حقیقت یہ ہے کہ عمل کا جو معیار وسیع تر کائنات میں خدا اپنے براہ راست کنٹرول کے تحت ظہور میں لا رہا ہے،وہی معیار انسان کو اپنی ذاتی زندگی میں ذاتی کنٹرول کے تحت وجود میں لانا ہے۔جو واقعہ خدا نے بقیہ دنیا میں مادی سطح پر قائم کر رکھا ہے۔اسی واقعہ کو انسانی دنیا میں انسان کی سطح پر قائم کرنا ہے۔
کائناتی سطح پر جو چیز لوہا کی شکل میں پائی جاتی ہے وہ انسانی سطح پر پختہ کرداری کی صورت میں مطلوب ہے۔کائناتی سطح پر جو چیز پتھریلی زمین سے چشمہ کی صورت میں بہہ نکلتی ہے وہ انسان سے نرم مزاجی کی صورت میں مطلوب ہے۔کائناتی سطح پر جو چیز قابل پیشین گوئی کردار کی صورت میں پائی جاتی ہے وہ انسانی سطح پر ایفائے عہد(وعدہ پورا کرنا) کی صورت میں مطلوب ہے۔کائناتی سطح پر جو چیز مہک اور رنگ کی صورت میں پائی جاتی ہے وہ انسانی سطح پر اچھے سلوک اور خوش معاملگی کی صورت میں مطلوب ہے۔
درخت خراب ہوا(کاربن) کو لے لیتا ہے اور اسکے بدلے اچھی ہوا (آکسیجن) ہماری طرف لوٹا دیتا ہے۔یہی بات انسانی سطح پر اس اصول کی صورت میں مطلوب ہے کہ " جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرےاس کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو" کائنات میں کوئی چیز کسی دوسرے کی کاٹ میں لگی ہوئی نہیں ہے۔ہر ایک پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا حصہ ادا کرنے میں مصروف ہے۔یہی چیز انسانی سطح پر اس طرح مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ مثبت جدوجہد کرے،منفی نوعیت کی کاروائیوں سے وہ مکمل طور پر پرہیز کرے۔کائنات میں recycle اور decompose کرنے کا اصول کار فرما ہے۔فضلات دوبارہ استعمال ہونے کے لیے گیس میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔پتی درخت سے گر کر ضائع نہیں ہوتی بلکہ کھاد بن جاتی ہے۔یہی چیز انسانی زندگی میں اس طرح مطلوب ہے کہ انسان کی خرچ کی ہوئی دولت دوبارہ انسان کے لیے مفید بنے۔ایک انسان کی چھیڑی ہوئی جدوجہد دوسرے انسانوں کو اچھے پھل کا تحفہ دے۔
کائنات میں عظیم الشان سطح پر بے شمار کام ہو رہے ہیں۔ہر جزء انتہائی صحت اور پابندی کےساتھ اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی میں لگا ہوا ہے۔مگر کسی کو یہاں کوئی ظاہری بدلہ نہیں ملتا۔یہی چیز انسان سے اس طرح مطلوب ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں لگا رہے۔بغیر اس کے کہ دنیا میں اس کو اس کے عمل کا کوئی معاوضہ ملنے والا ہو۔اونچا پہاڑاور تمام کھڑی ہوئی چیزیں اپنا سایہ زمین پر ڈال دیتی ہیں۔یہی چیز انسانی زندگی میں ا س طرح مطلوب ہے کہ ہر آدمی تواضع کا طریقہ اختیار کرے۔کوئی شخص کسی کے اوپر فخر نہ کرے۔کو ئی شخص دوسرے کے مقابلہ میں اپنے کو بڑا نہ سمجھے۔
اسلامی اخلاق حقیقتاً کائناتی اخلاق کا دوسرا نام ہے،کائنات کی سطح پر یہ اخلاقی معیار شعور کے بغیر قائم ہے۔اور انسان کی سطح پر یہ اخلاقی معیار شعور کے تحت خود اپنے ارادے سے قائم ہوتا ہے۔