مثال کے طور پر بائبل کو لیجیے۔بائبل اپنی ابتدائی حالت میں خدا کا کلام تھی۔مگر بعد کو اس میں انسانی ملاوٹ ہوئی۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس میں کثرت سے داخلی تضادات پیدا ہو گئے ،بائبل کا وہ حصہ جس کو انجیل یا نیا عہد نامہ کہا جاتا ہے اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نسب نامہ دیا گیا ہے۔یہ نسب نامہ متی کی انجیل میں اس طرح شروع ہوتا ہے ―
یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابر ہام کا نسب نامہ(متی،1:1)
یہ مختصر نسب نامہ ہے۔اس کے بعد انجیل میں مفصل نسب نامہ ہے جو حضرت ابراہیم سے شروع ہوتا ہے۔اور آخر میں "یوسف" پر ختم ہوتا ہے جواس کے بیان کے مطابق مریم کے شوہر تھے جن سے حضرت مسیح پیدا ہوئے(متی،1:2-16)۔
اس کے بعد قاری مرقس کی انجیل تک پہنچتا ہے تو وہاں کتاب کے آغاز میں حضرت مسیح کا نسب نامہ ان لفظوں میں ملتا ہے:
"یسوع مسیح ابن خدا"(مرقس،1:1)
گویا انجیل کے ایک باب کے مطابق حضرت مسیح یوسف نامی ایک شخص کے فرزندتھے، اور اسی انجیل کے دوسرے باب کے مطابق حضرت مسیح ابن خدا (خدا کے بیٹے) تھے۔
انجیل اپنی ابتدائی صورت میں یقیناً خدائی کلام تھی اور تضادات سے پاک تھی۔مگر بعد کو اس میں انسانی کلام شامل ہو گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بیانات میں تضاد پیدا ہو گیا۔
انجیل کے اس تضاد کی تاویل کلیسا نے ایک اور عجیب و غریب تضاد سے کی ہے۔ چنانچہ انسا ئیکلوپیڈیا بر ٹانیکا (1984) کے مطابق وہ مذکورہ یوسف کے لیے حسب ذیل الفاظ استعمال کرتے ہیں― مسیح کا ارضی باپ،کنواری مریم کا شوہر: