قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا (21:30)۔ کیا منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو کھول دیا۔
"رتق " کے معنیٰ ہیں منضم الاجزاء۔ یعنی کسی چیز کے تمام اجزاء کا ایک دوسرے میں گھسا ہوا اور سمٹا ہوا ہونا۔ اور فتق کا لفظ اس کے برعکس عمل کے لیے ہے۔یعنی ملے ہوئے اجزاء کو پھاڑ کر الگ الگ کر دینا۔
یہ آیت ساتویں صدی عیسوی میں اتری۔بظاہر اس سے معلوم ہوتا تھا کہ کائنات کے مختلف اجزاء ابتداءً باہم ملے ہوئے اور سمٹے ہوئے تھے۔اس کے بعد خدا نے ان کو پھاڑ کرجدا کر دیا تاہم نزولِ قرآن کے بعد صدیوں تک انسان کو معلوم نہ تھا کہ کائنات میں وہ کون سا معاملہ پیش آیا ہے جس کو قرآن نے رتق اور فتق سے تعبر کیا ہے۔پہلی بار اس کی معنویت 1927 میں سامنے آئی جب کہ جارج لیما ترے (Georges Lemaitre)نے وہ نظریہ پیش کیا جس کو عام طور پر بگ بینگ ( Big Bang) کہا جاتا ہے۔
جدید مشاہدہ بتاتا ہے کہ کائنات ہر لمحہ اپنے چاروں طرف پھیل رہی ہے۔چنانچہ موجودہ کائنات کو پھیلتی ہوئی کائنات ( expanding universe)کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے مختلف مشاہدات نے سائنس دانوں کو اس نظریہ تک پہنچایا ہے کہ کائنات ابتداءً سمٹی ہوئی حالت میں تھی۔اس وقت وسیع کائنات کے تمام اجزاء نہایت قوت سے باہم جڑے ہوئے تھے۔اس ابتدائی مادہ کو کائناتی بیضہ (Cosmic egg) یا سپر ایٹم (Super atom) کہا جاتا ہے۔
ابتداءً سائنسی حلقہ میں اس کی مخالفت کی گئی۔ 1948ء تک بگ بینگ کے مقابلے میں اسٹڈی اسٹیٹ نظریہ( Steady-state hypothesis) سائنس دانوں کے یہاں زیادہ قابل توجہ بنا رہا ۔ 1950ء سے علم کا وزن بگ بینگ کے حق میں بڑھنے لگا۔ 1965ء میں بیک گراؤنڈ ریڈئیشن ( background radiation) کی دریافت نے اس کی مزید تصدیق کی ،کیونکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ابتدائی انفجار کے ریڈیائی بقایا ہیں جو ابھی تک کائنات کے بعض حصوں میں موجود ہیں۔اسی طرح 1981ء میں بعض کہکشاؤں کی دریافت جو ہماری زمین سے دس ارب سال نور (light years) کے فاصلے پر واقع ہیں، وغیرہ۔انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984ء)میں بگ بینگ کے عنوان کے تحت اعتراف کیا گیا ہے کہ "اور اب اس نظریہ کو بیشتر علماء کونیات کی تائید حاصل ہے":
And it is now favoured by most cosmologists.
یہ واقعہ اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ قرآن کا مصنف ایک ایسی ہستی ہے جس کی نظرمیں ماضی سے لے کر مستقبل تک کے تمام حقائق ہیں۔وہ چیزوں کو وہاں سے دیکھ رہاہے جہاں سے انسان نہیں دیکھ سکتا۔وہ اس وقت بھی پوری طرح جان رہا ہوتا ہے جب کہ دوسروں کو کوئی علم نہیں ہوتا۔