شہد کی طبّی اہمیت
قرآن میں شہد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کے اند رشفا ہے :فِيْهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ(17:69)۔مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں شہد کے طبی پہلوپر بہت زور دیا۔مسلمانوں کے یہاں دوا سازی کے فن میں شہد کو خصوصی درجہ حاصل رہا ہے۔مگر مغربی دنیا صدیوں تک اس کی طبی اہمیت سے بے خبر رہی۔یورپ میں ابھی انیسویں صدی تک شہد کو بس ایک رقیق غذا (liquid food) کی حیثیت حاصل تھی۔یہ صرف بیسویں صدی کی بات ہے کہ یورپ کے علماء نے یہ دریافت کیا کہ شہد کے اندر دافع عفونت خصوصیات (antiseptic properties)موجود ہیں۔
اس سلسلے میں ہم جدید تحقیقات کا خلاصہ ایک امریکی میگزین سے نقل کرتے ہیں:
Honey is a powerful destroyer of germs which produce human diseases. It was not untill the twentieth century, however, that this was demonstrated scientifically. Dr. W. G. Sackett, formerly with the Colorado Agricultural College at Fort Collins, attempted to prove that honey was a carrier of disease much like milk. To his surprise, all the disease germs he introduced into pure honey were quickly destroyed. The germ that causes typhoid fever died in pure honey after 48 hours' exposure. Enteritidis, causing intestinal inflation, lived 48 hours. A hardly germ which causes broncho- pneumonia and septicemia held out for four days. Bacillus coli Communis which under certain conditions causes peritonitis, was dead on the fifth day of experiment. According to Dr. Bodog Beck, there are many other germs equally destructible in honey. The reason for this bactericidal quality in honey, he said, is in its hygroscopic ability. It literally draws every particle of moisture out of germs. Germs like any other living organism, perish without water. This power to absorb moisture is almost unlimited. Honey will draw moisture from metal, glass and even stone rocks.
(Rosicrucian Digest, September 1975 p.11)
شہد جراثیم کو مار ڈالنے والی چیز ہے جو کہ انسانی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ تاہم بیسویں صدی سے پہلے تک اس کو علمی طور پر دکھایا نہیں جا سکا تھا۔ڈاکٹر ساکٹ جو اس سے پہلے فورٹ کولنس کے ایگر یکلچرل کالج سے وابستہ تھے، انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شہد کے اندر بیماری کے جراثیم پرورش پاتے ہیں جس طرح وہ دودھ میں پرورش پاتے ہیں۔مگر ان کو سخت تعجب ہوا جب تجربات کے دوران انہوں نےپایا کہ بیماری پیدا کرنے والے جراثیم جو انھوں نے خالص شہد کے اندر ڈالے تھے وہ سب کے سب بہت جلد مر گئے۔معیادی بخار (typhoid fever) کے جراثیم صرف 48 گھنٹہ کے اندر ہلاک ہو گئے۔بعض سخت جاں جراثیم چار دن یا پانچ دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے۔ڈاکٹر بوڈوگ بک نے بتایا ہے کہ شہد کے اندر جراثیم کو مارنے کی اس خصوصیت کی سادہ سی وجہ ہے ،وہ شہد کی رطوبت کو چوس لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔شہد جراثیم کی رطوبت کا ہر جزءکھینچ لیتی ہے۔جراثیم دوسرے حیوانات کی طرح پانی کے بغیر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ شہد کے اندر پانی جذب کرنے کی صلاحیت لا محدود مقدار میں ہے۔وہ دھات ، شیشہ اور پتھر تک سے رطوبت کھینچ لیتی ہے۔