مخالفانہ عمل کو ختم کرنا
موجودہ زمانے میں اسلامی دعوت کا کام دراصل جدید اقوام پر اتمام حجت کے ہم معنی ہے۔یہ ایک عظیم الشان کام ہے۔جس کے لیے عظیم الشان وسائل اور غیر معمولی موافق حالات درکار ہیں۔یہ وسائل اور حالات مسلم ملکوں میں یقینی طور پر مل سکتے ہیں۔مگر وہ اسی وقت مل سکتے ہیں جب کہ مسلم حکومتوں کو اسلامی دعوت کا حریف نہ بنا یا جائے۔
1891ء کا واقعہ ہے کہ جاپان کے شہنشاہ میجی (1912-1868) کا ایک خط ترکی کے سلطان عبد الحمید ثانی (1842-1918)کو ملا۔اس خط میں سلطان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ مسلم مبلغین کو جاپان بھیجے تا کہ وہ وہاں کے لوگوں کو اسلام سے واقف کرائیں۔ سلطان عبد الحمید نے اس اہم کام کے لیے سید جمال الدین افغانی (1838-1997)کا انتخاب کیا اور ان کو ہر طرح کے سرکاری تعاون کو یقین دلایا۔
مگر یہی سید جمال الدین افغانی جن کو سلطان عبد الحمید نے اس قدر احترام اور تعاون کا مستحق سمجھا تھا،بعد کو اسی سلطان نے سیدجمال الدین افغانی کو جیل میں بند کر دیا۔ حتٰی کہ جیل خانے ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان کو معلوم ہوا کہ سید جمال الدین افغانی اس کے خلاف سیاسی سازش میں مشغول ہیں۔جمال الدین افغانی سلطان کو مغربی استعمار کا ایجنٹ سمجھتے تھے اور اس کو تخت سے بے دخل کر دینا چاہتے تھے۔جو شخص جاپان میں اسلام کی تاریخ کا آغاز کرنے والا بن سکتا تھا وہ صرف جیل کے رجسٹر میں اپنے نام کا اضافہ کر کے رہ گیا۔
یہی تمام مسلم حکمرانوں کا حال ہے۔اگر آپ اسلامی دعوت کے کام میں مشغول ہوں تو وہ ہر طرح کا اعلیٰ ترین تعاون آپ کو دیں گے۔لیکن اگر آپ ان کے خلاف سیاسی مہم چلائیں تو وہ آپ کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
بد قسمتی سے موجودہ زمانے میں مسلسل سید جمال الدین افغانی کے اسوہ کو دہرایا جارہا ہے۔مسلمان کہیں ایک عنوان سے اور کہیں دوسرے عنوان سے،اپنے حکمرانوں کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول ہیں۔حتیٰ کہ آج "اسلامی دعوت"کا لفظ مسلم حکمرانوں کے لیے سیاسی اپوزیشن کے ہم معنی بن کر رہ گیا ہے۔
اس کی وجہ سے نہ صرف یہ نقصان ہوا ہے کہ اسلامی دعوت کی مہم میں مسلم حکومتوں کا بھرپور تعاون حاصل نہیں ہو رہا ہے۔بلکہ اگر کوئی شخص حکومت سے بے نیاز ہو کر ذاتی طور پر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہے تو حکومت اس کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتی ہے۔
ضرورت ہے کہ مسلم حکمرانوں سے سیاسی منازعت کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، خواہ وہ اسلام کے نام پر ہو یا کسی اور نام پر۔تا کہ ہر مسلم ملک میں اسلامی کارکنوں کو ان کی قومی حکومتوں کا تعاون حاصل ہو اور اسلام کے احیاء کا کام بڑے پیمانے پر شروع کیا جاسکے، غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے بھی اور خود مسلمانوں کی اپنی تعمیرو اصلاح کے لیے بھی۔