قرآن 23 سال کے عرصہ میں اترا ۔سب سے پہلی آیت جو اتری وہ آیت علم تھی: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ(96:1)۔یعنی،پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ اور آخری آیتِ آخرت :وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰه (2:281)۔یعنی، اور اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
ابتدائی 23 سال تک خود رسول اللہ کی ذات قرآن کے اخذ کا ذریعہ تھی۔اپنے بعد آپ نے کچھ لوگوں کو نامزد کر دیا کہ ان سے تم قرآن سیکھنا۔یہ لوگ وہ تھے جنھوں نے نہایت صحت کے ساتھ پورے قرآن کو اپنے سینےمیں محفوظ کر لیا تھا اور عربی زبان سے گہری واقفیت اور جناب رسول کی مسلسل صحبت کی وجہ سے اس قابل ہو گئے تھے کہ مستند طور پر قرآن کی تعلیم دے سکیں۔ خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق کے زمانے میں ایک شخص کوفہ سے مدینہ آیا۔گفتگو کے دوران اس نے آپ سے کہا کہ کوفہ میں ایک شخص یاد سے قرآن پڑھاتا ہے۔یہ سن کر حضرت عمر غضب ناک ہو گئے۔مگر جب معلوم ہوا کہ وہ بزرگ حضرت عبد اللہ بن مسعود ہیں ،تو آپ خاموش ہو گئے۔(الاستیعاب، جلد 1، صفحہ377) اس کی وجہ یہی تھی کہ عبد اللہ بن مسعود آنحضرت کے اجازت یافتہ تھے۔آپ کے مجاز قاریوں میں سے چند نمایاں افراد تھے― عثمان ،علی، ابی ابن کعب، زید بن ثابت، ابن مسعود،ابوالدرداء، ابوموسیٰ اشعری،سالم مولیٰ ابی حذیفہ۔
مگر یہ اجازت یافتہ افراد ہمیشہ نہیں رہ سکتے تھے۔یہ اندیشہ بہر حال تھا کہ کسی وقت ایسے تمام لوگ ختم ہو جائیں اور قرآن دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں جاکر اختلاف کا شکار ہو جائے۔جنگ یمامہ (12ھ)کے بارے میں خبر آئی کہ کثرت سے مسلمان قتل ہوگئے ہیں۔حضرت عمر،خلیفہ اول ابو بکر صدیق کے پاس آئے اور کہا کہ اب قرآن کی حفاظت کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ اس کوتحریری طور پر با ضابطہ مدون کر دیا جائے۔اس موقع پر روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں:
فَلَمَّا قُتِلَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ خَشِيَ عُمَرُ أَنْ يَذْهَبَ الْقُرْآنُ، فَجَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ…(المشيخۃ البغداديۃ للاموی:23)۔ جب سالم،مولیٰ ابوحذیفہ قتل ہوئے تو عمر کو خطرہ پیدا ہوا کہ قرآن ضائع نہ ہو جائے، وہ ابوبکر کے پاس آئے۔
یمامہ کی جنگ میں تقریباً 700 صحابہ قتل ہوئے تھے۔مگر حضرت عمر کو " ذِھاب قرآن" ( قرآن کےضائع ہونے) کا خطرہ حضرت سالم کی موت کی وجہ سے ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان چند مخصوص صحابہ میں سے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کی اجازت دی تھی۔
جیسا کہ ثابت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے اترتے ہی اس کو فوراً لکھوا دیا کرتے تھے۔کتابت کا اہتمام اتنا زیادہ تھا کہ سورہ النساء ،آیت 95 اتر چکی تھی، بعد کو غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ(جن کو کوئی عذر نہیں)اس میں بطور اضافہ اترا۔امام مالک کے الفاظ میں یہ "حرف واحد" (تاریخ دمشق لابن عساکر، جلد36، صفحہ312) بھی آپ نے اسی وقت کاتب کو بلا کر لکھوایا:
لما نزلت {لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ من الْمُؤمنِينَ} قَالَ النَّبِي صلى الله عليه وسلم: ادْع زيدا فجَاء وَمَعَهُ الدواة واللوح والكتف فَقَالَ: اكْتُبْ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ من الْمُؤمنِينَ غير أولي الضَّرَر وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيل الله …(صحیح البخاری ،حدیث نمبر 4990)۔ جب آیت لایستوی القاعدون الخ اتری تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زید کو بلاؤ اور وہ تختی اور قلم اور کتف اور دوات لے کر آئیں ۔جب وہ آگئے تو کہا کہ لکھو لایستوی(برابر نہیں ہوسکتے بیٹھے رہنے والے اہل ایمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ اہل ایمان جو اللہ کی راہ میں لڑنے والے ہیں)…
آپ کا معمول تھا کہ نازل شدہ آیات کو لکھانے کے بعد اس کو پڑھوا کر سنتے تھے۔زید بن ثابت کا بیان ہے: فَإِنْ كَانَ فِيهِ سَقْطٌ أقَامَهُ،ثُمَّ أَخْرُجُ بِهِ إِلَى النَّاسِ (المعجم الاوسط للطبرانی ،حدیث نمبر 1913)۔ اگر کوئی جزء لکھنے سے چھوٹ جاتا تو اس کو درست کراتے ۔جب یہ سارا کام پورا ہو جاتا تب اشاعت عام کا حکم دیا جاتا۔
کاتبان وحی (وہ صحابہ جن سے آپ قرآن کو لکھواتے تھے) ان کی تعداد 42 تک شمار کی گئی ہے۔(ان 42 کاتبوں کے نام کے لیے ملا حظہ جو الکتانی کی کتاب التراتیب الاداریہ،جلد1،صفحہ 16۔مطبوعہ مراکش) ۔ابن عبد البر نے عقد الفرید (جلد 4،صفحہ 114)میں لکھا ہے کہ حنظلہ ابن ربیع تمام کاتبوں کے "خلیفہ" تھے۔یعنی ان کو حکم تھا کہ وہ ہر وقت آپ کی صحبت میں موجود رہیں۔آپ کے اس اہتمام کا نتیجہ یہ تھا کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو کثرت سے لوگوں کے پاس قرآن کے اجزاء لکھے ہوئے موجود تھے۔ ایک تعداد ان لوگوں کی تھی جن کے پاس مکمل قرآن اپنی اصل ترتیب کے ساتھ جمع شدہ موجود تھا،ان میں سے چار خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:
مَاتَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَلَمْ يَجْمَعِ الْقُرْآنَ غَيْرُ أَرْبَعَةٍ: أَبُو الدَّرْدَاءِ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 4718)۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو چار آدمیوں کے پاس مکمل قرآن تحریری طور پر موجود تھا: ابوالدرداء،معاذ بن جبل،زید بن ثابت اور ابو زید۔
قرآن مکمل طور پر لکھا ہوا عہدنبوت میں موجود تھا۔البتہ کتابی شکل میں ایک جگہ مجلد نہیں ہوا تھا۔قسطلانی شارح بخاری کے حوالہ سے الکتانی نے نقل کیا ہے:
وقد كان القرآن كله مكتوبًا في عهده صلى الله عليه وسلم لكنه غير مجموع في موضع واحد (التراتیب الاداریہ للکتانی، جلد2، صفحہ 384)۔ قرآن کل کا کل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی لکھا جا چکا تھا۔البتہ ایک جگہ تمام سورتوں کو جمع نہیں کیا گیا تھا۔
حارث محاسبی نے،جو امام حنبل کے معاصرہیں۔اپنی کتاب فہم السنن میں لکھا ہے:
و کان الْقُرْآنُ مُنْتَشِرًا فَجَمَعَهَا جَامِعٌ وَرَبَطَهَا بِخَيْطٍ(الإتقان في علوم القرآن،جلد1،صفحہ207)۔ قرآن کی سورتیں اس میں الگ الگ لکھی ہوئی تھیں۔ابو بکر کے حکم سے جامع(زید بن ثابث) نے ایک جگہ سب سورتوں کو جمع کیا اور ایک دھاگہ سے سب کی شیرازہ بندی کی۔
قرآن کی کتابت تین مراحل سے گزری ہے―کتابت، تالیف، جمع۔
پہلے مرحلہ میں کوئی آیت یا سورہ اترتے ہی اس کو کسی ٹکڑے پر لکھ لیا جاتاتھا، اس سلسلے میں حسب ذیل چیزوں کے نام آئے ہیں:
رقاع: چمڑا
لخاف: پتھر کی سفید پتلی تختیاں(سلیٹ)
کتف: اونٹ کے مونڈھے کی گول ہڈی
عسیب: کھجور کی شاخ کی جڑ کا کشادہ حصہ
دوسرے مرحلے کے عمل کو حدیث میں تالیف سے تعبیر کیا گیا ہےحضرت زید بن ثابت کہتے ہیں: كنَّا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم نُؤلِّفُ القرآن من الرِّقَاع (مسند احمد،حدیث نمبر 21607)۔ہم لوگ رقاع پر قرآن تالیف کرتے تھے۔گویا اوّلاًہر آیت نازل ہوتے ہی لکھ لی جاتی تھی۔پھر جب سورہ مکمل ہو جاتی تو پوری سورہ کو مرتب شکل میں رقاع (چمڑے) پر لکھتے تھے۔اس قسم کے مولّفہ قرآن (مکمل یا غیر مکمل)دورِ نبوت ہی میں کثرت سے لوگوں کے پاس ہو چکے تھے۔حضرت عمر اسلام لانے کے مشہور واقعہ میں ہے کہ بہن کو زد و کوب کرنے کے بعد آپ نے کہا وہ کتاب مجھے دکھاؤ جوابھی تم پڑھ رہے تھے(أَعْطِينِي هَذِهِ الصَّحِيفَةَ الَّتِي سَمِعْتُكُمْ تَقْرَءُونَ آنِفًا)۔بہن نے جواب دیا ناپاکی کے ساتھ تم اس کو چھو نہیں سکتے۔پھر آپ نے غسل کیا اور ان کی بہن نے کتاب انھیں دی:فَاغْتَسَلَ، فَأَعْطَتْهُ الصحيفةَ (سیرت ابن ہشام،جلد1،صفحہ296)۔
تیسرے مرحلہ کے کام کو " جمع" سے تعبیر کیا گیا ہے۔یعنی پورے قرآن کو ایک جلد میں یکجائی طورپر لکھنا ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مختلف رسالوں اور کتابوں کی شکل میں ہوتا تھا۔یہ تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز کے اوراق پر لکھواکر ایک ہی جلد میں مجلد کرنے کا طریقہ آپ کے عہد میں رائج نہ تھا۔بخاری کی ایک روایت کے مطابق صرف چار صحابہ،ابی بن کعب ،معاذ بن جبل،ابو زید ،زید بن ثابت تھے، جنھوں نے پورے قرآن کو آپ کے عہد میں مجموعی شکل میں تیار کر لیا تھا (صحیح البخاری ، حدیث نمبر 3810) ۔تا ہم ان کی حیثیت نجی مجموعوں کی تھی۔محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے ابن سعد نے جو روایت نقل کی ہے،اس کے مطابق ایسے جامعین قرآن کی تعداد پانچ تھی:جَمَعَ الْقُرْآنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم خَمْسَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ (طبقات ابن سعد،جلد2،صفحہ307)۔
حضرت ابو بکر صدیق نے جو کام کیا وہ یہی تھا کہ انھوں نے ریاستی انتظام کے تحت تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کرمجلد کرا دیا۔امام مالک شہاب زہری سے اور شہاب زہری عبد اللہ بن عمر کے صاحبزادہ سالم کے حوالے سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ زید بن ثابت نے القراطیس پر ابو بکر کے حکم سے قرآن کی کل سورتوں کو لکھا تھا (المصاحف لابن ابی داود،صفحہ57)۔بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ایک ہی تقطیع کےاوراق جب بنائے جاتے تھے تو ان کو قراطیس کہتے تھے۔ ایک سائز کے اوراق پر لکھے ہونے کی وجہ سے ابو بکر الصدیق کی حکومت کے مرتب کر دہ اس نسخہ کو رَبَعہ کہتے تھے(الاتقان ،جلد1،صفحہ 85-84)۔ ربعہ کا ترجمہ چوکھنٹا کیا جا سکتا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اوراق کا طول و عرض غالباً متساوی تھا۔کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے زمانےمیں مصر،عراق،شام اور یمن وغیرہ میں قرآن کے ایک لاکھ سے زیادہ نسخے موجود تھے۔
بعد کے زمانے میں لکھاہوا قرآن ہی لوگوں کے لیے قرآن کو سیکھنے کا ذریعہ بن سکتا تھا،تا ہم ایک خطرہ اب بھی تھا۔مقدس کتاب میں انتہائی معمولی فرق بھی زبردست اختلاف کا سبب بن جاتا ہے۔اس لیے یہ اندیشہ تھا کہ مختلف لوگ اگر اپنے اپنے طور پر قرآن لکھیں تو کتابت اور قراٴت کا فرق مسلمانوں کے اندر زبردست اختلاف کھڑا کر دے گا اور اس کو ختم کرنے کی کوئی سبیل باقی نہ رہے گی۔مثلاً سورۃ فاتحہ میں ایک ہی لفظ کو محض ادائیگی کے فرق سے کوئی مالک یوم الدین لکھتا،کوئی مَلِکِ یَومِ الدین اور کوئی ملیک یوم الدین ۔پھر جیسے جیسے زمانہ گزرتا، طرز تحریر اور رسم الخط کا فرق نئے نئے اختلاف پیدا کرتا چلا جاتا۔اس لیے حضرت عمر کے مشورےسے خلیفہ اول حضرت ابو بکر نے طے کیا کہ سرکاری اہتمام میں قرآن کا ایک مستند نسخہ لکھوا دیا جائے اور اختلاف قراٴت کے امکان کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔
اس کے لیے زید بن ثابت سب سے زیادہ موزوں شخص تھے،کیونکہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب (سیکریٹری)تھے۔زید اور ابی بن کعب دونوں "عرضہٴ اخیرہ" میں شامل تھے اور نبی صلی اللّہ علیہ وسلم سے براہ راست پورے قرآن کو نبوی ترتیب کے ساتھ سنا تھا۔ان کو پورا قرآن مکمل طور پر یاد تھا اور اس کے ساتھ پوراقرآن مرتب طور پر لکھاہوا بھی ان کے پاس موجود تھا۔خلیفہ اول نے ان کو حکم دیا کہ تم قرآن کا تتبع کرو اور اس کو جمع کر دو:فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ (صحیح البخاری ،حدیث نمبر 4679)۔ اس بات کے طے ہونے کے بعد حضرت عمر نے مسجد میں اعلان کر دیا کہ جس کے پاس قرآن کا کوئی ٹکڑا موجود ہو،وہ لے آئے اور زید کے سامنے پیش کرے۔
خلیفہ اول کے زمانہ میں قرآن " کاغذ" یعنی چمڑے ،پتھر اور کھجور کی چھال وغیرہ پر لکھا ہوا تو موجود تھا ،اور بہت سے لوگوں کے سینوں میں ،رسول اللہ سے سن کر،مرتب طور پر بھی محفوظ تھا۔مگر وہ ایک کتاب کی طرح بین الدفتین اب تک جمع نہیں ہوا تھا۔خلیفہ اول نے حکم دیا کہ اس کو بین الدفتین جمع کردو اور اس کو ایک مجلد کتاب کی صورت میں یکجا کر دو:
وَقَالَ الْحَارِثُ الْمُحَاسَبِيُّ فِي كِتَابِ فَهْمِ السُّنَنِ: كِتَابَةُ الْقُرْآنِ لَيْسَتْ بِمُحْدَثَةٍ فَإِنَّهُ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَأْمُرُ بِكِتَابَتِهِ وَلَكِنَّهُ كَانَ مُفَرَّقًا فِي الرِّقَاعِ وَالْأَكْتَافِ وَالْعُسُبِ فَإِنَّمَا أَمَرَ الصَّدِيقِ بِنَسْخِهَا مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ مُجْتَمِعًا وَكَانَ ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ أَوْرَاقٍ وُجِدَتْ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيهَا القرآن مُنْتَشِرٌ فَجَمَعَهَا جَامِعٌ وَرَبَطَهَا بِخَيْطٍ حَتَّى لَا يَضِيعَ مِنْهَا شَيْءٌ (الاتقان فی علوم القرآن،جلد1 ، صفحہ40)۔ حارث محاسبی فہم السنن میں لکھتے ہیں کہ قرآن کی کتابت کوئی نئی بات نہ تھی،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لکھوایا کرتے تھے۔مگر وہ رقاع اور اکتاف اور عسیب میں متفرق طور پر لکھا ہوا تھا۔ابو بکر صدیق نے اس کو مرتب طور پر یکجا لکھنے کا حکم دیا ۔اور یہ بمنزلہ ان اوراق کے تھا جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پائے گئے تھے۔ ان میں قرآن منتشر طور پر لکھا ہوا تھا۔اسی کو جمع کرنے والے جمع کر دیا اور ایک دھاگے میں اس طرح پرو دیا کہ اس کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو۔
عہد صدیقی میں جمع قرآن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے پہلے قرآن"جمع" نہ تھااور آپ کے زمانہ خلافت میں اس کو جمع کیا گیا۔قرآن اس سے پہلے بھی مکمل طور پر جمع تھا۔" عرضہٴ اخیرہ" میں متعدد صحابہ کو شامل کر کے آپ نے اس کی تصدیق و توثیق بھی فرمادی تھی۔جمع قرآن کا یہ اہتمام صرف اس لیے ہوا کہ معمولی امکانی فروق کو بھی باقی نہ رہنے دیا جائے جو حافظہ یا کتابت میں فرق کی وجہ سے ہو سکتے تھے۔مثال کے طو ر پر حضرت عمر نے زید بن ثابت کو یہ آیت سنائی:
مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ (1009:)
زید نے کہا مجھے تو یہ آیت جس طرح یاد ہے، اس میں الانصار اور الذین کے درمیان ایک "واو" بھی ہے۔چنانچہ تحقیق شروع ہوئی بالآخر مختلف لوگوں کی گواہیوں سے ثابت ہوا کہ زید کی رائے صحیح تھی۔ چنانچہ مصحف میں آیت کو "واو"کے ساتھ لکھا گیا (فضائل القرآن للقاسم بن سلام،صفحہ310)۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرِينَ وَالْأَنْصارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ (1009:)۔اور مہاجرین و انصار میں جو لوگ سابق اور مقدم ہیں اور جنھوں نے خوبی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔
مولانا بحرالعلوم شرح سلم میں لکھتے ہیں " قرآن کی یہ ترتیب جس پر وہ آج ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس لیے کہ ان دس قاریوں نے جن کی قراٴت اسلامی دنیا میں بالاتفاق مقبول ہے، صحیح سندوں سے جس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، قرآن کو اسی ترتیب سے نقل کیا "۔
زید بن ثابت نے جب پورا قرآن مرتب کر لیا تو ان کے مصحف کے علاوہ جتنے مختلف اجزاء اکٹھا ہوئے تھے،ان سب کو جلا کر ختم کر دیا گیا۔یہ مجلد مصحف خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے پاس رکھ دیا گیا۔آپ کی وفات کے بعد وہ خلیفہ ثانی حضرت عمر کے پاس رہا۔پھر آپ کی وفات کے بعد وہ حفصہ بنت عمرؓ کے پاس محفوظ رہا۔
حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ آیا تو اسلام بہت پھیل چکا تھا اور مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی۔اس وقت مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے لیے قرآن سیکھنے کا ذریعہ وہ صحابہ تھے جو مدینہ سے نکل کر ممالک اسلامیہ میں ہر طرف پھیل گئے تھے۔مثلاً اہل شام ابی بن کعب سے قرآن سیکھتے تھے۔اہلِ کوفہ عبد اللہ بن مسعودسے اہل عراق ابو موسیٰ اشعری سے۔ تا ہم اختلاف لہجہ اور اختلاف کتابت کی وجہ سے دو بارہ لوگوں میں قرآن کے بارے میں اختلافات ہونے لگے حتیٰ کہ ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے: حتى كَفَّرَ بعضهم بعضًا ) فتح الباری لابن حجرالعسقلانی،جلد9،صفحہ18)۔ابن ابی داؤد نے کتاب المصاحف میں یزید بن معاویہ نخعی سے نقل کیا ہے کہ ولید بن عقبہ کے زمانہ میں ایک بار وہ کوفہ کی مسجد میں تھے۔ حذیفہ بن الیمان بھی اس وقت مسجد میں موجود تھے۔مسجد میں ایک حلقہ قرآن کے ذکر میں مشغول تھا۔ایک شخص نے کوئی آیت پڑھی اور کہا قراٴۃ ابی موسیٰ الاشعری۔حضرت حذیفہ یہ سن کر غضب ناک ہو گئے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر کی اور فرمایا:
هَكَذَا كَانَ مَنْ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا، وَاللَّهِ لَأَرْكَبَنَّ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ(فتح الباری لابن حجر، جلد9،صفحہ18)۔تم سے پہلے جو لوگ تھے،انھوں نے اسی طرح اختلاف کیا،خدا کی قسم میں سوار ہو کر امیر المومنین (عثمان) کے پاس جاؤں گا۔
عمارہ بن غزیہ کی روایت کے مطابق حذیفہ بن الیمان واپس آئے۔وہ ایک فوجی افسر تھے اور اس وقت آرمینیہ میں اہل شام سے اور آذر بائیجان میں اہل عراق سے جنگ کر کے لوٹے تھے۔وہ مدینہ پہنچے تو اپنے مکان جانے کےبجائے سیدھے خلیفہ ثالث کے پاس آئے اور کہا:
يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ، اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى (صحیح البخاری ،حدیث نمبر 4702)۔ اےامیر المومنین لوگوں کو سنبھالیے،قبل اس کے کہ لوگ کتاب اللہ کے بارے میں اختلاف میں پڑ جائیں جس طرح یہود و نصاری اختلاف میں پڑ گئے۔
حضرت عثمان کے زمانے میں ایسی آبادیاں اسلام میں داخل ہو گئیں جن کی مادری زبان عربی نہ تھی۔عربی الفاظ وحروف کے صحیح تلفظ کی قدرت ظاہر ہے ان میں نہیں ہو سکتی تھی۔خود عرب کے مختلف قبائل کے لہجے الگ الگ تھے۔اس سے قراٴت قرآن میں اختلاف پیدا ہوا۔نتیجتاً نقل و تحریر میں بھی اختلاف شروع ہو گیا ۔ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ قبیلہ بنی ہذیل "حتیٰ" کو"عتیٰ" پڑھتا تھا۔ابن مسعود اسی قبیلےسے تعلق رکھنے کی وجہ سے" حتیٰ حین" کو "عتیٰ عین" پڑھتے تھے۔قبیلہ بنو اسد "تَعلَمون" کی "ت "کو زیر کے ساتھ (تِعلَمُون) پڑھتا تھا۔مدینہ کے لوگ "تابوت" کا تلفظ "تابوہ" کرتے تھے۔ قبیلہ قیس "ک" تانیث کا تلفظ "ش" سے کرتے تھے اور قرآنی آیت "قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا" کو"جعلَ رَبُّشِ تحتشِ سريًّا" پڑھتے ۔ اسی طرح قبیلہ تمیم" اَن" کے لفظ کو "عن" کی شکل میں ادا کرتے تھے اور "عَسَى اللَّهُ عن يأتي "پڑھتے تھے۔ایک قبیلہ "س" کو "ت" کی شکل میں ادا کرتا تھا اور" أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاتِ. مَلِكِ النَّاتِ. إِلهِ النَّاتِ" پڑھتا تھا،وغیرہ۔
ان حالات میں حذیفہ بن یمان صحابی کے مشورہ سے حضرت عثمان نے صدیقی نسخہ کی نقلیں تیار کرائیں اور تما م شہروں میں اس کا ایک ایک نسخہ بھیج دیا۔یہ کام دوبارہ حضرت زید بن ثابت انصاری کی سر کردگی میں کرایا گیا اور ان کی مدد کے لیے گیارہ افراد مقرر کیے گئے۔خلیفہ سوم کے حکم کے مطابق اس کمیٹی نے قرآن کو قریش کے لہجہ پر تحریر کیا جو کہ پیغمبر اسلام کا لہجہ تھا۔اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ دوسرے نسخے جو لوگوں نے بطور خود لکھے ہیں وہ ان کو حکومت کے حوالے کر دیں۔چنانچہ ان کو جمع کر کے نذر آتش کردیا گیا۔
اس طرح قرآن کو لکھاوٹ یعنی نوشت وکتابت کی حد تک ایک بنا دیا گیا۔تاہم فطری اختلاف کی وجہ سے سارے لوگ ایک طرح قرآن کو پڑھنے پر قادر نہ ہو سکتے تھے۔اس لیے لوگوں کو آزادی دے دی گئی کہ،سات طریقوں یعنی متعدد لب ولہجہ میں پڑھ سکتے ہیں۔صدیق اکبر کا جمع قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ایک سال بعد انجام پایا تھا، عثمانی مصحف کی ترتیب آپ کی وفات کے پندرہ سال بعدہوئی۔
تیسری صدی کے مشہور صوفی اور عالم حارث محاسبی کا قول اتقان میں سیوطی نے نقل کیا ہے:
وَقَالَ الْحَارِثُ الْمُحَاسَبِيُّ: الْمَشْهُورُ عِنْدَ النَّاسِ أَنَّ جَامِعَ الْقُرْآنِ عُثْمَانَ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِنَّمَا حَمَلَ عُثْمَانُ النَّاسَ عَلَى الْقِرَاءَةِ بِوَجْهٍ وَاحِدٍ( الإتقان فی علوم القرآن،جلد1،صفحہ211)۔لوگوں میں مشہور ہے کہ حضرت عثمان جامع قرآن ہیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں۔انھوں نے صرف یہ کیا کہ لوگوں کو قرآن کی ایک قراٴت پر جمع کر دیا ۔
بعض لوگوں نے تفنّنِ طبع یا عناد کے طور پر اس قسم کی باتیں مشہور کیں کہ حضرت عثمان نے قرآن میں تحریفات کر ڈالیں۔مثلاً قرآنی آیت وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ (37:24)کے آخر میں عن ولایۃ علی کے الفاظ تھے،جنھیں عہدعثمانی میں بالقصد قرآن سے خارج کر دیا گیا۔حتٰی کی کچھ لوگوں نے مضحکہ خیز بات مشہور کی کہ "ولایت" کے نام سے ایک مستقل سورہ قرآن میں تھی، جس میں اہل بیت کے اسماء اور ان کے حقوق وغیرہ کا تفصیلی ذکر تھا۔اس کو قرآن سے نکال دیا گیا،اس قسم کی باتیں قطعاًبے بنیاد ہیں۔ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ (75:17)شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک بالاتفاق قرآن کی آیت ہے۔ پھر قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہوئے کیسے کوئی شخص اس قسم کی بے بنیاد باتوں کو مان سکتا ہے۔مشہور شیعی عالم علامہ طبرسی نے لکھا ہے:
فَأَمَّا الزِّيَادَةُ فِيهِ فَمُجْمَعٌ عَلَى بُطْلَانِهِ، وَأَمَّا النُّقْصَانُ مِنْهُ فَقَدْ رَوَى جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا وَقَوْمٌ مِنْ حَشْوِيَّةِ الْعَامَّةِ أَنَّ فِي الْقُرْآنِ تَغْيِيرًا وَنُقْصَانًا، وَالصَّحِيحُ مِنْ مَذْهَبِ أَصْحَابِنَا خِلَافُهُ (تفسير الطبرسی،جلد1،صفحہ 42-43)۔ قرآن میں اضافہ (شیعہ و سنی دونوں کے) اجماع سے غلط ہے۔باقی کمی تو بعض شیعوں سے اور عامہ کے حشویہ (یعنی اہل سنت کے محدثین) سے اس کا دعویٰ منقول ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ بھی غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی محققین نے اس قسم کے دعوے نہیں کیے۔یہ موقع پرستوں کے شوشے تھے جو انھوں نے سیاسی مقصد کے لیے وضع کیے۔اہل بیت کی فضیلت کی ساری موضوعات اس لیے گھڑی گئیں تا کہ ان کے لیے خلافت کا استحقاق ثابت ہو جائے۔مثلاً ایک غیر معروف شخص محمد بن جہم الہلالی تھے۔انھوں نے امام جعفر صادق کی طرف منسوب کر کے یہ مشہور کیا کہ قرآنی آیت اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ (16:92)میں تحریف کی گئی ہے۔ اصل الفاظ تھے: أَئِمَّةٌ هِيَ أَزْكَى مِنْ أَئِمَّتِكُمْ (الكافی للكلينی، جلد1، صفحہ292)۔ یعنی ہمارے بنی ہاشم کے ائمہ و حکمران بنی امیہ کے حکمرانوں سے بہتر ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا حضرت عثمان نے 25ھ میں حفصہ بنت عمر کے پاس سےمصحف صدیقی منگوایا۔اس وقت قرآن کے کاتب اول زید بن ثابت انصاری موجود تھے۔ ان کی رہنمائی میں آپ نے بارہ آدمیوں کی جماعت مقرر کی۔انھوں نے صدیقی نسخہ کی بنیاد پر قرآن کی سات نقلیں تیار کیں۔پھر یہ نسخے تمام اسلامی ملکوں میں بھیج دیے گئے۔حضرت عثمان نے حکم دیا کہ اس کے سوا جتنے مصاحف لوگوں نے بطور خود لکھ لیے ہیں وہ سب جلا دیے جائیں(المصاحف لابن ابی داود،صفحہ 91)۔ایک نسخہ انھوں نے دارالسلطنت مدینہ میں رکھا اور اس کا نام "الامام" رکھا اور بقیہ ہر گوشہٴ مملکت میں بھیج دیا (المصاحف لابن ابی داود،صفحہ 90)۔مکہ ،شام، یمن، بحرین، بصرہ ،کوفہ میں سے ہر جگہ ایک ایک نسخہ بھیجا۔
یہ مصحف بعد کی صدیوں میں انتہائی صحت کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ دورِ پریس میں پہنچ گیا جس کے بعد کسی ضیاع یا تغیر کا کوئی سوال نہیں۔اس ابتدائی نسخہ کے ساتھ بعد کے نسخوں کی مطابقت کا کتنا زیادہ اہتمام کی گیا ہے،اس کی دو چھوٹی سی مثال لیجئے۔سورہ الموٴمنون (سورہ نمبر 23)کی آیت 108 میں قال (الف کےساتھ) لکھا ہو اہے، یہی لفظ اسی سورہ کی اگلی آیت 112میں قٰل (بغیر الف ) لکھا گیا ہے۔گویا ابتدائی مصحف میں جو لفظ جس شکل میں لکھا ہوا تھا ٹھیک اسی طرح اس کو لکھا جاتا رہا۔ خواہ ایک ہی لفظ ،دو جگہ دو املاء کے ساتھ کیوں نہ ہو۔اسی طرح سورہ قیامہ کی آیت "وقیل من" کے بعد قاری تھوڑی دیر وقفہ کے لیے ٹھہرتا ہے۔پھر "راق" پڑھتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہلکا وقف کیا تھا۔قرآن میں اس طرح کے دوسرے متعددمقامات ہیں،مگر کبھی قرآن پڑھنے والوں کو یہ خیال نہیں ہوا کہ بطور خود دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح وقفہ دے کر پڑھنا شروع کر دیں۔
آج جو قرآن مسلمانوں کے درمیان رائج ہے، اس کی صحت میں کسی فرقہ کا کوئی اختلاف نہیں۔حتٰی کہ محقق شیعہ علماء بھی اس معاملہ میں متفق ہیں۔مشہور شیعہ عالم ابو عبد اللہ الزنجانی (وفات 1941) نے اپنی کتاب تاریخ القرآن میں نقل کیا ہے کہ علی بن موسیٰ المعروف بابن طاؤس (664-589ھ) جو محقق شیعہ علمامیں سے ہیں۔انھوں نے اپنی کتاب سعد السعود میں شہرستانی سے نقل کیا ہے، جو انھوں نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں سوید بن علقمہ سے روایت کیا ہے:
عَنْ سُوَيْدِ بْنِ عَلْقَمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَقُولُ: "أَيُّهَا النَّاسُ! اللهَ اللهَ! إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي أَمْرِ عُثْمَانَ وَقَوْلَكُمْ: حَرَّاقُ الْمَصَاحِفِ، فَوَاللهِ مَا حَرَّقَهَا إِلَّا عَنْ مَلَإٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. جَمَعَنَا وَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الْقِرَاءَةِ الَّتِي اخْتَلَفَ النَّاسُ فِيهَا، يُلْقَى الرَّجُلُ فَيَقُولُ قِرَاءَتِي خَيْرٌ مِنْ قِرَاءَتِكَ، وَهَذَا يَجُرُّ إِلَى الْكُفْرِ؟ فَقُلْنَا: مَا الرَّأْيُ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَنْ أَجْمَعَ النَّاسَ عَلَى مُصْحَفٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّكُمْ إِنِ اخْتَلَفْتُمْ الْيَوْمَ كَانَ مَنْ بَعْدَكُمْ أَشَدَّ اخْتِلَافًا. فَقُلْنَا: نِعْمَ مَا رَأَيْتَ. (تاریخ القرآن لابی عبد اللہ الزنجانی ،موسسہ ہنداوی، 2016،صفحہ74)۔ وہ کہتے ہیں،میں نے حضرت علی بن ابی طالب کو یہ کہتے ہوئے سنا ۔اے لوگو، اللہ اللہ ،عثمان کے معاملہ میں غلو سے بچو۔یہ نہ کہو کہ انھوں نے مصاحف کو جلایا۔خدا کی قسم انھوں نے نہیں جلایا مگر اس وقت کہ انھوں نے صحابہ کی جماعت کو اکٹھاکیا اور پوچھا کہ تم قرآن میں اختلاف قراٴت کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ایک شخص دوسرے سے ملتا ہے اور کہتا ہے۔ میری قراٴت تمھاری قراٴت سے بہتر ہے۔اس قسم کی بات کفر تک جاتی ہے۔صحابہ نے کہا آپ کی کیا رائےہے۔انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردوں۔کیوں کہ تم اگر آج اختلاف میں پڑ گئے تو تمھارے بعد لوگ اور زیادہ اختلاف میں پڑیں گے۔تمام صحابہ نے کہا ہاں آپ کی رائے سے ہم کو اتفاق ہے۔
قرآن کا یہ ایسا وصف ہے جس کا معاندین تک نےاعتراف کیا ہے۔سر ولیم میور لکھتے ہیں:
"محمدکی وفات کے ربع صدی بعد ہی ایسے مناقشات اور فرقہ بندیاں ہو گئیں جس کے نتیجےمیں عثمان قتل کر دیے گئے،اور یہ اختلافات آج بھی باقی ہیں۔مگر ان سب فرقوں کا قرآن ایک ہی ہے (ONE Kor'an has been current amongst them)۔ہر زمانے میں یکساں طور پر سب فرقوں کا ایک ہی قرآن پڑھنا ،اس بات کا نا قابل تردید ثبوت ہے کہ آج ہمارے سامنے وہی مصحف ہے جو اس بد قسمت خلیفہ (عثمان) کے حکم سے تیار کیا گیا تھا، شاید پوری دنیا میں کوئی دوسری ایسی کتاب نہیں ہے جس کی عبارت بارہ صدیوں تک اس طرح بغیر تبدیلی کے باقی ہو:
There is probably in the world no other work which has remained twelve centuries with so pure a text. (The Life of Mohammad from Original Sources, Sir William Muir, Edinburgh, 1923, pp. xxii-xxiii)
لین پول نے اس حقیقت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے:
"قرآن کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی اصلیت میں کوئی شبہ نہیں۔ہر حرف جو ہم آج پڑھتے ہیں۔اس پر یہ اعتماد کر سکتے ہیں کہ تقریباً تیرہ صدیوں سے غیر مبدل رہا ہے" (سلکشن فرام دی قرآن،دیباچہ)
جرمن محقق وان ہیم غیر مسلم مستشرقین کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: