قرآن کی برتری
عربی زبان تمام زبانوں کے درمیان ایک حیران کن استثناہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایک زبان کی عمر پانچ سو سال سے زیادہ نہیں ہوتی ۔تقریباً پانچ سو سال میں ایک زبان اتنی زیادہ بدل جاتی ہے کہ اگلی نسل کے لوگوں کے لیے پچھلے لوگوں کا کلام سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پرجافرے چاسر (1400-1342) اور ولیم شیکسپیئر (1616-1564)انگریزی زبان کے شاعر اورادیب تھے۔مگر آج کا ایک عام انگریزی داں ان کو پڑھنا چاہے تو اس کو انہیں ترجمہ کر کے پڑھنا پڑے گا۔چاسر اورشیکسپیئر کا کلام جدید انگریزی نصاب میں ترجمہ کرکے پڑھایا جاتا ہے۔ تقریباً ویسے ہی جیسے غیر زبان کی کتابیں ترجمہ کر کے پڑھائی جاتی ہیں۔
مگر عربی زبان کا معاملہ استثنائی طور پر اس سے مختلف ہے۔عربی زبان پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے یکساں حالت پر باقی ہے۔اس کے الفاظ اور اسلوب میں یقیناً ارتقاء ہوا ہے۔مگر یہ ارتقاء اس طرح ہوا ہے کہ الفاظ اپنے ابتدائی معنی کو بدستور باقی رکھے ہوئے ہیں۔قدیم عرب کا کوئی شخص اگر آج دوبارہ زندہ ہو تو آج کے عربوں میں بھی وہ اسی طرح بولا اور سمجھا جائے گا۔جس طرح چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کے عرب میں وہ بولا اور سمجھا جاتا تھا۔
یہ سراسرقرآن کا معجزہ ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے عربی زبان کو پکڑ رکھا ہے ،تا کہ جس طرح قرآن کو قیامت تک باقی رہنا ہے اسی طرح عربی زبان بھی زندہ اور قابلِ فہم حالت میں قیامت تک باقی رہے۔یہ کتاب کبھی " کلاسیکل لٹریچر "کی الماری میں نہ جانے پائے وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان پڑھی اور سمجھی جاتی رہے۔
یہی معاملہ علوم کا بھی ہے۔یہاں بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے علوم کو پکڑ رکھا ہے۔وہ علوم کو پکڑ کر بیٹھ گیا ہے تا کہ قرآن نے کسی معاملہ میں جو کچھ کہہ دیا ہے وہی ہمیشہ حرفِ آخر کی حیثیت سے باقی رہے۔چنانچہ بے شمار علمی ترقیوں کے باوجود علوم بالآخر وہیں باقی رہتے ہیں یا وہیں لوٹ آتے ہیں جہاں قرآن نے اوّل دن اس کو رکھ دیا تھا۔
ایک طرف انسانی کلام کی مثال ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔جب کہ قرآن انتہائی بڑے اور گہرے معاملات میں بھی اپنی برتر صداقت کو قائم کیے ہوئے ہے۔یہاں میں ایک تقابلی مثال دوں گا۔
ارسطو نے اپنے تصوراتی معاشرہ میں عورت کو کم تر درجہ دیا ہے۔اس کا ثبوت اس کے نزدیک یہ ہے کہ عورت کے منھ میں مرد سے کم دانت ہوتے ہیں۔برٹرینڈرسل نے اس کا مذاق اڑایا ہے۔اس نے اپنی کتاب "سماج پر سائنس کے اثرات" میں ارسطو کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے:
Aristotle maintained that women have fewer teeth than men; although he was twice married, it never occured to him to verify this statement by examining his wive's mouths. (The Impact of Science on Society, 1953, p. 7)
ارسطو نے دعویٰ کیا کہ عورتوں کے یہاں مردوں سے کم دانت ہوتے ہیں۔اگرچہ ارسطو کی دو بار شادی ہوئی تھی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کے منہ کو جانچ کر اس بیان کی تصدیق کرتا۔
ارسطو کا بیان حقیقت واقعہ پر حاوی نہ ہو سکا۔اس کے برعکس، قرآن کے بیانات حقیقت واقعہ کا اس طرح احاطہ کیے ہوئے ہیں کہ دونوں کبھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں جاتے۔
یہاں میں ایک مثال دوں گا۔قرآن میں ارشادہوا ہے کہ خدا اس کائنات کا حاکم مطلق ہے۔وہ اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہتا ہے اسے چلاتا ہے :
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْد (85:16)۔ کر ڈالنے والا جو چاہے۔
يَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاءُ (14:27)۔ اور اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
پچھلے ہزاروں سال سے خدا کا یہ تصور تسلیم شدہ چلا آرہا تھا۔انسان اس کو بلا بحث مانے ہوئے تھا۔
مگر موجودہ زمانے میں علم کی ترقی ہوئی تو انسان نے یہ نظریہ قائم کر لیا کہ واقعات کے پیچھے معلوم مادی اسباب کے سوا اور کوئی طاقت نہیں۔تمام واقعات مادی اسباب و علل کے تحت وقوع میں آتے ہیں۔اور مادی قوانین کے تحت ان کی کامل توجیہ کی جا سکتی ہے۔مگر بعد کی علمی تحقیقات نے اس مفروضے کو ڈھا دیا۔اب علم دوبارہ وہیں آگیا جہاں وہ ابتدامیں ٹھہرا ہوا تھا۔