موافق امکانات

دعوت دین کا کام انتہائی مشکل کام ہے۔مگر اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو ہمارے لیے آسان بنا دیا ہے۔اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ میں ایسی تبدیلیاں کیں جس نے ہمارے لیے نئے مواقع کھول دیے۔  موجودہ زمانے میں یہ تاریخی عمل اپنی آخری حد تک پہنچ گیا ہے۔حتیٰ کہ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ جو کام پہلے " خون" کے ذریعے کرنا پڑتا تھا،اس کو اب قلم کی سیاہی کے ذریعے انجام دیا جا سکے۔

اس عمل تیسیر کے تین خاص پہلو ہیں جن کی طرف قرآن میں اشارے کیے گئے ہیں:

1۔قرآن میں اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی گئی : رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔خدایا،ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے پچھلی امتوں پر ڈالا تھا۔

اگر الفاظ بدل کراس آیت کی تفسیر کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت توحید کا جو کام پچھلے داعیوں کو پابندی رائے کے ماحول میں کرنا پڑتا تھا،لیکن ہمیں آزادی رائے کے ماحول میں کرنے کا موقع عطا فرما۔پہلے زمانہ میں یہ صورت حال تھی کہ توحید کا اعلان کرنے والے کو پتھر مارے جاتے۔اس کو آگ میں ڈال دیا جاتا ۔اس کے جسم کو آرے سے چیر دیا جاتا ،اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے زمانہ میں حکومت کی بنیاد شرک پر قائم تھی۔پچھلے زمانہ کے بادشاہ مفروضہ دیوتاؤں کے نمائندہ بن کر حکومت کرتے تھے۔اس لیے جب کوئی شخص شرک کو بے بنیاد قرار دیتا تو اس زمانہ کے بادشا ہوں کو محسوس ہوتا کہ وہ نظریاتی بنیاد ختم ہو رہی ہے جس پر انھوں نے اپنی حکومت کو قائم کر رکھا ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا اس نے شرک کی اجتماعی حیثیت کو ختم کر کے اس کو ایک ذاتی عقیدہ بنا دیا۔اب شرک الگ ہو گیا اور سیاسی ادارہ الگ۔اس طرح وہ دور ختم ہو گیا جب کہ شرک لوگوں کے لیے اعلان توحید کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (8:39)  ۔ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔

اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے جب توہم پرستی اور شخصی تقدس کا خاتمہ کیا تو نسلی بادشاہت کی بنیادیں بھی ہل گئیں۔چنانچہ انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جو بالآخر یورپ پہنچ کر جمہوریت (democracy) کی  صورت میں مکمل ہوا۔اس کے بعد شخصی حاکمیت کے بجائے عوامی حاکمیت کا اصول دنیا میں رائج ہوا اور آزادی  رائے کو ہر آدمی کا مقدس حق تسلیم کر لیا گیا۔اس عالمی فکری انقلاب نے داعیان حق کے لیے یہ عظیم امکان کھول دیا کہ وہ غیر ضروری رکاوٹوں سے بے خوف ہو کر ساری دنیا میں حق کے اعلان کا کام انجام دے سکیں۔

   2۔قرآن میں یہ اعلان کیا گیا:سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ہم عنقریب آفاق میں اور انفس میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے جس سے کھل جائے کہ یہ سراسر حق ہے۔قرآن کی اس آیت میں اس انقلاب کی طرف اشارہ ہے جس کو جدید سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔

کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی دلیل ہے۔تمام مخلوقات اپنے خالق کی صفات کا اظہار کر رہی ہیں۔گویا کائنات قرآن کی دلیل ہے۔تاہم یہ دلیل سائنسی انقلاب سے پہلے بڑی حد تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑی ہوئی تھی۔اس دریافت کے لیے ضروری تھا کہ چیزوں کی گہرائی کے ساتھ تحقیق کی جائے۔مگر شرک کا عقیدہ اس تحقیق کی راہ میں حائل تھا۔مشرک انسان کائنات کے مظاہر کو پرستش کی چیز سمجھے ہوئے تھا پھر وہ اس کو تحقیق کی چیز کیسے بناتا۔

توحید کے عمومی انقلاب نے اس رکاوٹ کو ختم کر دیا۔اسلامی انقلاب کے بعد کائنات کے تقدس کا ذہن ختم ہو گیا۔اب کائنات کے مظاہر پر آزادنہ غور و فکر شروع ہو گیا۔یہ کام صدیوں تک عالمی سطح پر جاری رہا۔یہاں تک کہ بالآخر وہ یورپ پہنچا۔یورپ میں اس  کو موزوں زمین ملی۔یہاں اس نے تیزی سے ترقی کی۔یہاں وہ عظیم فکری انقلاب ظہور میں آیا جس کو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔

سائنسی تحقیق کے ذریعے کائنات کے جو حقائق معلوم ہوئے ہیں وہ قرآن کی دعوت کو قطعیات کی سطح پر ثابت کر رہے ہیں۔اس کی تفصیل راقم الحروف نے اپنی کتاب ،مذہب اور جدید چیلنج  (الاسلام  یتحدی) میں   کی ہے۔جو لوگ زیادہ تفصیل کے خواہش مند ہوں وہ اس کتاب میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

3۔اس سلسلے میں تیسری چیز وہ ہے جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے:عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(17:79)۔قریب ہے کہ اللہ تم کو ایک مقام محمود پر کھڑا کرے۔

محمود کے معنی ہیں "تعریف کیا ہوا"۔تعریف دراصل تسلیم و اعتراف کی آخری صورت ہے،کسی کو ماننے والا جب اس کو ماننے کی آخری حد پر پہنچتا ہے تو وہ اس کی تعریف کرنے لگتا ہے۔اس اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم شدہ نبوت کے مقام پر کھڑا کرے۔پیغمبر اسلام دنیا میں بھی محمود تھے اور آخرت میں بھی محمود ،شفاعت کبریٰ جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ آخرت میں آپ کا مقام محمود ہے اور آپ کا تاریخی طور پر مسلم اور معترف ہونا دنیا میں آپ کا مقام محمود۔

خدا کی طرف سے ہر دور میں اور ہر قوم میں پیغمبر آئے ۔یہ سب پیغمبر تھے۔ان سب کا پیغام بھی  ا یک   تھا ۔مگر مختلف اسباب سے ان پیغمبروں کو تاریخی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔تاریخی ریکارڈ کے مطابق آج کے انسان کے لیے ان پیغمبروں کی حیثیت نزاعی نبوت   کی  ہے ،نہ کہ مسلمہ نبوت کی۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تاریخی طور پر ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔جب کہ دوسرے نبیوں کی نبوت تاریخی طور پر ثابت شدہ نہیں ،اس بنا پر آج یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہم تسلیم شدہ (established) نبوت کی سطح پر دین کی دعوت دے سکیں ۔جب کہ اس سے پہلے ہمیشہ متنازعہ (controversial) نبوت کی سطح پر دین کی دعوت دینی پڑتی تھی۔

ڈاکٹر نشی کانت چٹو پا دھیائے(اسلامی نام محمد عزیز الدین) ہندوستان کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو تھے۔وہ انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر چٹو پادھیائے کو حق کی تلاش ہوئی۔اس غرض سے انھوں نے ہندی، انگریزی،جرمن، فرانسیسی وغیرہ زبانیں سیکھیں۔انھوں نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا۔مگر وہ کسی پر مطمئن نہ ہو سکے۔اس کی   ایک  بڑی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے پایا کہ یہ تمام مذاہب تاریخی معیار پر ثابت نہیں ہوتے ۔پھر کس طرح ان کی واقعیت پر یقین کیا جائے  اور ان کو مستند سمجھا جائے۔

آخر میں انھوں نے اسلام کا مطالعہ کیا۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اسلام کی تعلیمات آج بھی اپنی اصل صورت میں پوری طرح محفوظ ہیں۔اسلام کی شخصیات مکمل طور پر تاریخی شخصیات ہیں نہ کہ دیو مالائی شخصیات۔وہ لکھتے ہیں کہ "میں نے پایا کہ پیغمبر اسلام كى زندگی میں کوئی چیز مبہم اور دھندلی نہیں ۔اور نہ پر اسرار یا دیو مالائی ہے،جیسا کہ مثال کے طور پر،زرتشت اور شری کرشن کے یہاں ،حتٰی کہ بدھا اور مسیح کے یہاں ہے۔دیگر پیغمبروں کے وجود تک کے بارے میں اہل علم نے شبہ کیا ہے۔حتٰی کہ انکار کیا ہے مگر جہاں تک میں جانتا ہوں ،پیغمبر اسلام کے بارے میں کوئی یہ جراٴت نہ کر سکا کہ ان کو توہماتی عقیدہ یا پریوں کی کہانی کہہ سکے"۔

اس کے بعد ڈاکٹر نشی کانت چٹو پادھیائے کہتے ہیں:

Oh, what a relief to find, after all a truly historical Prophet to believe in. (Why have I Accepted Islam, Dr Nishikanta Chattopadhyay)  

اُف ،کیسا عجیب تسکیں کا سامان ہے کہ بالآخر آدمی واقعی معنوں میں ایک تاریخی پیغمبر کو پا لے جس پر وہ ایمان لا سکے۔  یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں مقام محمود (17:79) کہا گیا ہے۔نبوتِ تاریخی ہی کا دوسرا نام نبوتِ محمودی ہے۔پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر کھڑاکرنے کا یہ مطلب ہے کہ آپ دوسرے پیغمبروں کی طرح، تاریخی طور پر کوئی نامعلوم شخصیت یا غیر ثابت شدہ شخصیت نہیں ہوں گے،بلکہ آپ تمام انسانوں کے لیے پوری طرح ایک معلوم اور مسلّم شخصیت ہوں گے ۔آپ کی سیرت بھی ایک محفوظ سیرت ہو گی اور آپ کی تعلیم بھی ایک محفوظ تعلیم۔

یہ داعیان اسلام کے لیے موجودہ زمانےمیں بہت بڑا  advantage  ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے میدان میں وہ بلا مقابلہ کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

انسان پیدائشی طور پر اپنی فطرت میں خدا کی طلب لے کر پیدا ہوتا ہے۔چنانچہ اس کو سچائی کی تلاش ہوتی ہے۔وہ انسانی علوم میں اپنی طلب کا جواب دریافت کرنا چاہتا ہے مگر وہ دریافت نہیں کر پاتا ۔پھر وہ مذاہب کا مطالعہ کرتا ہے تو پاتا ہے کہ موجودہ تمام مذاہب تاریخی پہلو سے غیر محفوظ ہیں۔ان کو تاریخی اعتباریت(historical credibility) کا درجہ حاصل نہیں۔یہاں ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ انسان سے کہہ سکیں کہ تم جس چیز کی تلاش میں ہو وہ محفوظ اور مستند حالت میں ہمارے یہاں موجود ہے۔دوسروں کے پاس صرف غیرتاریخی پیغمبر ہیں جن کو وہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔مگر اسلام کا پیغمبر مکمل طور پر ایک تاریخی پیغمبر ہے۔تاریخ کے مسلمہ معیار کے مطابق آپ کے بارے میں کسی قسم کا شک کرنے کی گنجائش نہیں۔دوسروں کے پاس متنازعہ  نبوت ہے اور اسلام کے پاس مسلمہ نبوت۔

یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی عظیم نعمت ہے۔اس نے ممکن بنا دیا ہے کہ خدا کے دین کی دعوت آج مسلّمہ نبوت  کی   سطح پر دی جائے ، جب کہ اس سے پہلے وہ صرف متنازعہ نبوت کی سطح پر دی جا سکتی تھی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom