اسلام کا اخلاقی تصور
اخلاقیات کا موضوع مذہب اور فلسفہ دونوں کا مشترک موضوع ہے۔مگر دونوں کے طریق بحث میں ایک بنیادی فرق ہے۔مذہب اخلاقی اصولوں کو بطور خدائی حکم کے پیش کرتا ہے۔جب کہ فلسفہ "کیا" کے ساتھ "کیوں" کے سوال کی تحقیق بھی کرنا چاہتا ہے۔یعنی یہ کہ ایک چیز اخلاقی طور پر درست ہے تو وہ کیوں درست ہے۔اسی طرح ایک چیز اخلاقی طور پر نا درست ہے تو کیوں نا درست ہے۔
اس اختلاف نے دونوں کے درمیان ایک عظیم فرق پیدا کر دیا ہے۔وہ یہ ہے کہ مذہب میں اخلاق ایک معلوم اور متعین چیز کا نام ہے جس میں بنیادی طور پر کسی اختلاف کی گنجائش نہیں۔اس کا خدا کا حکم ہونا اس کو ایک قطعی صورت دے دیتا ہے۔اس کے برعکس، فلسفہ میں چوتھی صدی قبل مسیح کے یونانی فلسفیوں سے لے کر بیسویں صدی کے جدید مغربی فلسفيوں تک لا متناہی بحثیں جا ری ہیں اور آج تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ انسانی عمل کے لیے اخلاقی معیار (criteria of ethics)کیا ہونا چاہیے۔ہر فلسفی نے اپنا ایک مدرسہٴ فکر بنا دیا مگر وہ دنیا کو کوئی مسلّمہ اصول اخلاق نہ دے سکا۔
ہمارا نقطہ نظریہ ہے انسانی محدودیتیں (limitations) اس میں حائل ہیں کہ انسان " کیوں" کے سوال کو حل کر سکے۔چنانچہ ہم نے فلسفیانہ بحثوں کے بجائے عملی نقطہٴ نظر اختیار کیا ہے۔اس مقالہ میں ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام میں اخلاق کا جو اصولی اور بنیادی تصور دیا گیا ہے اس کو سادہ انداز میں بیان کریں۔