یہی معاملہ فلسفہ سیاسیات کا ہے۔انسائیکلوپیڈیابر ٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار کے الفاظ میں سیاسی فلسفہ اور سیاسی اختلافات بنیادی طور پر ایک ہی سوال کے گرد گھومتے ہیں۔یہ کہ کس کوکس کے اوپر اقتدار حاصل ہو:
Political philosophy and political conflict have revolved basically around who should have power over whom. (Encyclopedia Britannica vol. 14, p. 697)
اس میدانِ فکر میں پچھلے پانچ ہزار سال سے اعلیٰ ترین انسانی دماغ اپنی کوششیں صرف کر رہے ہیں۔اس کے باوجود علم سیاسیات کا مربوط نظام بنانے کے لیے وہ چیز دریافت نہ ہو سکی جس کو اسپنوز انے علمی بنیاد (Scientific base) کہا ہے۔
علم سیاسیات میں ایک درجن سے زیادہ مدارس فکر پائے جاتے ہیں۔تا ہم وسیع تقسیم میں وہ صرف دو ہیں۔ ایک وہ جو شخصی اقتدارکی وکالت کرتے ہیں ۔دوسرے وہ جو جمہوری اقتدار کے حامی ہیں۔ان دونوں ہی پر سخت ترین اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ شخصی اقتدار کے نظریہ پر یہ اعتراض واقع ہوتا ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کے اوپر کیوں حاکمانہ اقتدار حاصل ہو۔چنانچہ وہ کبھی قبولیت عام حاصل نہ کر سکا۔دوسرا نظریہ وہ ہے جس کو جمہوری اقتدار کا نظریہ کہا جاتا ہے۔عملاً اگرچہ یہ ایک مقبول نظریہ ہے مگر نظری اور فکری اعتبار سے اس پر سخت ترین شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔
جمہوریت (ڈیموکریسی) کا نظریہ اس عقیدہ پر قائم ہے کہ تمام انسان آزاد ہیں اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔روسو (Jean Jacques Rousseau, 1712-1778) کی کتاب معاہدہ عمرانی (Social Contract) کا پہلا فقرہ یہ ہے:
Man is born free; and everywhere he is in chain.
انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
ڈیمو کریسی ایک یونانی لفظ ہے۔اس کے معنی ہیں حکومت بذریعہ عوام (Rule by the people)۔ مگر عملاًیہ ناممکن ہے کہ تمام عوام کی حکومت قائم ہو سکے۔ سارے لوگوں پر سارے لوگ آخر کس طرح حکومت کریں گے۔مزید یہ کہ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سماجی حیوان (social animal) ہے۔انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں ہے کہ وہ جس طرح چاہے رہے۔بلکہ وہ سماجی مجموعہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ایک مفکر کےالفاظ میں،انسان آزاد نہیں پیدا ہوا ہے۔انسان ایک سماج کے اندر پیدا ہوتا ہے جو کہ اس کے اوپر پابندیاں عائد کرتا ہے:
Man is not born free; Man is born into society, which imposes restraints on him.
جب سارے عوام بیک وقت حکومت نہیں کر سکتے تو عوامی حکومت کا نظام کس طرح بنایا جائے۔اس سلسلےمیں مختلف نظریے پیش کیے گئے۔سب سے زیادہ مقبول نظریہ روسو کا نظریہ ہے جس کو اس نے رائے عامہ (general will) کی بنیاد پر قائم کیا ہے۔یہ رائے عامہ حکمراں افراد کے انتخاب میں ظاہر ہوتی ہے۔اس طرح عوام کی حکومت عملاً منتخب افراد کی حکومت بن جاتی ہے۔عوام کو انتخاب میں ووٹ دینے کی کسی قدر آزادی ہوتی ہے۔مگر ووٹ دینے کے بعد وہ دوبارہ اپنے جیسے کچھ افراد کے محکوم بن جاتے ہیں۔روسو نے اس کا جواب یہ دیا کہ ایک شخص کی خواہش کی پیروی غلامی ہے۔مگر خود اپنے مقرر کردہ قانون کی پیروی کرناآزادی ہے:
To follow one's impulse is slavery but to obey the self-prescribed law is liberty. (Encyclopedia Britannica, 15/1172)
ظاہر ہے کہ یہ جواب نا کافی تھا۔چنانچہ اس نظریہ کو دوبارہ سخت اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا ۔کیوں کہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ خوبصورت الفاظ کے باوجود منتخب جمہوریت عملاً منتخب بادشاہت (elective monarchy) کا دوسرا نام ہے۔انتخاب کے بعد جمہوری افراد وہی کچھ بن جاتے ہیں جو اس سے پہلے شاہی افراد بنے ہوئے تھے۔
اس طرح تمام سیاسی مفکرین فکری تضاد کا شکار ہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ انھیں نظر نہیں آتا ۔اعتقادی طور پر سب کے سب مساوات انسانی کو اعلیٰ ترین قدر مانتے ہیں۔مگر انسانی مساوات حقیقی معنوں میں نہ شاہی نظام میں حاصل ہوتی اور نہ جمہوری نظام میں۔شاہی نظام اگر خاندانی بادشاہت ہے تو جمہوری نظام انتخابی بادشاہت۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں شاہی نظام کے خلاف زبردست بغاوت ہوئی۔مگر جب شاہی افراد کی محکومی ختم ہو گئی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے لیے دوسرا بدل صرف یہ ہے کہ نمائندہ افراد کی محکومی پر اپنے آپ کو راضی کرلیں۔دونوں نظاموں میں جو فرق تھا وہ صرف یہ کہ نئے حکمران اپنے آپ کو زمین پر عوام کا نمائندہ کہتے تھے۔جب کہ پرانے حکمرانوں کا کہنا تھا کہ وہ زمین پر خدا کے نمائندہ (representative of God on earth) ہیں۔
برٹانیکا کے مقالہ نگار نے اس معاملے میں انسان کی ناکامی کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ سیاسی فلسفہ کی تاریخ ،افلاطون سے لے کر اب تک،ظاہر کرتی ہے کہ جدید سیاسی فلسفہ ابھی تک بنیادی مسائل سے دو چار ہے:
The history of political philosophy from Plato until the present day makes plain that modern political philosophy is still faced with the basic problems. (Encyclopedia Britannica, 14/695)
جمہوریت عین مساوات ِانسانی ہی کے نام پر پیش کی گئی۔مگر وہ اپنے اندرونی تضاد کی وجہ سے برعکس نتیجے کا حامل ثابت ہوئی۔حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی فلسفہ ہے جو اس دنیا میں فکری تضاد سے خالی ہو سکتا ہے۔اور وہ قرآن کا فلسفہ ہے۔اس سلسلے میں قرآن یہ نظریہ پیش کرتا ہے:
يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثى وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(49:13)۔ اے لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور تم کو قوموں اور خاندانوں میں تقسیم کردیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔
تمام سیاسی نظریات کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان حاکم اور محکوم کی تقسیم ختم کریں۔مگر انسانی نظام میں یہ تقسیم کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔خواہ جو بھی سیاسی نظام بنایا جائے۔یہ صورت ہمیشہ باقی رہے گی کہ کچھ لوگ ایک یا دوسرے نام پر حاکم بن جائیں گے اور بقیہ لوگ محکوم کی حیثیت اختیار کر لیں گے۔مگر جب خدا کو رب العالمین مان لیا جائے تو یہ تقسیم ایک ریلیٹیو (relative)تقسیم ہو جاتی ہے ۔اب ایک طرف خدا ہوتا ہے اور دوسری طرف انسان۔اب رب اور عبد کی تقسیم صرف خدا اور انسان کے درمیان رہتی ہے۔باقی جہاں تک انسان اور انسان کے درمیان کا معاملہ ہے،سب انسان مساوی طور پر یکساں حیثیت کے مالک ہوجاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان حاکم اور محکوم کی تقسیم ختم کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ خدا کو بادشاہ ِحقیقی مان کر سب انسان اپنے آپ کو اس کی ماتحتی میں دیدیں۔یہی واحد فطری نظریہ ہے جو فکری تضاد سے پاک ہے۔دوسرا کوئی بھی نظریہ فکری تضاد سے خالی نہیں ہو سکتا۔