کائنات ایک راز ہے اور جو کتاب اس راز کو کھولتی ہے، وہ قرآن ہے۔یہ حقیقت ہے کہ کتابِ الہٰی کے بغیر کوئی شخص حیات و کائنات کے معّمے کو حل نہیں کر سکتا۔میں نے حال میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ مارکسزم کا مطالعہ کیا ہے۔مجھے محسوس ہوا کہ مارکس غیرمعمولی دل و دماغ کا آدمی تھا ایسا کہ اس جیسی صلاحیت کے بہت کم انسان تاریخ میں پیدا ہوئے ہیں۔مگر اس نے ایسی احمقانہ باتیں کہیں ہیں کہ تاریخ میں اس کے جیسی احمقانہ باتیں بہت کم لوگوں نے کی ہوں گی۔اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے قرآن کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔اس کو علم کا وہ سرا نہیں ملا تھا جس کے بغیر زندگی کے معاملات میں کوئی صحیح اور قطعی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
ایک دوا جو کسی کارخانے سے بن کر نکلتی ہے۔اس کے ساتھ اس کی ترکیبِ استعمال کا پُرزہ بھی رکھ دیا جاتا ہے ، جس میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ دوا کس مرض کے لیے ہے، کن اجزاء سے مل کر بنی ہے اور کس طرح اسے استعمال کرنا چاہیے۔مگر آدمی اس حال میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں لا کر ڈال دیا گیا ہے۔وہ اپنے ساتھ کوئی صحیفہ لے کرنہیں آتا اور نہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا کوئی بورڈ لگا ہو اہے جہاں ان سوالات کا جواب لکھ کر رکھ دیا گیا ہو۔اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اصل حقیقت سے بے خبر ہو کر اپنے اور زمین و آسمان کے بارے میں عجیب عجیب رائے قائم کرنے لگتا ہے،وہ اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو وہ اسے ذہنی اور جسمانی قوتوں کا ایک حیرت انگیز مجموعہ نظر آتا ہے،جس کے بنانے میں اس کے اپنے ارادہ عمل کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔پھر اپنے وجود سے باہر کی دنیا پر نظر کرتا ہے تو اسے ایک نہایت وسیع پھیلی ہوئی کائنات ملتی ہے۔جس کا وہ احاطہ نہیں کر سکتا ۔ جس کو وہ پار نہیں کرسکتا۔جس کے اندر چھپے ہوئے خزانوں کو وہ شمار نہیں کر سکتا۔یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ دنیا کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جا کر ختم ہوگی؟ اس تمام ہست و بود کا مقصد کیا ہے؟ وہ اپنے آپ کو ان چیزوں کے بارے میں بالکل ناواقف پاتا ہے۔انسان کو آنکھ دی گئی ہے لیکن وہ آنکھ ایسی ہے جو کسی چیز کے صرف ظاہر کو دیکھ سکتی ہے۔اس کے پاس عقل ہے مگر عقل کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اسے خود اپنی خبر نہیں ۔آج تک انسان یہ معلوم نہ کر سکا کہ ذہن ِانسانی میں خیالات کیوں کر پیدا ہوتے ہیں اور وہ کس طرح سوچتاہے۔ ایسی حقیر صلاحیتوں کے ساتھ وہ نہ تو اپنے بارے میں کسی صحیح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ کائنات کو سمجھ سکتا ہے۔
اس معمّےکو خدا کی کتاب حل کرتی ہے۔اس آسمان کے نیچے آج قرآن ہی ایک ایسا صحیفہ ہے جوپورے یقین کے ساتھ تمام حقیقتوں کے بارے میں ہم کو قطعی علم بخشتا ہے۔جن لوگوں نے کتابِ الہٰی کے بغیر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے اندھوں کے پاس ایک ہاتھی کھڑا کر دیا جائے اور پھر ان سے پوچھا جائے کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے،تو جس کا ہاتھ اس کی دُم پر پڑے گا وہ کہے گا کہ ہاتھی ایسا ہوتاہے جیسے مورچھل، کوئی کان ٹٹول کر کہے گا کہ ہاتھی ایسا ہوتاہے جیسے سوپ(Soop)، کوئی پیٹھ پر ہاتھ پھیرے گا اور کہے گا کہ ہاتھی ایسا ہوتا ہے جیسے تخت ، کوئی پاؤں چھو کر کہے گا کہ ہاتھی ایسا ہوتا ہے جیسے کھمبا۔تمام بے خدا فلسفیوں اور مفکروں کا یہی حال ہے۔انہوں نے کائنات کے اندر حقیقت کو ٹٹولنے کی کوشش کی مگر علم کی روشنی سے چونکہ وہ محروم تھے۔ اس لیے ان کی تمام کوششوں کا ما حصل اس کے سوا کچھ نہ نکلا جیسے کوئی شخص اندھیرے میں بھٹک رہا ہو اور اٹکل کے ذریعے الٹے سیدھے فیصلے کرتا رہے۔
دنیا میں ایسے لوگ گزرےہیں جو ساری زندگی حقیقت کی تلاش میں رہے۔ مگر حقیقت کو نہ پا کر خود کشی کر لی، اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جن کو حقیقت تو نہ ملی۔ مگر صرف اٹکل سے انہوں نے ایک فلسفہ گھڑ لیا۔میرے نزدیک ان دو قسم کے انسانوں میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ ایک نے اپنی اٹکل کو عقل سمجھا اور اس کو مرتّب کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔اور دوسرے کو اپنی اٹکل پر اطمینان نہیں ہوا۔اور اس نے عاجز آکر اس حیرت کدہ عالم سے نکل جانے کی کوشش کی اور خود اپنا گلا گھونٹ ڈالا حقیقی علم سے یہ بھی محروم تھے اور وہ بھی۔رازِ حیات کا جو اصل رازداں ہے اس کی مدد کے بغیر کوئی شخص اس راز کو نہیں سمجھ سکتا ،یقیناً انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی گئی ہے مگر اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے آنکھ ۔یقیناً اس میں دیکھنے کی صلاحیت ہے،مگر کیا خارجی روشنی کے بغیر کوئی آنکھ دیکھ سکتی ہے؟رات کے وقت ایک اندھیرے کمرے میں آنکھ رکھتے ہوئے بھی آپ کو کچھ سجھائی نہیں دیتا مگر جب بجلی کا بلب روشن کر دیا جائے تو ہرچیز صاف نظر آنے لگتی ہے۔اسی طرح وحی الہٰی عقل کی روشنی ہے۔اس روشنی کے بغیر ہم اشیاء کی حقیقت کو نہیں پا سکتے۔
ایک صاحب سے ایک مرتبہ میری گفتگو ہوئی۔انہوں نے کہا ، یہ بات کہی جاتی ہے کہ علم اس کا نام نہیں ہے کہ آدمی بہت سی کتابیں پڑھے ہوئے ہو اور مدرسوں اور کالجوں کی ڈگری اپنے پاس رکھتا ہو ۔سب سے بڑا علم ایمان ہے۔قرآن میں بھی آیا ہے کہ خدا سے ڈرنے والے لوگ ہی حقیقت میں عالم ہیں۔مگر یہ بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئی،میں نے کہا کارل مارکس جسے معاش کا پیغمبر کہا جاتا ہے،اس کو لیجئے ،اس کو وہ علم حاصل نہیں تھا جو خدا کے فضل سے آج آپ کو حاصل ہے۔اس کے سامنے دنیا کی یہ صورتِ حال آئی کہ کچھ لوگ جاگیر دار اور کارخانہ دار بن کر دولت کے بڑے حصہ پر قابض ہو گئے ہیں اور بیشتر لوگ نہایت مفلسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔اس نے کہا کہ اس اونچ نیچ کی اصل جڑ موجودہ ملکیتی نظام ہے جس میں چیزیں استعمال کے لیے نہیں بنتیں،بلکہ اس لیے تیار کی جاتی ہیں کہ دوسرے انسانوں کے ہاتھ بیچ کر ان سے نفع کمایا جائے۔اس کی وجہ سے افراد کو موقع ملتا ہے کہ اپنی ملکیت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے دوسروں کو لوٹیں۔اس کا علاج اس نے یہ تجویز کیا کہ ملکیت کے حقوق سرے سے ختم کرکے دولت حاصل کرنے کے ذرائع کو عوام کے مشترکہ قبضے میں دے دیا جائے اور حکومت کے ذمہ یہ کام سپرد کیا جائے کہ وہ سب کے مفاد کے مطابق دولت کی پیدائش اور تقسیم کا اجتماعی انتظام کرے۔
سوال یہ ہوا کہ ایسی صورت میں تمام چیزوں پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گا۔اور جب آج کچھ لوگ سرمایہ دار بننے کے ذرائع اپنے ہاتھ میں پا کرنفع اندوزی میں مبتلا ہو گئے ہیں تو دوسرے کچھ لوگ جن کے سپرد خزانہ کیا جائے گا کیا وہ بھی ایسا ہی نہیں کریں گے،جب کہ دولت حاصل کرنے ذرائع کے ساتھ ان نئے منتظمین کو فوج اور قانون سازی کی طاقتیں بھی حاصل ہوں گی۔کارل مارکس نے جواب دیا کہ "حرص اور لوٹ اصل میں ملکیتی نظام کی پیداوار ہے۔اشتراکی سماج میں اس قسم کی چیزیں ختم ہو جائیں گی"۔میں نے صاحب موصوف سے پوچھا اب آپ بتائیے کہ کارل مارکس کا یہ خیال صحیح تھا؟ انہوں نے کہا ہرگز نہیں آخرت کی باز پرس کے سوا دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جوآدمی کو ظلم اور خود غرضی سے پاک کر سکے۔میں نے کہا پھر علم والا کون ہوا، آپ یا کارل مارکس؟جس کے خود ساختہ نظریہ کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانیت پہلے سے بھی زیادہ ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہے۔کیونکہ زار اور سرمایہ دار پہلے دو الگ الگ وجود تھے اور اب اشتراکی نظام میں جو زار ہے وہی سرمایہ دار بھی ہے۔
تقریباً یہی کیفیت ان تمام فلسفیوں کی ہے جنہوں نے خدا کے بغیر کائنات کا معمّا حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے خیالات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے لوگ کیسی بچوں سی باتیں کرتے ہیں۔گویا اندھوں کے مجمع میں ایک ہاتھی ہے جس کو کوئی مورچھل بتاتا ہے،کوئی سوپ(Soop)، کوئی تخت کہتا ہے اور کوئی کھمبا ۔اگر کتابِ الہٰی کی روشنی میں زندگی اور کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو ہر چیز بالکل صاف صاف اپنی اصل شکل میں نظر آنے لگتی ہے اور ایک معمولی آدمی کو بھی اشیاء کی حقیقت سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی وہ پہلی نظر میں اصل حقیقت تک پہنچ جاتا ہے،مگر جو اس علم سے محروم ہے اس کے لیے یہ دنیا ایک بھول بھلیاں ہے جس میں وہ بھٹک رہا ہے۔
انسانی علوم ہم کو بہت کچھ دیتے ہیں۔مگر زیادہ سے زیادہ ا ن کے ذریعہ جو کچھ معلوم ہوتا ہے،وہ صرف یہ ہے کہ "کائنات کیا ہے"۔ مگر اس کے بارے میں وہ اب تک ایک حرف نہ بتا سکے کہ "جو کچھ ہے وہ کیوں ہے" ۔چند گیسیں ،چند دھاتیں اور چند نمکیات کے ملنے سے ایک چلتا پھرتا با شعور انسان وجود میں آتا ہے، مٹی میں بیج ڈال دینے سے ہرے بھرے پھل دار درخت اور پودے نکلتے ہیں۔
محض ایٹم کی تعداد بدل جانے سے بے شمار عنا صر بن جاتے ہیں۔دو گیسوں کے ملنے سے پانی جیسی قیمتی چیز تیار ہو جاتی ہے۔پانی کے لیے سالمات کی حرکت (Molecular Motion)سے بھاپ کی طاقت پیدا ہوتی ہے جو دیو پیکر انجنوں کو حرکت دیتی ہے۔ایٹم کے حقیر برقیے جو کسی خوردبین کے ذریعہ دیکھے نہیں جا سکتے، ان کے انتشار سے وہ بے پناہ طاقت پیدا ہوتی ہے جو پہاڑوں کو توڑ ڈالتی ہے۔ "یہ سب ہوتا ہے" بس ہم ان چیزوں کے بارے میں اسی قدر جانتے ہیں۔مگر "یہ سب کیوں ہو رہا ہے"،ان کے بارے میں انسانی علوم ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتے۔
"دنیا کے تمام سمندروں کے کنارے ریت کے جتنے ذرّے ہیں۔شاید اسی قدر آسمان میں ستاروں کی تعداد ہے ، ان میں کچھ ایسے ستارے ہیں جو زمین سے کسی قدر بڑے ہیں،مگر بیشتر ستارے اس قدربڑے ہیں کہ ان کے اندر لاکھوں زمینیں رکھی جا سکتی ہیں، اور پھر بھی جگہ بچ رہے گی۔اور بعض ستارے تو اتنے بڑے ہیں کہ ان کے اندر اربوں زمینیں سما سکتی ہیں۔یہ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ روشنی کی مانند ایک انتہائی تیز اڑنے والا ہوائی جہاز جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہو، وہ کائنات کے گرد گھومے تو اس ہوائی جہاز کو کائنات کا پورا چکّر لگانے میں تقریباً ایک ارب سال لگیں گے۔پھر یہ کائنات ٹھہری ہوئی نہیں ہے،بلکہ ہر لمحہ اپنے چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ اس پھیلنے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ 130 کروڑ سال کے بعد کائنات کے تمام فاصلے دگنے ہو جاتے ہیں۔اس طرح ہمارا یہ خیالی قسم کا غیر معمولی تیز رفتار ہوائی جہاز بھی کائنات کا چکّر کبھی پورا نہیں کر سکتا۔وہ ہمیشہ اس بڑھتی ہوئی کائنات کے راستہ میں رہے گا"۔
انسانی مطالعہ ہم کو ایک حیرت انگیز کائنات کے سامنے لا کر چھوڑ دیتا ہے،وہ ہم کو نہیں بتاتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے،کون ان واقعات کو وجود میں لا رہا ہے ،اور وہ کون سا ہاتھ ہے جو خلائے بسیط میں عظیم الشان کُروں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔یہ تمام باتیں ہم کو قرآن سے ملتی ہیں۔قرآن ہم کو بتاتا ہے کہ اشیاء کیوں کر وجود میں آئی ہیں،وہ کس طرح قائم ہیں اور مستقبل میں ان کا انجام کیا ہو گا۔وہ کائنات کے خالق اور مالک کا ہم سے تعارف کراتا ہے،اور اس کی کار فرمائیوں کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔
قرآن سلطنتِ الہٰی کا لفظی مشاہدہ ہے۔ایک چھپا ہوا طاقتور ارادہ جو اس کائنات میں ہر طرف کام کر رہا ہے، قرآن کے صفحات میں وہ ہم کو بالکل محسوس طور پر نظر آتاہے،وہ ما بعد الطبیعی حقیقتیں جن کو آدمی سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہاتھوں سے چھو کر معلوم کر سکتا ہے، یہ کتاب ان کے بارے میں ہمیں قطعی خبر دیتی ہے۔اور صرف خبر نہیں دیتی بلکہ لفظوں کے ذریعے اتنے حیرت انگیز طریقہ پر ان کا مرقعہ (illustration)کھینچتی ہے کہ غیب بالکل شہود معلوم ہونے لگتا ہے۔یہ کتاب ہم کو صرف یہی نہیں بتاتی کہ "خدا ہے"۔ بلکہ وہ حیرت انگیز طور پر ایک مدّبر کائنات کا زندہ تصور سامنے لا کر رکھ دیتی ہے کہ آنے والا دن با لکل نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ مشہور ہے کہ یونان میں ایک مصوّر نے انگور کے خوشہ کی تصویر بنائی۔یہ تصویر اتنی کامیاب تھی کہ چڑیاں اس پر چونچ مارتی تھیں،یہ ایک انسان کا آرٹ تھا۔پھر قرآن تو خالقِ کائنات کا آرٹ ہے اس کے کمالِ فن کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔
قرآن مجید کا پہلا فقرہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (1:1)۔یہ فقرہ نہایت با معنیٰ ہے۔ اس کے معنی ہیں "شکر ہے اس خدا کا جو تمام دنیا والوں کا مالک و مربی ہے"۔ مالک و مربی اس کو کہتے ہیں جو اپنے ما تحتوں پر گہری نظر رکھے، اور ان کی تمام ضروریات کا سامان فراہم کرے۔انسان کی ضرورتوں میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ وہ کیا ہے، کہاں سے آیا اور کہاں جائے گا، اس کا فائدہ کس چیز میں ہے اور نقصان کس چیز میں ہے۔آدمی کو اگر کسی ایسے آسمانی کرّہ میں لے جا کر ڈال دیا جائے جہاں ہوا اور پانی کا وجود نہ ہو تو یہ اس کے لیے اتنا بڑا حادثہ نہ ہو گا جتنا بڑا حادثہ یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے آپ کو اس حال میں پائے کہ اپنے اور ماحول کے بارے میں وہ صحیح علم سے بے خبر ہے۔
اللہ اپنی مخلوق پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا باپ اپنے بیٹے کے لیے ہوتا ہے۔یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کی اس محتاجی کو دیکھتا اور اسے پورا نہ کرتا۔چنانچہ اس نے وحی کے ذریعے وہ ضروری علم بھیجاجو انسان کو اپنی معرفت حاصل کرنے کے لیے درکار تھا،اور ایک انسانی زبان جس کی متحمل ہو سکتی تھی۔یہ خالق کا اپنے بندوں پر سب سے بڑا احسان ہے، جو بندہ اپنی حیثیت کو پہچانتا ہو اور جس کو یہ احساس ہو کہ وہ حقیقت کا علم جاننے کے لیے اپنے خالق کا کس قدر محتاج ہے،اس کا دل خدا کی اس عنایت کو دیکھ کر شکر و سپاس کے جذبے سے لبریز ہو جائے گااور اس کتاب کو پا کر وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا، الحمد للہ رب العالمین۔یہ بندے کی زبان سے ادا ہونے والا کلمہ ہے جو خدا کی طرف سے القا کیا گیا ہے۔بندہ یہ جاننے کے لیے بھی کہ وہ کس طرح اپنے آقاکی بندگی کرے،آقا کی رہ نمائی کا محتاج ہے، آدمی کے اندر فطری طور پر بندگی کے جذبات امنڈتے ہیں مگر وہ نہیں جانتا کہ ان جذبات کو کس طرح ظاہر کرے۔قرآن انہیں متعین کرتا ہے اور ان کے لیے الفاظ مہیّا کرتا ہے۔قرآن کی دعائیں اس سلسلے میں بہترین عطیہ ہیں۔
قرآن معروف معنوں میں کوئی کتاب نہیں ،زیادہ صحیح معنوں میں وہ دعوت ِ اسلامی کی آخری جدو جہد کی سر گزشت ہے۔اللہ تعالیٰ قدیم ترین زمانے سے انسانوں کے لیے حقیقت کا علم اپنے خاص بندوں کے ذریعہ بھیجتا رہا ہے۔ساتویں صدی عیسوی میں اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوئی کہ روئے زمین پر بسنے والوں کے لیے آخری طور پر حقیقت کا علم دے دے۔اور اس علم کی بنیاد پر ایک باقاعدہ سو سائٹی کی تعمیر بھی کردے تا کہ وہ قیامت تک تمام نسلِ انسانی کے لیے روشنی اور نمونہ کا کام دے سکے۔
اسی مقصد کے تحت اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں مبعوث فرمایا اور آپ کے ذمہ یہ خدمت سپرد کی کہ آپ عرب میں اس پیغام حق کی اشاعت کریں اور پھر جو لوگ آپ کے اس پیغام سے متاثر ہوں ان کے ذمہ یہ کام سپرد ہوا کہ وہ تمام دنیا میں اس پیغام کو پھیلائیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم حق کو پھیلانے اور اس کی بنیاد پر ایک انسانی معاشرہ قائم کرنے کی جو تحریک عرب میں پھیلائی اس کو ہدایت دینے والا خود اللہ تعالیٰ تھا۔اس نے اپنے براہِ راست کلام کے ذریعے پیغمبر پر وحی کہ اسے کن چیزوں کی تبلیغ کرنی ہے۔اس نے وہ تمام دلائل فراہم کیے جو اس پیغام کو موثربنانے کے لیے ضروری تھے۔جب مخالفین کی طرف سے کوئی اعتراض اٹھا تو اس نے جواب دیا۔جب اس دعوت کو قبول کرنے والوں میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہوئی تو اس نے فوراً اس کی اصلاح کی۔
اس نے جنگ و صلح کے احکام دیے اور تعلیم و تربیت کے قاعدے بتائے۔اس نے شدائد کے وقت اپنے پیرؤوں کو تسلّی دی اور غلبہ کے وقت وہ قانونی احکام دیے جن کی بنیاد پر نئے معاشرہ کی تعمیر کرنی تھی۔غرض یہ تحریک جس کی ابتداء اور انتہاء کے درمیان 23 سال کا فاصلہ ہے، اس کے تمام مراحل میں اللہ تعالیٰ ایک کلّی رہنما کی حیثیت سے ہدایات و احکامات بھیجتا رہا،یہی احکامات و ہدایات بعد کو خود رہنما کے منشاء کے مطابق ایک خاص ترتیب سے جمع کر دیے گئے اور اسی مجموعہ کا نام قرآن ہے۔
وہ دعوتِ حق جو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عرب میں اٹھی اور جس کی رہنمائی خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ،قرآن اس کا معتبر ترین ریکارڈ ہے۔یہ ان خدائی ہدایات کا مجموعہ ہے جو اس تحریک کی رہنمائی کے لیے تقریباً ایک چوتھائی صدی کے درمیان مختلف اوقات میں بھیجے گئے تھے۔مگر یہ قرآن صرف تاریخ نہیں ہے،وہ خدا کا مستقل فرمان ہے جو تاریخ کے سانچے میں ڈھال کر ہمیں دیا گیا ہے۔وہ تاریخ ہے اس لیے کہ وہ ایک عملی نمونہ ہے، اور عملی نصیحت کے لیے مہیّا کیا گیا ہے،وہ مستقل فرمان ہے اس لیے کہ مالک کائنات کے فیصلہ کے مطابق اسی کی بنیاد پر ہر دور کے انسان کی سعادت و شقاوت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
مگر اس خاص ترتیب کے باوجود قرآن اس قسم کے مجموعوں سے بالکل مختلف ہے، جیسے آج کل سیاسی لیڈروں کی تقریروں کے مجموعے چھپتے ہیں۔یہ عالم الغیب کی ایک باکمال منصوبہ بندی ہے۔قرآن کے مختلف اجزاء ایک طویل زمانے میں الگ الگ بھیجے گئے، مگر یہ مختلف ٹکڑے محض اتفاق کے طور پر وجود میں نہیں آگئے تھے،بلکہ وہ ایک مرتب اسکیم کے اجزاء تھے جو عملی ضرورت کے تحت مختلف اوقات میں مختلف ترتیب کے ساتھ نازل ہوئے۔اسکیم کے اختتام پر جب انھیں مکمل کر کے جوڑدیا گیا تو اب وہ ایک لا جواب وحدت بن گئے ہیں۔
مثال کے طورپر یوں سمجھیے کہ ہندوستان کے لیے ایک نو تعمیر کارخانہ کا سامان سمندر کے پار کسی ملک میں تیار کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سامان وہاں کے مختلف کارخانوں میں الگ الگ بنے گا اور تمام سامان الگ الگ جہازوں میں بھر کر ہندوستان روانہ کر دیا جائے گا۔بظاہر دیکھیے تو تیاری کے پورے مرحلے میں یہ کارخانہ متفرق اور نامکمل چیزوں کا ڈھیر معلوم ہوتا ہے مگر یہ سامان جو مختلف جہازوں پر لد کر آیا ہے جب یہاں ا سکے تمام حصوں کو جوڑ دیا جاتا ہے تو ایک پورا کارخانہ ہماری نظروں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔تقریباً یہی معاملہ قرآن کے ساتھ ہوا ہے۔وہ مستقل اور مکمل دستور حیات ہے اس لیے وہ ایک وحدت ہے۔وہ مخالف ماحول کا مقابلہ کر کے اس کو موافق بنانے کا پیغام ہے،اس لیے حالات و ضروریات کے تحت تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا ہے۔تاریخی اعتبار سے وہ متفرق احکام کا مجموعہ ہے مگر خدائے عزیز و حکیم کی منصوبہ بندی نے اس کو ایک نہایت مرتب اور مکمل وحدت بنا دیا ہے۔
آج دنیا میں اربوں اور کھربوں کی تعداد میں کتابیں چھپ کر شائع ہو چکی ہیں۔ایک ایک فن اور ہر فن کے مختلف شعبوں پر اتنی کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں کہ آدمی ساری عمر ان کا مطالعہ کرتا رہے،مگر قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ دنیا میں تمام کتابوں کا مطالعہ بھی آدمی کو اس سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ دوسری کتابوں کے مطالعہ سے کوئی شخص صحیح معنوں میں اسی وقت مستفید ہو سکتا ہے،جب اسے قرآن کے ذریعہ وہ بصیرت حاصل ہو چکی ہو جو ہر معاملہ میں فیصلے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔بحری جہازوں کے لیے نا پید اکنار سمندر میں قطب نما کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح زندگی کے الجھے ہوئے مسائل میں صحیح رائے پر پہنچنے کے لیے وحی الہٰی کی ضرورت ہے ، جو اس روشنی سے بہرہ مند ہو گا وہ ہر گہرائی سے اپنی زندگی کی کشتی پار اتار لے گا اور جو اس روشنی سے محروم ہوگا وہ زندگی کے مسائل میں الجھ کر رہ جائے گا اور کسی صحیح نتیجے تک نہ پہنچ سکے گا۔
قرآن فطرت کے اس خلا کو پُر کرتا ہے جس نے تاریخ کے ہر دور میں انسان کو بےچین کر رکھا ہے۔روسو نے کہا تھا کہ:
"انسان آزاد پیدا ہوا ہےمگرمیں ہرطرف اس کو زنجیر میں جکڑا ہو پاتا ہوں۔"
میں کہوں گا کہ انسان فطرتاً بندہ پیدا ہوا ہے،مگر وہ مصنوعی طور پر آقابننا چاہتا ہے۔انسان بظاہر ایک مکمل وجود معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت وہ سراپا محتاج ہے۔جس طرح اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اس کو ہوا، پانی ، اور دوسری زمینی پیداوار کی ضرورت ہے،اسی طرح اس کو ذہنی زندگی کے لیے بھی ایک خارجی سہارے کی ضرورت ہے۔انسان فطرتاً ایک ایسا سہارا چاہتا ہے جس پر وہ مشکل حالات میں اعتماد کر سکے۔اس کو ایک ایسی قریبی ہستی کی ضرورت ہے جس کے آگے وہ اپنا سر جھکا دے۔جب وہ تکلیف میں ہو تو کسی حاجت روا کے سامنے ہاتھ اُٹھا سکے۔جب اسے خوشی ہو تو کسی محسن کے سامنے سجدہ ٴشکر بجا لائے۔جس طرح سمندر میں ڈوبنے والا ایک شخص کشتی کا سہارا چاہتا ہے ،اسی طرح اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کو ایک مضبوط رسّی کی ضرورت ہے جسے وہ تھام سکے۔کوئی بڑی سے بڑی شخصیت اس کمی سے خالی نہیں ہو سکتی۔اگر یہ خلا ذات ِ خداوندی کے ذریعے پُر کیا جائے تو یہ توحید ہے اور اگر اس کو چھوڑ کر کسی دوسری ہستی کا سہارا ڈھونڈا جائے تو یہ شرک ہے۔
تاریخ کے ہر دورمیں انسان ان دومیں سے کسی نہ کسی سہارے کو اختیار کرنے پر مجبور رہا ہے۔جو لوگ توحید کے پرستار ہیں ان کا سہارا قدیم ترین زمانےسے ایک خدا تھا۔ اور اب بھی صرف خدا ہے، مگر شرک کے پرستاروں کے قبلے بدلتے رہے ہیں۔پہلے زمانے کا انسان اور موجودہ دور میں بھی بہت سے لوگ فضا کے روشن ستاروں سے لے کر درخت اور پتھر تک بے شمار چیزوں کی پرستش کرتے رہے ہیں اور اب موجودہ زمانے میں قوم، وطن ، مادی ترقی اور سیاسی برتری کے جذبات نے اس کی جگہ لے لی ہے۔انسان کو اب بھی ایک مرکز محبت کی ضرورت ہے۔وہ اب بھی اپنی دوڑ دھوپ کے لیے کوئی منتہا چاہتا ہے۔اس کو اب بھی اس کی تڑپ ہے کہ کسی کی یاد سے دل کو گرمائے اور زندگی کی توانائی حاصل کرے۔یہ نئے نئے بت دراصل اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے گھڑے گئے ہیں،مگر جس طرح پتھر کا بُت کوئی واقعی سہارا نہ تھا جوانسان کے کسی کام آ سکتا،اسی طرح موجودہ زمانے کے یہ چمکدار بُت بھی نہایت کمزور ہیں جو کسی قوم کو حقیقی طاقت نہیں دے سکتے۔ جرمنی نے قومیت کو اپنابُت بنایا مگر یہ بُت اس کے کام نہ آسکا اور دوسری جنگ عظیم نے اس کو فنا کر دیا، اٹلی اور جاپان وطن کے بُت کو لے کر اٹھے مگر یہ بت خود ان کے وطن کو ان کے لیے قبرستان بننے سے نہ روک سکا۔برطانیہ اور فرانس نے مادّی اسباب کو بُت بنایا مگر وہ ان کے کام نہ آیا اور جس سلطنت میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا اس کا آفتاب غروب ہو کر رہا۔
قرآن ہم کو بتاتاہے کہ اس کائنات میں طاقت کا اصل خزانہ کہاں ہے وہ ہمارے ہاتھ میں اس مضبوط رسّی کا سِرا دیتا ہے جس کو ٹوٹنا نہیں ہے اور جس کے سوا در حقیقت اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے۔قرآن ہم کو بتاتا ہے کہ اس کائنات میں حقیقی سہارا صرف ایک خدا کا ہے،اسی کے ذریعہ دلوں کو سکون ملتا ہے اسی کے ذریعہ زندگی کی حرارت حاصل ہوتی ہے، اس کا تعلق ہی وہ سب سے مضبوط رسی ہے جو مختلف انسانوں کو باہم جوڑتی ہے،وہی نازک مواقع پر ہمارا دستگیر اور مشکل حالات میں ہمارا مددگار ہے۔اسی کے ہاتھ میں ساری طاقت ہے،عزت اس قوم کے لیے ہے جو اس کا سہارا پکڑے اور جو اس کو چھوڑدے اس کے لیے ذلّت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔یہ علم دراصل تمام خزانوں کی کنجی ہے جس کو یہ ملا اسے سب کچھ مل گیا اور جو اس سے محروم رہا وہ ہر چیز سے محروم رہا۔
ہم ان سائنس دانوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، جنہوں نے بجلی اور بھاپ کی قوتوں کا انکشاف کیا جس سے انسانی تمدن کو ترقی کے مواقع ملے۔مگر یہ کتاب جس حقیقت کا انکشاف کرتی ہے اس کی عظمت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا،یہ صرف مشینوں کا علم نہیں بلکہ اس انسان کا علم ہے جس کے لیے ساری مشینیں بنی ہیں۔اس کے ذریعہ ہم انسان کو سمجھتے ہیں،اس کے ذریعہ انسان اپنی زندگی کوکامیاب بنانے کا راز معلوم کرتا ہے ،اور یہی تاریخ کا وہ اٹل فیصلہ ہے جس سے قوموں کے بننے اور بگڑنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
قرآن خدا کی آواز ہے،ہر بادشاہ کاایک دستور ہوتا ہے۔قرآن خدا کا دستور ہے جو تمام انسانوں کا آقا اور سارے بادشاہوں کا بادشاہ ہے،وہ ہدایت ہے جو انسان کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے،وہ قانون ہے جس میں انسانیت کی تعمیر اور سوسائٹی کی تنظیم کے لیے صحیح ترین بنیادیں ہیں،وہ حکمت ہے جس میں دانائی کی تمام باتیں بھری ہوئی ہیں،وہ شفاء ہے جس میں انسانیت کی بیماریوں کا علاج ہے،وہ فرقان ہے جو حق و باطل کی صحیح صحیح نشاندہی کرتا ہے،وہ روشنی ہے جس سے انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلے راستے پاتے ہیں،وہ یاد دہانی ہے جو انسان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگاتی ہے،وہ نصیحت ہو جو مالک کائنات کی طرف سے اپنے بندوں کے پاس بھیجی گئی ہے،غرض اس میں وہ سب کچھ ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے اس کے سوا کہیں اور سے آدمی کو کچھ نہیں مل سکتا۔
قرآن خدا کی کتاب ہے،وہ ایک واسطہ ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے وہ دنیا میں خدا کا محسوس نمائندہ ہے۔وہ ان لوگوں کا سہارا ہے جو خدا کی رسی کو مضبوط پکڑنا چاہتے ہوں ،وہ ایک پیمانہ ہے جس سے انسانوں کی خدا پرستی کو ناپا جا سکتا ہے۔اگر یہ سوال کیا جائے کہ کوئی شخص اپنے متعلق کس طرح یہ معلوم کرے کہ اس کو خدا سے تعلق پیدا ہوا یا نہیں تو اس کا ایک ہی جواب ہے،وہ یہ کہ آدمی اپنے اندر ٹٹول کر دیکھے کہ اس کو قرآن سے کتنا تعلق ہے۔قرآن سے تعلق ہی خدا سے تعلق کا مظہر ہے۔آدمی کو قرآن سے جتنا لگاؤہو گا خدا سے بھی لگاؤ اسی قدر ہو گا۔اگر قرآن اس کی محبوب ترین کتاب ہو تو سمجھنا چاہیے کہ خدا اس کے نزدیک محبوب ترین ہستی ہے اور اگر اس کی محبوب ترین کتاب کوئی اور ہو تو اس کا محبوب بھی وہی شخص ہو گا جس کی کتاب اس نے پسند کی ہے۔خدا اس کا محبوب نہیں ہو سکتا۔جس طرح خدا کو ہم قرآن کے سوا کہیں اور نہیں پا سکتے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو پانے کے بعد قرآن کے سوا کوئی اور چیز ہماری محبوب ترین بن سکے۔
قرآن کا مطالعہ کرنے کی ضرورت صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس کے ذریعہ سے آدمی اپنے رب کے احکام معلوم کرتا ہے بلکہ دنیا کی زندگی میں خدا سے قریب ہونے اور بندگی کی را ہ پر انسان کو استوار رکھنے کا دارومدار بھی اسی پرہے۔قرآن میں آدمی اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے،قرآن میں اس وعدوں اوربشارتوں کو دیکھتا ہے، اپنے آقا اور مالک کے بارے میں انسان کے فطری احساسات جو اس کے اندر غیر شعوری طور پر امنڈتے ہیں،وہ دیکھتا ہے کہ قرآن میں ان کو مصوّر کر دیا گیا ہے۔جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اتھاہ کائنات کے اندر وہ ایک بے سہارا وجود ہے تو قرآن اس کے لیے منزل کا نشان بن کر ظاہر ہوتا ہے۔قرآن آدمی کے لیے وہ یقین مہیا کرتا ہے جس کے مطابق آدمی دنیا میں اپنا مقام متعین کر سکے۔قرآن کومحض پڑھ لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عشق کی ضرورت ہے۔قرآن سے جب تک غیر معمولی شغف نہ ہو یہ سارے فوائد حاصل نہیں ہو سکتے۔یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں " تعاہد" کے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے: تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ(صحيح البخاري،حدیث نمبر 5033)۔يعنى قرآن کی حفاظت کرو۔
قرآن سے یہ دل چسپی اور اس کی عظمت کا احساس بالواسطہ پیدا نہیں ہوسکتا۔کسی مفسر یا ادیب کی زبان سے قرآن کے مضامین سن کر آدمی اس مفسر یا ادیب کا معتقدتو ہو سکتا ہے۔مگر اس طرح قرآن سے حقیقی لگاؤ پیدا ہونا ممکن نہیں۔قرآن سے تعلق صرف اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کہ خود قرآن کو پڑھا جائے اور اس کے اندر جو کچھ ہے اس کو براہِ راست اس کے اپنے الفاظ کے ذریعہ سے ذہن میں اتارا جائے یہ محض خیالی بات نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک اہم نفسیاتی حقیقت ہے۔کسی چیز سے آدمی اسی حیثیت سے متاثر ہوتا ہے جس حیثیت سے وہ اس سے ذاتی طور پر متعارف ہوا ہو۔مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ روئی اور پتھر کا نرم اور سخت ہونا محض اضافی ہے۔حقیقتادونوں بالکل ایک ہیں کیونکہ اپنے آخری تجزیے میں دونوں ایک ہی طرح کے برقی ذرات کا مجموعہ ہیں۔مگر یہ ایک خالص علمی بات ہے،حقیقی دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص روئی کو نرم اور پتھر کو سخت نہ سمجھے۔تاثر کبھی خارجی علم کا پابند نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اس علم کا پابند ہوتا ہے جو اسے ذاتی طور پر حاصل ہوا ہے۔
اس مثال کی روشنی میں مسئلے کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔جب ہم قرآن کو خود اس کے لفظوں میں سمجھے بغیر کسی دوسرے شخص کے مضامین اور اس کی تشریحات کے ذریعہ اس کا علم حاصل کرتے ہیں تو قدرتی طور پر جو صورتِ حال پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ ایک طرف قرآن کی عبارت ہوتی ہے جس کا کوئی مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آتا یا اگرسمجھ میں آتا ہے تو بہت معمولی سا۔اور دوسری طرف ایک مصنف کی تحریر ہوتی ہے جو ہمارے لیے ایک قابلِ فہم زبان میں ہونے کی وجہ سے خود اپنے آپ کو واضح کرتی ہے۔خدا کا کلام سمجھ میں نہیں آتا ،مگر مصنّف کا کلام خوب سمجھ میں آتا ہے۔خدا کی بات میں کوئی خاص معنویت دکھائی نہیں دیتی اور مصنف کا کلام نہایت با معنیٰ نظر آتا ہے۔خدا کا کلام پڑھئے تو وہ دل کے اوپر اپنا کوئی اثر نہیں ڈالتا مگر مصنّف کی عبارت دیکھئے تو رگ رگ میں پیوست ہوتی چلی جاتی ہیں۔یہ دو مختلف عبارتوں کا دو بالکل مختلف حیثیتوں سے تعارف ہے جو انسان کو حاصل ہوتا ہے۔آدمی کا خارجی علم کہتا ہے کہ کلام ِ برتر وہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا یا اگر سمجھ میں آتا ہے تو اس کے اندر کوئی بڑی بات نہیں ہے اور حقیقی تعارف یہ محسوس کراتا ہے کہ کلام ِ برتر وہ ہے جو اپنی حیثیت کو خود تمہارے اوپرواضح کر رہا ہے۔اس صورت ِ حال کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن کے بجائے کسی مصنّف کی عظمت اس کے دل پر نقش ہو جاتی ہے۔روایتی ایمان کی بنا پر وہ اپنی زبان سے یہ تو نہیں کہہ سکتاکہ وہ مصنّف کی تحریروں کو قرآن پر ترجیح دیتا ہے مگر اس کا اندرونی احساس اس قسم کا ہو جاتا ہے گویا اصل واقعہ یہی ہے۔ وہ غیر شعوری طور پر خدا کے سوا کسی اور شخصیت کی پرستش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ ایک عظیم فتنہ ہے جس کا خطرہ ہر اس شخص کو لا حق ہے جو خدا کے پیغام کو اس کی اپنی زبان کے بجائے کسی دوسرے کی زبان سے سننا چاہتا ہو،جو قرآن کا براہِ راست مطالعہ کرنے کے بجائے اس کے متعلق دوسرے لوگوں کی تحریروں کو پڑھ لینا کافی سمجھتا ہو،جو قرآن کو خود قرآن سے سمجھنے کے بجائے قرآن کو مفّسروں اور ادیبوں کی تحریروں سے سمجھنا چاہتا ہو، جس طرح ہم اپنے پیٹ کی بھوک اسی وقت بجھا سکتے ہیں جب کہ خود کھائیں اور اپنے اندر ہضم کریں ٹھیک اسی طرح ہمارا ایمان بھی اسی وقت صحیح اور مکمل ہو سکتا ہے،جب کہ ہم نے اس کے اصل ماخذ سے خود حاصل کیا ہو۔کسی دوسرے کے واسطے سے ہم اس تک ٹھیک ٹھیک نہیں پہنچ سکتے۔
قرآن کے سلسلے میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ قرآن کا مطالعہ کس طرح کیا جائے کہ وہ اپنی صحیح شکل میں ہمارے ذہنوں میں اتر جائے اور ہماری زندگی میں حقیقی طور پر شامل ہو سکے۔اس کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ قرآن کا مطالعہ خود قرآن کی روشنی میں کیا جائے نہ کہ کسی اور چیز کی روشنی میں ،یہ مطالعہ لازمی طور پر قرآن کو سمجھنے کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ اپنی پہلے سے کسی طے کی ہوئی بات کو اس سے نکالنے کے لیے۔جب بھی کوئی شخص متاثر ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ قرآن کو صحیح طور پر اخذ نہیں کر سکتا،ایسا آدمی قرآن کے آئینے میں اپنی بات دیکھے گا، نہ کہ قرآن کی بات کو۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ انسان کے ذہن میں کسی مطالعہ کے نتائج ہمیشہ اس تصور کے مطابق مرتب ہوتے ہیں جو پہلے سے اس کے ذہن میں موجود ہو۔انسان کے لیے یہ نا ممکن ہے کہ وہ چیزوں کو صرف اس حیثیت سے دیکھے جیسے کہ وہ فی الواقع ہوں۔اکثر حالات میں وہ مجبور ہوتا ہے کہ چیزوں کو اس حیثیت سے دیکھے جیسا کہ اس کا ذہن اسے دیکھنا چاہتا ہے۔اس طرح جب کوئی شخص ایک خاص ذہن لے کر قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو عملاً یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن کی بعض باتوں کو تو لے لیتا ہے جو اس کے ذہن کے چوکھٹے میں بیٹھ سکتی ہوں اور باقی تمام باتوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔
اس طرح وہ سارا قرآن پڑھ لیتا ہے اورسمجھتا ہے کہ اس نے قرآن کو پا لیا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔اس نے جو چیز پائی ہے وہ وہی ہے جو اس کے ذہن میں پہلے سے موجود تھی اور جس کی تائید میں اتفاق سے قرآن کی بعض آیتیں بھی اسےہاتھ آگئیں۔ایسے آدمی کی مثال بالکل اس تعلیم یافتہ نوجوان کی سی ہے جو اپنی بے کاری سے پریشان ہو اور صرف " ضرورت ِ ملازمت " کے اشتہارات دیکھنے کے لیے اخبار کا مطالعہ کرتا ہو۔یہ نوجوان اپنے اس مطالعہ کے ذریعہ سے ممکن ہے ملازمت کی درخواست بھیجنے کے لیے کچھ پتے حاصل کر لے مگر وہ دنیا کی سیاست سے بالکل بے خبر رہے گا اور اخبار بینی کے اصل مقصد کو حاصل نہ کر سکے گا۔
متاثر ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرنے کی مختلف صورتیں ہیں، جن میں سب سے زیادہ خطرناک صورت وہ ہے، جب کہ آدمی سمجھ رہا ہو کہ وہ اسلام ہی کے لیے قرآن کا مطالعہ کرنے جا رہا ہے۔ حالانکہ واقعتاًایسا نہ ہو۔فرض کیجیے کہ آپ ایک ایسی تحریک سے متاثر ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے اٹھی ہے مگر وہ صحیح اسلامی تحریک نہیں ہے (مثال کے طور پر خاکسار تحریک) ۔اس کا انداز اور اس کی روح اسلام کے انداز اور اس کی روح سے مختلف ہے۔وہ لوگوں کو اسلام کے نام پربلاتی ہے ،اور اپنی دعوت کی تشریح کے لیے اسلامی الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتی ہے، مگر اس کی حرکت ٹھیک اس سمت میں نہیں ہے جو کہ دراصل اسلام کی ہے۔
اس مثال میں حقیقی صورت ِ حال یہ ہے کہ جس تحریک نے آپ کومتاثر کیا ہے وہ صحیح اسلامی تحریک نہیں ہے مگر آپ کے ذہن میں جو تصور قائم ہوا ہے وہ یہ کہ یہی صحیح ترین اسلامی تحریک ہے اور اس کی خدمت کرنا اسلام کی خدمت کرنا ہے۔ اس تحریک نے آپ کی فکری قوتوں کو اپنے انداز کے مطابق موڑ دیا ہے۔اب ایک ایسا ذہن لے کر جب آپ قرآن کا مطالعہ شروع کریں گے تو بظاہر آپ یہ سمجھیں گے کہ آپ قرآن کو حاصل کرنے جا رہے ہیں مگر جو واقعہ ہے وہ یہ کہ آپ قرآن کے لفظوں میں اپنی بات کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں۔اس طرح مطالعہ کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ قرآن کی بہت سی چیزیں آپ کو بے کار معلوم ہوں گی۔ کیونکہ وہ آپ کے ذہنی سانچے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں اور کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جو آپ کو پسند آجائیں گی۔ کیونکہ وہ آپ کے ذہنی سانچے میں بیٹھ رہی ہیں۔اس طرح آپ قرآن کی کچھ باتوں کو لے لیں گے اور اس کی بہت سی باتوں کو چھوڑ دیں گے۔آپ اپنے طور پر یہ سمجھتے رہیں گے کہ آپ نے قرآن کو پا لیا ہے۔ مگر جو حقیقت ہو گی وہ یہ کہ آپ قرآن سے محروم ہوں گے۔آپ اسلام کے نام پر خود اسلام کو چھوڑ دیں گے۔آپ قرآن کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ مگر حقیقتاً آپ کی گفتگو کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔اس طرح مطالعہ کے وقت انسان کا ذہنی تصور جس درجے میں اسلام سے ہٹا ہو اہو۔ اسی کے بقدر اس کے مطالعہ ٴقرآن میں نقص ہو جاتا ہے۔
آپ کہیں گے کہ جب صورت ِ حال یہ ہے تو کسی کے بارے میں بھی یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا مطالعہ اس کو صحیح نتائج تک پہنچا سکے گا۔کیونکہ قرآن کے مطالعے کے بعد ہی تو قرآن کے مطابق کسی کا ذہن بن سکتا ہے۔پھر ایک شخص جو ابھی قرآن کا مطالعہ کرنے جا رہا ہے۔اور ظاہر ہے کہ پہلی بار ہر شخص کی یہی حیثیت ہوتی ہے تو وہ کس طرح قرآن کے مطابق اپنے ذہن کو بنا سکتا ہے۔
جواب یہ ہے کہ میرا مطلب یہ نہیں کہ مطالعہ کرنے سے پہلے آدمی کا ذہن قرآن کے مطابق بن چکاہو۔ظاہر ہے کہ یہ بات نا ممکن ہے۔میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے اندر اس بات کی صلاحیت ہونی چاہیے کہ قرآن سے جو کچھ اسے ملے وہ اس کو بے چون و چرا قبول کرلے۔علماء نے یہ کہا کہ قرآن سے صحیح طور پر استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس کے لیے خدا سے دعا کرے۔اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدمی کے اندر ہدایت کو قبول کرنے کی آمادگی ہونی چاہیے۔دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ مخصوص الفاظ اپنی زبان سے ادا کر کے تلاوت کا آغاز کیا جائے۔بلکہ یہ دعا دراصل دل کی اس تڑپ کا اظہار ہے کہ بندہ ہدایت قبول کرنے کے لیے بے تاب ہے،وہ حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس کی طلب پوری طرح ابھری ہوئی ہے، وہ ہمہ تن طالب ِ حق بن کر خدا سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ اسے روشنی دے۔وہ اس کے اندر صحیح خیالات کا فیضان کرے، وہ قرآن کےمطالب کو اس کے لیے کھول دے تا کہ وہ اسے جذب کر سکے۔یہی جذبہٴ طلب دراصل وہ چیز ہے جو آدمی کو قبول حق تک لے جاتی ہے اور جس نے اپنی فطری طلب پر خواہشات کے پردے ڈال لیے ہوں اسے کبھی حق کو قبول کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے ہم کو اور کون سے علوم جاننے کی ضرورت ہے۔اس گفتگو کو میں دو حصوں میں تقسیم کر دوں گا۔قرآن کے طالب علم دوقسم کے ہو سکتے ہیں۔ایک وہ جو زیادہ مطالعہ کرنے کے خواہش مند ہوں اور دوسرے وہ جو اپنے حالات کے تحت اس کو صرف سادہ طریقے پر پڑھنا چاہتے ہوں۔دوسری قسم کے لوگوں کے لیے صرف ایک چیز سیکھ لینا کافی ہے،یعنی قرآن کی زبان ۔اور پہلی قسم کے لوگوں کو اس کے علاوہ مزید چار علوم میں واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح دونوں گروہ کے لحاظ سے یہ کل پانچ متعلق علوم ہوئے جو کہ حسبِ ذیل ہیں:
1۔عربی زبان
2۔حدیث اور تفسیر
3۔سائنس یعنی علوم فطرت
4۔ ان قوموں کی تاریخ جن میں خدا کے رسول آئے
5۔قدیم آسمانی صحیفے
(1) قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے عربی زبان کا جاننا بالکل لازمی ہے۔اس کی اہمیت کسی ذاتی شرف کی بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف اس اعتبار سے ہے کہ اس کے بغیر مطالعہٴ قرآن کی ابتداء ہی نہیں کی جا سکتی ۔ یہ اس سفر کا پہلا زینہ ہے جس کو طے کیے بغیر اوپر چڑھا نہیں جاسکتا۔عربی زبان سے واقف ہونے کی ضرورت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے بغیر ہم آیاتِ الہٰی کا مطلب نہیں سمجھ سکتے۔ظاہر ہے کہ کوئی کتاب جس زبان میں ہو اس زبان کو جانے بغیر کتاب کو سمجھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔مگر عربی جاننے کی ضرورت ہم کو صرف اسی لیے نہیں ہے۔اگر اس کی ضرورت صرف اسی قدر ہوتی تو یہ کام ترجموں کے ذریعہ بھی لیا جا سکتا تھا۔اس سے آگے بڑھ کر عربی زبان سے واقف ہونے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ قرآن کے لفظوں میں جو زور اور اثر انگیزی بھری ہوئی ہے اس کو اپنے ذہن میں منتقل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک آدمی اس کی ادبی نزاکتوں سے آشنا نہ ہو۔
ہر عبارت کا ایک مطلب ہوتا ہے جس کے لیے وہ ترتیب دی جاتی ہے۔ یہ مطلب اس طرح بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان لفظوں کا ترجمہ کر دیا جائے جن میں وہ عبارت مرتب کی گئی ہے یا ڈکشنری میں دیکھ کر اس کو حل کر لیا جائے۔مگر اسی کے ساتھ ہر کامیاب عبارت میں ایک تاثیر بھی ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو اپنی معانی کی طرف کھینچتی ہے ۔یہ تاثیر معانی سے زیادہ اس کے الفاظ اور انداز بیان میں ہوتی ہے۔عبارت جن لفظوں میں مرتب کی گئی ہے اگر آدمی ان الفاظ کی حکمت اور بلاغت کو نہ جانتا ہو تو وہ اس کے ترجمے سے اس کا مطلب تو شایدسمجھ جائے مگر اس سے کوئی اثر قبول نہیں کر سکتا ۔
قرآن کی عبارتوں میں بے پناہ روانی ہے، اس کے اندر حیرت انگیز طور پر معانی کو لفظوں کی صورت میں مجسم کر دیا گیا ہے۔قرآن میں کہیں یقین پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کہیں خدا کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، کہیں اعمالِ خیر پر ابھارا گیا ہے،کہیں اپنے دعوے کے حق میں انسان کی فطرت اور کائنات کی شہادتوں سے استدلال کیا گیا ہے، کہیں انسان کی کامیابی و ناکامی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ مگر یہ سب کچھ صرف بیانِ واقعہ کے طور پر نہیں ہے بلکہ ایسے بلیغ اورموثر انداز میں ہے کہ ہر جگہ آدمی پر وہی کیفیت طاری ہوتی ہے جو کہ دراصل وہاں مقصود ہے۔قرآن کا اندازِ بیان ایسا مسحور کن ہے کہ آدمی اس کو صرف پڑھتا نہیں بلکہ اس میں غرق ہو جاتا ہے وہ اس کو صرف پڑھ کر چھوڑ نہیں دیتا بلکہ وہ مجبور ہوتا ہے کہ اس پر ایمان لائے۔قرآن کا یہ اسلوب نصف ِ قرآن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے عربی زبان کا سیکھنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کا حقیقی معنوں میں کوئی بدل نہیں۔ آخرت میں خدا کے نیک بندوں کو اپنے رب سے جو قربت نصیب ہو گی وہ دراصل اس کوشش کا نتیجہ ہو گی جو دنیا میں آدمی اپنے رب سے قریب ہونے کے لیے کرتا ہے اور یہ قربت کلامِ الہٰی سے گہرا تعلق قائم کیے بغیرنہیں ہو سکتی۔اس لیے جو شخص بھی خدا کا بندہ بننا چاہتا ہو اور آخرت میں خدا کی رحمت حاصل کرنے کا امید وار ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب کی زبان سیکھے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس سے کلام کیا ہے۔آخرت کے مسافر کے لیے عربی زبان کا سیکھنا بالکل اسی قسم کی ایک ضرورت ہے جیسے کسی غیر ملک کی سفارت حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے حالات جاننا اور وہاں کی زبان سیکھنا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ضرورت مسلّم،مگرموجودہ زمانے میں ہر شخص کو اتنا موقع کہاں ہے کہ وہ ایک غیر ملک کی زبان میں واقفیت اور مہارت حاصل کرے۔مگر کیا فی الواقع صورت حال یہی ہے کہ موجودہ زمانے کے انسان کے لیے کوئی نئی زبان سیکھنا یا کسی زبان میں اپنی واقفیت کو بڑھانا ممکن نہیں رہا۔حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے ، یہ کام آج جتنا کیا جا رہا ہے،پہلے شاید کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ہماری آنکھوں نے یہ تماشہ دیکھا ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے جن مقامات پر ہندی کو سرکاری کام کا ذریعہ قرار دیا گیا تھا وہاں کے وہ ملازمین جو اب تک ہندی زبان سے نا واقف تھے،انہوں نے دن رات ایک کر کے ہندی زبان سیکھی اور اب اس قدر بے تکلفی کے ساتھ ہندی میں کام کرتے ہیں گویا وہ ہمیشہ سے اس کو جانتے تھے۔اسی طرح جو لوگ دنیوی ترقی چاہتے ہیں ان کو ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ پرائیویٹ طورپر تیاری کر کے بی،اے، اور ایم،اے، کے امتحانات دیتے رہتے ہیں۔اور یہ سب کچھ دوسرا کام کرتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے۔اس سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کمی اگر ہے تو فرصت کی نہیں بلکہ اراداے کی ہے،اگر یہ چیز موجود ہو تو نئی زبان بھی سیکھی جا سکتی ہے اور دوسری مصروفیتوں کے ساتھ ایک غیر زبان میں اپنی واقفیت بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔
سادہ انداز میں قرآن سے استفادہ کرنے کے لیے صرف عربی زبان کا جاننا کافی ہے۔مگر جو لوگ زیادہ گہرائی کےساتھ قرآن کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں ان کے لیے مزید چند چیزوں میں واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
(2) قرآن کا گہرا مطالعہ کرنے کے لیے پہلی مددگار چیز سنت اور تفسیر کا علم ہے۔ ان دونوں کو ہم نے ایک خانے میں اس لیے نہیں رکھا ہے کہ دونوں کا مقام ایک ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنتِ صحیحہ اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں سے ایک کا مطالعہ کرنا گویا دوسرے کا مطالعہ کرنا ہے۔اس کے برعکس، تفسیر کسی انسان کے مطالعہ قرآن کے نتائج کا نام ہے، اور انسان کا مطالعہ خواہ وہ کسی بھی شخص کا ہو، اس میں غلطیوں کا امکان ہے۔اس لیے تفسیر کبھی قرآن کی جگہ نہیں لے سکتی اور نہ اس کو کسی حال میں سنت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک سلسلے میں رکھنے کی وجہ دراصل وہ تاریخی نوعیت ہے، جو قرآن کے مقابلے میں اسے حاصل ہے۔قرآن جس طرح مکمل اورمحفوظ شکل میں ہم تک پہنچا ہے روایات اسی طرح ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔صحیح روایات کے ساتھ بہت سی غلط روایات بھی شامل ہو گئیں ہیں۔اسی لیے علماء نے قرآن کے مقابلے میں اس کو قطعی علم کےبجائے ظنی علم کی حیثیت دی ہے۔اگر احادیث میں ظن اور شبہ کا دخل نہ ہوتا اور ان کا ایسا کوئی ذخیرہ موجود ہوتا جس کو قطعی طور پر محفوظ قرار دیا جا سکے تو احادیث کو بھی اسی طرح اصل کا درجہ دیا جاتاجیسا کہ خود قرآن کا ہے۔صرف حدیث ہی نہیں بلکہ وہ تمام مآخذ جو قرآن سے متعلق ہیں ان سب کا یہی معاملہ ہے۔مثلاً تاریخ اور گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے صحیفے اگر اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہوتے تو یہ سب بھی قرآن ہی کی طرح اصل قرار پاتے اور سب بلا اختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔
تفسیر اور روایات کا ذخیرہ قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک اہم مددگار کی حیثیت رکھتا ہے۔صحیح روایات کی حیثیت یہ ہے کہ وہ خود قرآن لانے والے کی زبان سے قرآن کی تشریح ہے، وہ ان امور کی تفصیل ہے ،جن کو کتابِ الہٰی نے مجمل چھوڑ دیا ہے، وہ ان اشارات کی تعین ہے جن کو قرآن نے واضح نہیں کیا ہے۔وہ ان مقاصد کی مزید وضاحت ہے جن کے لیے قرآن نازل کیا گیا تھا۔ اس لیے جو شخص قرآن کو سمجھنا چاہتا ہو اس کے لیے لازم ہے کہ مہبطِ قرآن کے ارشادات سے استفادہ کرے۔اس کے بغیر وہ قرآن کے مطالب تک نہیں پہنچ سکتا۔اسی طرح تفاسیر کا ذخیرہ امت کے بہترین دماغوں کی کاوش کا نتیجہ ہے جو صدیوں سے قرآن کو سمجھنے کے سلسلے میں وہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔یہ تاریخ کے لمبے ادوار میں قرآن کے مطالعہ کرنے والوں کے نتائج فکر ہیں جن کو چھوڑ کر قرآن کا مطالعہ کرنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ پچھلی صدیوں میں سائنس نے جو کچھ دریافتیں کی ہیں ان سب کو چھوڑ کر میں از سر نو کائنات پر غور کروں گا۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کے مطالعہ کے لیے تفسیر اور روایات کے ذخیرے سے مدد لیں۔ان کو چھوڑ کر قرآن کا مطالعہ کرنا ایک سر پھرے آدمی کا کام تو ہو سکتا ہے مگر کوئی سنجیدہ آدمی ہرگز اس قسم کی حماقت نہیں کر سکتا۔
(3) قرآن نے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے دو چیزوں سے خاص طور پر استدلال کیا ہے۔ایک زمین و آسمان کی تخلیق اور دوسرے پچھلی قوموں کے حالات ۔قرآن کا یہ عام اسلوب ہے کہ اپنے دعوے کے حق میں فطرت کے دلائل دے کر تاریخی واقعات سے اس کا مزید استحکام کرے۔پہلی چیز اس واقعہ کی محسوس شہادت ہے کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جس کی مرضی معلوم کرنا ہمارے لیے ضروری ہے، اس کو چھوڑ کر انسان کامیابی تک نہیں پہنچ سکتا۔اور دوسری چیز اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ہر زمانے میں کچھ انسانوں کے ذریعہ اپنی مرضی بھیجتا رہا ہے۔جن لوگوں نے اس کو قبول کیا وہ کامیاب ہوئے اور جنہوں نے اس کو نہیں مانا وہ تباہ کر دیے گئے۔کائنات زبان حال سے جس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے ،اقوام سابقہ کی تاریخ زبان ِ قال سے اسی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔
یہ دونوں دلیلیں آج بھی قرآن کو سمجھنے اور اس پر ایمان لانے کے سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔قرآن اگرچہ سائنس کی کتاب نہیں ہے اور نہ وہ عام معنوں میں کوئی تاریخ ہے ۔مگر سائنس اور تاریخ یہی وہ خاص علوم ہیں جن پر ان کے استدلال کی بنیاد قائم ہے۔اس لیے قرآن کا کوئی طالب علم ان علوم سے بے نیاز رہ کر قرآن سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
پہلے قسم کے استدلال کے سلسلے میں قرآن نے آفاق و انفس کی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا ہے اور ان پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔یہ دلائل قرآن میں اس طرح نہیں آئے ہیں کہ ان کا تفصیلی تجزیہ کر کے سا ئنٹفک انداز میں ان کے نتائج مرتب کیے گئے ہوں بلکہ کائنات کی نشانیوں کا ذکر کر کے ان کی مختلف جہتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے، جو غور کرنے والے کے لیے رہ نمائی کا کام دیتی ہیں۔گویا دلائل کی تفصیل نہیں ہے بلکہ دلائل کے عنوانات ہیں۔اس لیے ان سے پورا فائدہ اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ کائنات کے متعلق مزید معلومات کو سامنے رکھ کر ان کا مطالعہ کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں وہ معلومات اور نتائج آدمی کے ذہن میں ہونے چاہئیں جن سے ان دلائل کی وضاحت ہوتی ہے اور جو اس کے اشارات کو مفصّل بنانے والے ہیں۔
مثلاً قرآن کہتا ہے:هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِهَا (67:15)۔ وہی ہے جس نے زمین کو تمھارے لیے فرمانبردار بنایا تو چلو پھرو اس کے راستوں میں ۔
ان الفاظ میں جس عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی تفصیل ہم کوقرآن میں نہیں ملے گی بلکہ خارجی لٹریچر میں اس کو تلاش کرنا پڑے گا۔خارجی مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ زمین کو کس طرح اتھاہ خلا کے اندر ٹھہرا کر ہمارے لیے قابلِ رہائش بنایا گیا ہے اور کس طرح مختلف قسم کے اہتمام کے ذریعہ اس کو زندگی کے بقاء اور انسانی تمدّن کے ارتقاء کے لیے سازگار بنایا گیا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ اس کائنات کا خالق اور اس کا مدّبر صرف ایک خدائے وحدہ لاشریک ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات ایک الل ٹپ کارخانہ نہیں ہے بلکہ ایک منظّم اسکیم کا آغاز ہے جس کا انجام آنا چاہیے۔کائنات کی اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد وہ انسان کو اس کے ماننے کی دعوت دیتا ہے ، وہ اس سے کہتا ہے کہ اس تصور کائنات کے لازم معنی یہ ہیں کہ کائنات کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہو اور کائنات کی تمام چیزوں کے لیے کامیابی کا راستہ صرف یہ ہو کہ خدا کی مرضی کو پا لیں۔اس طرح وہ رسالت اور وحی کی ضرورت ثابت کر کے اس کی طرف بلاتا ہے۔پھر وہ انسان کو کائنات کے ان انتظامات کی یاد دلاتا ہے جو خدا نے انسان کے لیے کیے ہیں اور جن کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان احسانات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے محسن کے آگے جھک جائے،پھر وہ انسان کو بتاتا ہے کہ وہ کس قدر عاجزاور حقیر مخلوق ہے اور خود اس کے اپنے عجز ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ خدا کی رسّی کو مضبوط تھام لے،جس کے سوادراصل یہاں کوئی سہارا نہیں ہے۔
یہ تمام باتیں جو قرآن پیش کرتا ہے ان سب کے سلسلے میں اس کا اصل استدلال انسان کے اپنے وجود اور زمین وآسمان کے اندر پھیلی ہوئی نشانیوں سے پُر ہے وہ ہمارے مشاہدات اور تجربات ہی کی دلیل سے ہم کو اپنے نظریہ کا مومن بناناچاہتا ہے اس لیے ان نشانیوں کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان سے پورا فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کو ان کے بارے میں ضروری علم حاصل ہو۔جب قرآن کائنات کے کسی واقعے کی طرف اشارہ کرے تو ہم کو معلوم ہو کہ وہ کیا ہے، وہ جب کسی نشانی کا حوالہ دے تو ہم جانتے ہوں کہ ہماری زندگی کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے، وہ جب کسی دلیل کا ذکر کرے تو ہم اس دلیل کے اطراف و جوانب سے اتنی واقفیت رکھتے ہیں کہ اس پر غور کر سکیں۔غرض وہ جب بھی کائنات کے کسی رُخ کو ہمارے سامنے لائے تو ہماری آنکھیں اس کو دیکھنے کے لیے کھلی ہوئی ہوں اور ہمارا ذہن اس کو سمجھنے کے لیے ضروری واقفیت اپنے پاس رکھتا ہو۔
ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں کائنات کی جو دلیلیں مذکور ہوئی ہیں، وہ آخر مجمل انداز ہی میں کیوں ہیں ، ان کو اتنا مفصّل ہونا چاہیے تھا کہ قرآن میں ان کو پڑھ لینا کافی ہوتا ، خارجی معلومات لے کر اس کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہ ہوتی ۔جواب یہ ہے کہ انسانی زبان میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں لکھی جا سکتی جس میں وہ تمام باتیں اپنی ساری تفصیل کے ساتھ درج ہوں جن کا اس کتاب میں ذکر آیا ہے ہر مصنّف کو لازمی طور پر یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اس کا پڑھنے والا فلاں فلاں قسم کی معلومات پہلے سے رکھتا ہوگا۔اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میں شاید صرف انسائیکلوپیڈیا کا وجود ہو، کوئی مختصر کتاب لکھی ہی نہ جاسکے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بہت سے امور میں صرف اشارات سے کام لیا ہے،جو باتیں وحی کے بغیر معلوم نہیں کی جا سکتیں، ان کی تو قرآن میں پوری تفصیل کی گئی ہے۔ مگر وہ باتیں جن کے جاننے کے لیے لازمی طور پر وحی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انسان خدا کی دی ہوئی عقل سے کام لے کر بھی انہیں معلوم کر سکتا ہے،ایسی باتوں کی طرف صرف اشارہ کر دیا گیا ہے اور انسان سے کہا گیا ہے کہ ان پر غور کرو۔
اس کے علاوہ قرآن کے اس طرز بیان کے پیچھے ایک ا ورعظیم مصلحت ہے۔قرآن ایک عام آدمی کے لیے بھی ہے اور ایک فلسفی کے لیے بھی۔وہ ماضی کے لیے بھی تھا اور مستقبل کے لیے بھی ہے۔اس لیے اس نے اپنی گفتگو کا ایسا انداز اختیار کیا جو ڈیڑھ ہزار برس پہلے کے انسان کے لیے قابلِ فہم ہو سکتا تھا اور پھر ان تمام لوگوں کے لیے بھی اس کے اندر نصیحت ہے جو آئندہ حاصل شدہ معلومات کو ذہن میں رکھ کر قرآن کا مطالعہ کریں۔قرآن نے ان دلائل کا ذکر کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو بعد کے زمانوں میں حاصل شدہ معلومات کو بھی سمیٹ لیتے ہیں۔یہ قرآنی اندازِ کلام کا اعجا ز ہے کہ کائنات کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جس کے اندر ایک ایسا آدمی بھی اپنی تسکین پا لیتا ہے جوکائنات کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات رکھتا ہو اور انھیں الفاظ میں ایک سائنسداں اور فلسفی کے لیے بھی تسکین و تشفی کا سامان موجود ہے۔
(4) دوسری چیز جس پر قرآن کے استدلال کی بنیاد ہے وہ تاریخ ہے۔قرآن انسانی تاریخ کو دو دوروں میں تقسیم کرتا ہے،ایک چھٹی صدی عیسوی سے قبل کی تاریخ جس کو وہ اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ وہ حق و باطل کی آویزش کی تاریخ ہے جس میں لازمی طور پر ہمیشہ حق کو غلبہ ہوا ہے اور باطل کو شکست ہوئی ہے۔قرآن کے مطابق چھٹی صدی عیسوی تک انسانی تاریخ جس انداز میں سفر کرتی رہی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کے اوپر انسان نے جتنی بھی آبادیاں قائم کیں ان میں خدا کی طرف سے ایک نمائندہ ( رسول)آیا،اس نے انسانوں کو ان کی زندگی کا مقصد بتایا، اس نے کہا کہ خدا نے مجھ کو یہ پیغام دے کر تمھارے پاس بھیجا ہے کہ تم اس کی بندگی کرو اور میں جو کچھ کہوں اس کو مانو،اس نے کہا کہ اگر تم میری بات نہ مانو گے تو تباہ کر دیے جاؤ گے۔اس طرح نبی کا یہ چیلنج کہ زندگی و موت کا انحصار اس کی دعوت کو ماننے یا نہ ماننے پر ہے، یہ خود نبی کے دعوے کی صحت کو جانچنے کا ایک معیار بن گیا۔قرآن کہتا ہے کہ تاریخ کسی استثنا کے بغیر مسلسل اس دعوے کے حق میں فیصلہ کرتی آئی ہے۔جب بھی خدا کا کوئی رسول اٹھاتو کچھ لوگوں نے اس کی دعوت کو مانا اور کچھ لوگوں نے اس کا انکار کیا۔ اگر رسول کے پیروؤں کی تعداد اتنی ہوئی کہ وہ ایک منظّم گروہ کی شکل اختیار کر سکے تو اس کو منکرین کے گروہ سے ٹکرایا گیا اور انہیں شکست دے کر ختم کر دیا گیا ،اور اگر رسول کا ساتھ دینے والے بہت کم ہوئے تو خدا نے اپنی غیرمعمولی مدد بھیج کر اس کو غالب کیا۔حجت تمام کرنے کے بعد بالآخر رسول کی زبان سے یہ چیلنج دے دیا گیا:
تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ ۭذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ (11:65)۔یعنی، اپنی بستیوں میں تین دن اور چل پھر لو (اس کے بعد تمھارے لیے زندگی کا کوئی موقع نہیں) یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے۔
چنانچہ خدا کا عذاب اپنے ٹھیک وقت پر آیااور نبی اور اس کے پیروؤں کے سوا سب لوگ ہلاک کر دیے گئے۔اس طرح ہر زمانے میں خدا اپنے رسولوں کو غالب کر کے اس کے دعوے کا صحیح ہونا ثابت کرتا رہا ہے۔یہ گویا تاریخ کی شہادت ہے کہ پچھلی تاریخ میں جن لوگوں نے اپنے آپ کو نمائندہٴ الہٰی کی حیثیت سے پیش کیا وہ واقعی طور پر خدا کے نمائندے تھے اور انسان کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تعلیمات کو اختیار کرے، جو ایسا نہ کرے گا تباہ و برباد ہو جائے گا ، ٹھیک یہی صورت حال خود آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں پیش آئی جن کے متعلق حضرت مسیح کا یہ قول پورا ہوا کہ "جو اس سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا" ۔
تاریخ کی یہ نوعیت ہم کو تاریخ کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرتی ہے تا کہ ہم قرآن کے ان وعدوں کو سمجھ سکیں جو اس نے پچھلی قوموں کے بارے میں کیے ہیں۔مگر اس سلسلے میں ایک بڑی زحمت یہ ہے کہ پچھلی تاریخ اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہیں ہے ،پچھلی صدیوں میں جن لوگوں کے ہاتھوں علوم کا نشوونما ہو ا ہے انہوں نے سائنس اور تاریخ دونوں کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔کائنات کا مطالعہ انہوں نے اس ڈھنگ سے کیا گویا وہ بذاتِ خود کوئی مستقل چیز ہے اور اپنے آپ حرکت کرتی ہے یہ مطالعہ ان کو صرف اس حد تک پہنچاتا ہے کہ " جو ہے وہ کیا ہے" ۔وہ اس کی طرف نشاندہی نہیں کرتا کہ "جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے"۔ اس کے سلسلے میں نہ صرف یہ کہ علماء سائنس خاموشی اختیار کرتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ جو کچھ ہم کومحسوس ہوتا ہے وہی اصل حقیقت ہے اس کے پیچھے کوئی اور حقیقت نہیں ۔کائنات کا حیرت انگیز نظم اور اس کے مختلف اجزاء کا باہمی توافق اس بات کاثبوت نہیں ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بالا تر ذہن کام کر رہا ہے بلکہ یہ محض ایک حسن اتفاق ہے۔اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اسی طرح تاریخ نگاری کا رُخ بھی بالکل دوسرا اختیار کیا گیا ہے۔قدیم تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کے نہایت حیرت انگیز واقعات نظر آتے ہیں زمین کی تہوں سے ایسے نشانات برآمد ہوئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کتنی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں تھیں جو زمین کے نیچے دبادی گئیں۔ مگر ہمارےموٴرخین کے نزدیک ان واقعات کا حق و باطل کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مثلاً مصر کی تاریخ میں فرعون کی غرقابی کا ذکر اس طرح آتا ہے کہ بادشاہ سلامت ایک روز دریا پر نہانے گئے تھے کہ اتفاق سے وہاں ڈوب گئے۔اس طرح سابق مورخین کا نقطہ ٴ نظر اس فلسفہٴ تاریخ سے بالکل مختلف ہے جوقرآن نے پیش کیا ہے۔
غرض سائنس اور تاریخ دونوں کا رُخ موجودہ زمانے میں غلط ہو گیا ہے۔تا ہم جہاں تک پہلی چیز یعنی علوم ِ فطرت کا تعلق ہے، اوّلاً تو تمام سائنسدانوں کا انداز یکساں نہیں ہے، دوسرے ان کے اخذ کر دہ نتائج کو بھی نہایت آسانی کے ساتھ صحیح رُخ کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ان کے سلسلے میں ہمارا کام صرف یہ ہے کہ جن واقعات کو وہ اتفاق یا قانون ِ علّت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،ان کو خدا کے تصّرف کا نتیجہ ثابت کریں۔مگر تاریخ کے سلسلے میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا کیا جائے۔قرآن کے سوا صرف بنی اسرائیل کا مذہبی لٹریچر ہے جو قرآن کے تاریخی نظریے کی تائید کرتا ہے ،اس کے علاوہ غالباً کہیں سے بھی اس کی تائید نہیں ملتی۔اس سلسلے میں قرآن کے طالب علم کو بہت سے کام کرنے ہیں۔مثلاً دوسرے مذاہب کا لٹریچر کا اس حیثیت سے جائزہ لینا کہ وہ قوموں کے عروج و زوال کا کیا فلسفہ پیش کرتا ہے، ان کے یہاں بہت سی غلط روایات شامل ہو گئی ہیں مگر یہ عین ممکن ہے کہ ایسے اشارات اور ایسی بنیادیں مل سکیں جن سے قرآن کے تصور ِ تاریخ کے حق میں استدلالی قرینہ حاصل کیا جا سکے ۔اسی طرح قدیم ترین مورخوں کے یہاں چھان بین کرنی ہے کہ انہوں نے سابقہ اقوام کے حالات میں کیا کچھ بیان کیا ہے، آثار قدیمہ کی کھدائی سے جو نشانات اور کتبات برآمد ہوئے ہیں ان کا جائزہ لے کر دیکھنا ہے کہ ان کے ذریعہ سے قرآن کے فلسفہ تاریخ کی کس حد تک تائید ہوتی ہے۔یہ ایک بہت مشکل کام ہے مگر قرآنی استدلال کے ایک جزءکو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں بھی کچھ کام کیا جائے۔یہ کام ہر طالب قرآن کا نہیں ہے،مگر کچھ لوگوں کو ضرور یہ کام کرنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ ان کی تحقیقات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
علم الحیات کے ماہرین (biologists) کا خیال ہے کہ انسان اپنی موجودہ صلاحیتوں کے ساتھ تقریباً تین لاکھ برس سے اس زمین پر آباد ہے۔مگر ان کو یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ تمام ذہنی صلاحیتوں کے باوجود انسان کی ترقی کی عمر ابھی چند سو سال ہے۔اس سے پہلے ہزاروں ،لاکھوں برس وہ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا رہاا ور پتھر کے چند بے ڈھنگے ہتھیار بنانے کے سوا اس نے کوئی نمایاں ترقی نہ کی۔اس کو اپنے ہتھیاروں کو سیدھی دھار دینے اور آگ کے استعمال کو سیکھنے کے لیے ہزاروں برس درکار ہوئے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اب سے چھ ہزار برس قبل انسان کو وادی نیل میں خود رو جو اگتے ہوئے دکھائی دیے اور اس مشاہدے سے اس نے زراعت کا راز معلوم کیا۔ طریقہ زراعت کے انکشاف اور اس کے اختیار کرنے سے انسان سکونتی زندگی پر مجبور ہوا، اور اس کے بعد تمدّن کی بنیاد پڑی۔مگر یہ انسانی تاریخ کا صحیح مطالعہ نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس زمین پر بار بار نہایت شان دار تمدّن پیدا ہوئے اور مٹا دیے گئے، قومیں ابھریں اور فنا ہو گئیں، پچھلے زمانے میں جب نبیوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔کسی قوم میں نبی کا آنا دراصل اس کے لیے خدا کی عدالت کا قائم ہونا تھا۔تاریخ میں بار بار ایسا ہوا کہ قومیں ابھریں اور انہوں نے بڑے بڑے تمدّن قائم کیے۔
مشہور مورخ سر فلنڈرس (Sir W. M. Flinders Petrie, 1853-1942) نے اپنی کتاب انقلابات ِ تمدّن (The Revolutions of Civilisation) میں لکھا ہے کہ تمدّن ایک مظہر ہے جو متوالی ہے ، یعنی بار بار آتا ہے:
Civilisation is an intermittent phenomenon.
اس نے ثابت کیا ہے کہ پچھلے دس ہزار برسوں میں تقریباً آٹھ "تمدّنی دور" گزرے ہیں۔ہر دور سے قبل ایک زمانہ بربریت کا گزراہے اور اس کے بعد عہدِ زوال آیا ہے۔اس نظریہ تاریخ کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس سے بھی ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے۔
مگر جب نبی آیا اور انہوں نے اس کی اطاعت نہیں کی تو خدا کی عدالت سے ان کے لیے فنا کا فیصلہ ہوا اور وہ اپنے بڑے بڑے شہروں اور قلعوں کے ساتھ تباہ کر دی گئیں۔ دوسر ے دور کے بعد اب یہ عمل قیامت کے دن ہو گا۔ اس وقت ساری دنیا بیک وقت فنا کر کے تمام انسان خدا کی عدالت میں حاضر کیے جائیں گے، اس صورت حال نے قدیم دور میں تمدّن کو ترقی اور بقاء کے وہ مواقع نہیں دیے جن کا موقع بعد کے دور میں حاصل ہوا ہے۔قدیم تاریخ اور جدید تاریخ کے اس پہلو کا علم نہایت ایمان افروز بھی ہے اور قرآنی دلائل کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم بھی۔
(5) اس سلسلے میں آخری چیز جو قرآن کے مطالعہ کے لیے مدگار علم کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بنی اسرائیل کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ ہے جن کا قرآن میں بار بار ذکر آیا ہے۔ قرآن کےمطالعہ کے سلسلے میں صحف ِ بنی اسرائیل کا مطالعہ کرنا، گویا ایک آسمانی کتاب کو سمجھنے کے لیے دوسری آسمانی کتاب سے مدد لینا ہے۔اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ہم کتبِ سابقہ کو بطورِ معیار تسلیم کر رہے ہیں،یہ کتابیں کبھی معیار نہیں بن سکتیں۔اس سے قطع نظر کہ ان میں تحریف ہو چکی ہے اور وہ اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہی ہیں۔یہ واقعہ کہ قرآن آسمان سے اترنے والی آخری کتاب ہے اور بقیہ تمام کتابیں اس سے پہلے کی ہیں۔ صرف یہ حقیقت اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ قرآن ہی کو معیار ہونا چاہیے۔ کسی بادشاہ کا آخری فرمان اس کے سابقہ فرامین کا ناسخ ہوتا ہے، نہ کہ سابقہ فرامین اس کے آخری فرمان کی تنسیخ کرتے ہیں۔جو شخص آخری فرمان کو چھوڑ کر سابقہ فرمان کی پیروی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بھی تو مالک کی طرف سے آیا ہے وہ قطعی طور پر نفس پرستی میں مبتلا ہے، وہ اپنی رائے کی پرستش کر رہا ہے، نہ کہ صاحب فرمان کے حکم کی۔ اس لیے قرآن خدا کی مرضی معلوم کرنے کے لیے آخری سند کی حیثیت رکھتا ہے۔بقیہ کتابوں سے ہم قرآن کا حقیقی مفہوم سمجھنے میں مدد لے سکتے ہیں، مگر ان کو حجت نہیں بنا سکتے۔
مدد لینے کی دو صورتیں ہیں۔ایک تو زبان اور اسلوب بیان کے اعتبار سے۔ دوسرے تعلیمات کے اعتبار سے۔یہ معلوم ہے کہ انجیل اور تورات کی اصل زبان عبرانی ہے اور عربی اور عبرانی دونوں ایک ہی اصل سے نکلی ہیں۔اس لیے قدرتی طور پر دونوں زبانوں میں کافی مشابہت ہے اور ایک زبان دوسری زبان کے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔پھر آسمانی کتابوں کا ایک خاص انداز بیان ہے۔اس طرح کتب مقدسہ کا مطالعہ اس مخصوص طرزِ بیان سے ہم کو واقف کراتا ہے اور اس کی بلاغت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو آسمانی کتابوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ چنانچہ مفسّرین نے قرآن کے بہت سے الفاظ اور بیانات کا مطلب سمجھنے میں کتب سابقہ سے مدد لی ہے اور نہایت مفید معانی تک رسائی حاصل کی ہے۔
دوسری چیز تعلیمات ہیں۔اگر تفصیل اور ضروریاتِ زمانہ کے لحاظ سے جزئی فرق کونظر انداز کر دیا جائے تو یہ ایک واقعہ ہے جو پچھلی کتابوں میں بھی وہی تمام باتیں خدا کی طرف سے نازل کی گئی تھیں جو قرآن کے ذریعے ہم تک بھیجی گئیں ہیں۔اس لیے اپنی اصلی حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کی تائید کرنے والے ہیں، نہ کہ اختلاف کرنے والے ۔کتب سابقہ کی یہی وہ حیثیت ہے جس کی بنا پر وہ مطالعہ قرآن کے لیے ایک مفید ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں، جس طرح قرآن میں ایک ہی مضمون کو مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔اور اس طرح کی کسی ایک آیت کو سمجھنے کے لیے اسی قسم کی دوسری آیت سے مدد ملتی ہے۔ٹھیک اسی طرح خدا کا کلام جو بعد زمانے میں قرآن کی شکل میں آیا ہے،وہ اس سے پہلے بنی اسرائیل کے انبیاء پر مختلف شکلوں میں نازل ہوتا رہا ہے۔اس لیے سابقہ کتب میں خدا کا جو کلام ہے وہ اس کے بعد کے کلام کو سمجھنے میں ایک مددگار کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ قرآن کے مطالعہ کے سلسلہ میں مددگار علوم کا ایک مختصر ذکر ہے۔آخر میں اسی بات کو میں پھر دہراؤں گاجس کو میں شروع ميں کہہ چکا ہوں۔یعنی یہ کہ ان سب سے بڑھ کر جو چیز قرآن سے استفادہ یا فہم قرآن کے لیے ضروری ہے وہ انسان کا اپنا ارادہ ہے۔بقیہ علوم قرآن کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں مگر قرآن کو جذب کرنے کے لیے کسی خارجی علم کی ضرورت نہیں ۔انسان کا اپنا جذبہ طلب ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے وہ قرآن کو جذب کرتا ہے۔قرآن کتابِ ہدایت ہے۔کسی کے ذہن میں قرآن کا اتر جانا دوسرے لفظوں میں یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ اس شخص کو ہدایت حاصل ہوگئی۔اس کو خیر و شر کے دو راستوں میں سے اس راستہ کو اختیار کرنے کی توفیق ملی جو اس کی زندگی کو کامیابی کی طرف لے جانے والا ہے۔اور ہدایت کا ملنا نہ ملنا تمام تر آدمی کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔ہدایت دینے والا خدا ہے۔اس کے سوا کہیں اور سے آدمی ہدایت حاصل نہیں کر سکتا۔مگر خدا کی طرف سے ہدایت اسی کو ملتی ہے جو اس کا طالب ہو۔اس لیے قرآن کا مطالعہ اسی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے اور کسی ایسے ہی شخص کو یہ توفیق ملتی ہے کہ قرآن اس کی زندگی میں داخل ہو جائے جس کو حقیقت کی تلاش ہو، جو واقعی صحیح معنوں میں ہدایت کی طلب رکھتا ہو۔جو اپنے اندر یہ عزم پیدا کر چکا ہو کہ حق اس کو جہاں اور جس شکل میں بھی ملے گا وہ اس کو لے لے گا اور اس سے چمٹ جائے گا۔قرآن کا علم کسی درس گاہ کی سند کے طور پر آدمی کو نہیں ملتا ،نہ کتب خانوں اور لائبریری کی الماریوں سے اس کو ذہن میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔یہ اسی کو ملتا ہے جو حقیقی معنوں میں قرآن کا طالب ہو، جس کے اندر اتنا حوصلہ ہو کہ ہر ذاتی رجحان کے مقابلہ میں حق کو ترجیح دے سکے، جو قرآن کو کتاب الہٰی سمجھ کر اس کا مطالعہ کرے ،اور اس کے مقابلے میں اپنی وہ حیثیت قرار دے جو ایک بندے کی اپنے مالک کے فرمان کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ جب بندہ اپنے آپ کو خالی الذہن کر کے اپنے آپ کو قرآن کا مخاطب بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور قرآن کے مطالب اس کے ذہن میں اترتے چلے جاتے ہیں، جیسے سوکھی زمین میں بارش ہو اور بوند بوند کر کے اس میں جذب ہوتی چلی جائے۔( 1379ھ)