس کے مقابلے میں مذہبی مفکرین کی کوششیں اتنی ہی کم ہیں۔ پچھلے سو سال کے اندر ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ علمی کتابیں چھپی ہیں جن کے ذریعہ سائنس سے غلط طور پر الحاد کو بر آمد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔دوسری طرف دینی مفکرین کی صف میں چند ہی قابل ذکر علمی کوششوں کا نام لیا جاسکتا ہے۔ان میں سے ایک قابل قدر کتاب سر جیمز جینز کی پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) ہے ۔اس کتاب میں لائق مصنف نے نظریہ تعلیل (Principle of Causation) کو خالص سائنسی استدلال کے ذریعہ منہدم کر دیا ہے جس کو موجودہ زمانہ میں خدا کا مشینی بدل سمجھ لیا گیا تھا۔
موجودہ صدی کے نصف آخر میں بے شمار نئے حقائق انسان کے علم میں آئے ہیں جو نہایت برتر سطح پر دینی عقائد کی حقانیت کو ثابت کررہے ہیں۔مگر ابھی تک کوئی ایسا دینی مفکر سامنے نہیں آیا جو ان سائنسی معلومات کو دینی صداقتوں کے اثبات کے طور پر مدون کرے۔اگر یہ کام اعلیٰ سطح پر ہو سکے تو وہ دعوت توحید کے حق میں ایک علمی معجزہ ظاہر کرنے کے ہم معنی ہو گا۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں جتنے پیغمبر آئے سب کی پیغمبری پر ان کے ہم عصر مخاطبین نے شک کیا (ہود،11:62)۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ابتدا میں یہی صورت پیش آئی کہ آپ کے مخاطبینِ اول آپ کی نبوت پر شک کرتے رہے (ص،38:8)۔ تا ہم اسی کے ساتھ قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کیاجائیگا:عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79)۔اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی نبوت شک کے مرحلے سے گزر کر ایک ایسے مرحلے میں پہنچے گی جب وہ مکمل طور پر تسلیم شدہ نبوت بن جائے۔محمود(قابل تعریف) ہونا تسلیم و اعتراف کا آخری درجہ ہے۔
ہر نبی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی قوم کے اندر ایک ایسی شخصیت ہوتا ہے جس کو لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔"معلوم نہیں یہ واقعتاً پیغمبر ہیں یا صرف دعویٰ کر رہے ہیں" اس طرح کے خیالات لوگوں کے ذہن میں گھومتے ہیں اور آخر وقت تک ختم نہیں ہو پاتے۔پیغمبری اپنے ابتدائی دور میں صرف دعویٰ ہوتی ہے۔وہ اپنے دعویٰ کا ایسا ثبوت نہیں ہوتی جس کو ماننے پر لوگ مجبور ہو جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی پیغمبر آیا وہ اپنی قوم کی نظر میں ایک نزاعی شخصیت بن گیا۔کیونکہ پیغمبر کی صداقت کو جاننے کے لیے لوگوں کے پاس اس وقت اس کا صرف دعویٰ تھا۔اس کے حق میں مسلمہ تاریخی دلائل ابھی جمع نہیں ہوئے تھے۔اس قسم کے دلائل ہمیشہ بعد کو وجود میں آتے ہیں۔مگر عام طور پر انبیاء کا معاملہ اس کے بعدکے مرحلے تک پہنچ نہ سکا۔
دوسرے پیغمبر نزاعی دور میں شروع ہوئے اور نزاعی دور ہی میں ان کا اختتام ہو گیا۔ کیونکہ ان کے بعد ان کے پیغام کی پشت پر ایسا گروہ جمع نہ ہو سکا جو ان کی سیرت اور ان کے کلام کو مکمل طور پر محفوظ رکھ سکے۔دوسرے انبیاء اپنے زمانے میں لوگوں کے لیے اس لیے نزاعی تھے کہ وہ ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے،بعد کے دور میں وہ دوبارہ نزاعی ہو گئے۔کیوں کہ بعد کو ان کی جو تاریخ بنی وہ انسانی علم کے معیار پر تسلیم شدہ نہ تھی۔
نبیوں کی فہرست میں اس اعتبار سے صرف پیغمبر آخر الزماں کا استثنا ہے۔آپ نے اگر چہ دوسرے نبیوں کی طرح، اپنی نبوت کا آغاز نزاعی دور سے کیا ۔مگر بعد کے دور میں آپ کو اتنی غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی کہ زمین کے بڑے حصے میں آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا اقتدار قائم ہو گیا۔ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں آپ کے دین نے ایشیا اور افریقہ کی بڑی طاقتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔
پیغمبر آخر الزماں کو جتنے چیلنج پیش آئے سب میں وہ فاتح رہے۔آپ نے جتنی پیشین گوئیاں کیں سب مکمل طور پر پوری ہوئیں۔جو طاقت بھی آپ سے ٹکرائی وہ پاش پاش ہو گئی۔ آپ کی زندگی میں ایسے واقعات پیش آئے جن کی بنا پر معاصر تاریخ میں آپ کا ریکارڈ قائم ہو گیا۔ ساری تاریخ ِ انبیاء میں آپ کو یہ غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی کہ آپ کی نبوت نزاعی مرحلے سے نکل کر محمودی مرحلے میں پہنچ گئی۔آپ کا کلام اور آپ کا کارنامہ دونوں اس طرح محفوظ حالت میں باقی رہے کہ کسی کے لیے آپ کے بارے میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
موجودہ زمانے میں دین حق کے داعیوں کو ایک ایسا خصوصی موقع (advantage) حاصل ہے جو تاریخ کے پچھلے ادوار میں کسی داعی گروہ کو حاصل نہ تھا۔وہ یہ کہ ہم آج اس حیثیت میں ہیں کہ توحید کی دعوت کو مسلّمہ(established) نبوت کی سطح پر پیش کر سکیں۔ جب کہ اس سے پہلے توحید کی دعوت صرف نزاعی (controversial) نبوت کی سطح پر پیش کی جا سکتی تھی۔
دوسری امتیں اگر نبوتِ نزاعی کی وارث تھیں تو ہم نبوت محمودی کے وارث ہیں۔ مسلمانوں کو اقوام عالم کے سامنے شہادت حق کا جو کام انجام دینا ہے،اس کے لیے خدا نے آج ہر قسم کے موافق مواقع مکمل طور پر کھول دیے ہیں۔اس کے باوجود اگر مسلمان اس کار شہادت کو انجام نہ دیں، یا شہادت دین کے نام پر قومی جھگڑے کھڑے کرنے لگیں تو مجھے نہیں معلوم کہ قیامت کے دن وہ ربّ العالمین کے سامنے کیوں کر بری ٴالذمہ ہو سکتے ہیں۔