خدائی اہتمام

یہود کو خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ تورات کی حفاظت کریں :بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ (5:44)۔اس کے برعکس، قرآن  کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(15:9)۔ ہم نے قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلی آسمانی کتابوں کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ان کی قوموں پر ڈالی گئی تھی،جب کہ قرآن کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔پچھلی آسمانی کتابیں بھی اسی طرح خدا کی کتاب تھیں جس طرح قرآن خدا کی کتاب ہے۔مگر فرق یہ ہے کہ پچھلی آسمانی کتابوں کے حامل ان کتابوں کی حفاظت کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کر سکے۔یہ کتابیں اپنی اصلی صورت میں باقی نہ رہیں۔مگر قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی تھی اس لیے قرآن خدا کی خصوصی مددسے مکمل طور پر محفوظ رہا۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان سے خدا کے فرشتے اتریں گے اور وہ قرآن کو اپنے سایہ میں لیے رہیں گے۔موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں اخروی حقیقتوں کو غیب میں رکھا گیا ہے۔اس لیے یہاں کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ فرشتے سامنے آکر قرآن کی حفاظت کرنے لگیں۔موجودہ دنیا میں اس قسم کا کام ہمیشہ معمول کے حالات میں کیا جاتا ہے، نہ کہ غیر معمولی حالات میں۔یہاں قرآن کی حفاظت کا کام تاریخی اسباب اور چلتے پھرتے انسانوں کے ذریعہ لیا جائے گا تا کہ غیب کا پردہ باقی رہے۔واقعات بتاتے ہیں کہ خدا نے اپنے وعدہ کو پوری تاریخ میں نہایت اعلیٰ پیمانے پر انجام دیا ہے۔اس مقصد کے لیے اس نے مختلف قوموں سے مدد لی ہے۔نیز اس کام میں مسلمانوں کو بھی استعمال کیا گیا ہے اور غیر مسلموں کو بھی۔

 پچھلے انبیاء کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کو بہت کم ایسے ساتھی ملے جو ان کے بعد ان کی کتاب کی حفاظت کی مضبوط ضمانت بن سکتے۔مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ نمایاں طور پر دوسرے انبیاء سے مختلف ہے۔وفات سے تقریباً ڈھائی ماہ پہلے آپ نے حج کیا جس کو حجۃالوداع کہا جاتا ہے۔اس موقع پر عرفات کے میدان میں ایک لاکھ چالیس ہزار مسلمان موجود تھے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر وقت تک آپ کے اوپر ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کی کل تعداد کم از کم پانچ لاکھ ہو چکی ہو گی۔یہ تعداد قدیم انسانی آبادی  کے لحاظ سے بہت غیر معمولی ہے۔آپ  کے  بعد  یہ  تعداد  بڑھتی  رہی  ۔یہاں  تک  کہ  ملک  کے  ملک  مسلمان  ہوتے  چلے  گئے۔اس طرح قرآن کی حفاظت  کی پشت پر اتنا بڑا انسانی گروہ اکٹھا کر دیا گیا جو اس سے پہلے کسی آسمانی کتاب کی حفاظت کے لیے اکٹھا نہیں ہوا تھا۔

اس کے بعد دوسرا مددگار واقعہ یہ ظہور میں آیا کہ عرب اور عرب کے باہر مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ سلسلہ یہاں تک پھیلا کہ قدیم آباد دنیا کے بیشتر حصہ پر مسلمان قابض ہو گئے اور انہوں نے دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے مضبوط سلطنت قائم کی۔یہ سلطنت کسی طاقت سے مغلوب ہوئے بغیر مسلسل قائم رہی اور قرآن کی حفاظت کرتی رہی۔یہ سلسلہ ایک ہزار سال تک جاری رہا۔یہاں تک کہ زمانہ پریس کے دور میں  پہنچ گیا اور قرآن کے ضائع ہونے کا امکان سرے سے ختم ہو گیا۔

پریس کے دور میں یہ ممکن ہو گیا کہ کسی کتاب کا ایک نسخہ لکھا جائے اور اس کو چھاپ کر ایک ہی قسم کے کروڑوں نسخے تیار کر لیے جائیں۔مگر پہلے ایسا ممکن نہ تھا۔قدیم زمانے میں کتاب کا ہر نسخہ الگ الگ ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔اس کی وجہ سے اکثر ایک نسخہ اور دوسرے نسخے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جاتا تھا۔چنانچہ قدیم کتابوں میں سے جو کتاب بھی آج دنیا میں پائی جاتی ہے اس کے مختلف قلمی نسخوں میں سے کوئی بھی  دو   نسخہ ایسا نہیں جو فرق سے خالی ہو۔یہ صرف قرآن ہے جس کے لاکھوں نسخے قدیم زمانے میں ہاتھ سے لکھ کر تیار کیے گئے ۔ان کی ایک بڑی تعداد  آج بھی میوزیم اور کتب خانوں میں موجود ہے۔مگر ایک قلمی نسخے اور دوسرے قلمی نسخے میں کوئی ادنٰی فرق نہیں پایا جاتا ۔یہ خدا کی خصوصی مدد تھی جس نے قرآن کے بارے میں مسلمانوں کو اتنا زیادہ مستعداور حساس بنا دیا۔

اسی کے ساتھ خدا نے یہ انتظام کیا کہ قرآن کے حفظ (رٹ کر اس کے متن کو یاد کرنے)کا نادر طریقہ شروع ہوا جو اس سے پہلے معلوم تاریخ میں کبھی کسی کتاب کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔ ہزاروں  لاکھوں لوگوں کے دل میں یہ جذبہ ابھر آیا کہ وہ قرآن کے متن کو شروع سے آخر تک یاد کریں اور یاد رکھیں۔اس طرح کے افراد تاریخ کے ہر دور میں ہزاروں کی تعداد میں پیدا ہوتے رہے۔یہ سلسلہ قرآن کے زمانے سے شروع ہو کر آج تک جاری ہے۔معلوم تاریخ کے مطابق دنیا میں کوئی بھی دوسری کتاب نہیں ہے جس کے ماننے والوں نے اس طرح اس کو یاد کرنے کا اہتمام کیا ہو جس طرح قرآن کے ماننے والے ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔قرآن کو یاد کرنے کے رواج نے اس کی حفاظت کے اس انوکھے انتظام کو ممکن بنا دیا، جس کو ایک فرانسیسی مستشرق نے دہرا جانچ (double checking) کا طریقہ کہا ہے۔یعنی ایک لکھے ہوئے نسخے سے ملانا اور اسی کے ساتھ حافظہ کی مدد سے اس کی صحت کو جانچتے رہنا۔

ڈیڑھ ہزار برس کی اسلامی تاریخ میں یہ جو کچھ ہوا خدا کی طرف سے ہوا۔امتحانی حالات کو باقی رکھنے کے لیے اگرچہ اس کو اسباب کے پردہ میں انجام دیا گیا ہے۔تا ہم جب قیامت آئے گی اور تمام حقیقتیں برہنہ کر دی جائیں گی، اس وقت لوگ دیکھیں گے کہ عرب کے اسلامی انقلاب سے لے کر دور پریس کے نئے حفاظتی طریقوں تک سارے کام   خدا خود براہِ راست انجام دیتا تھا۔ اگرچہ ظاہری طور پر وہ کچھ ہاتھوں کو اس کا ذریعہ بناتا رہا۔

قرآن کے بارے میں خدا کے اس خصوصی انتظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جس کا تعلق مخصوص طور پر مسلمانوں سے ہے۔قرآن کے الفاظ کی حفاظت جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہو رہی ہے یہی دراصل وہ چیز نہیں ہے جو قرآن کے سلسلے میں اللہ کو ہم سے مطلوب ہو۔یہ کام تو خدا کے براہِ راست اہتمام میں ہو رہا ہے،پھر ہمارا اس میں کیا کمال۔جو لوگ اس حفاظتی کام میں مشغول ہیں وہ اپنے اخلاص کے بقدر اپنا معاوضہ پائیں گے۔مگر یہی امت مسلمہ کی اصل ذمہ داری نہیں ہے۔یہ کام خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ اور کتنے ہی بڑے پیمانے پر کیا جائے،اس سے ہماری اصل ذمہ داری ساقط نہیں ہو سکتی۔

حقیقت یہ ہے کہ پچھلی قوموں کا امتحان حفاظت متن میں تھا، امت مسلمہ کا امتحان حفاظت ِ معانی میں ہے۔پچھلے زمانوں میں جو لوگ کتاب خدا وندی کے حامل بنائے گئے ان کی آزمائش معانی کی حفاظت کے ساتھ یکساں طور پر متن کی حفاظت میں بھی تھی۔مگر مسلمانوں کی آزمائش سب سے بڑھ کر معانی کی حفاظت میں ہے۔مسلمانوں کو قرآن کے سلسلے میں جس چیزکا ثبوت دیناہے وہ یہ کہ وہ قرآن کی تشریح و تعبیر میں فرق نہ کریں۔ قرآن میں جس چیز کو جس درجہ میں رکھا گیا ہے اس کو اسی درجہ میں رکھیں۔وہ قرآن کے نشانے میں کوئی تفسیری تبدیلی نہ کریں۔قرآن کو دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہوئے وہ اسی اصل بات کو پیش کریں جو خود قرآن میں عربی زبان میں اتاری گئی ہے، نہ کہ اپنی خودساختہ تشریحات کے ذریعہ ایک نیا دین بنائیں اور اس کو قرآن کے نام پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگیں۔

مسلمانوں کا قرآن کا حامل بننے میں ناکام ہونا یہ ہے کہ وہ قرآن کو برکت اور ثواب کی کتاب بنا دیں اور اپنے دین کی گاڑی عملاًدوسری بنیادوں پر چلنے لگیں۔کوئی مسائل کے نام پر سر گرمی دکھانے لگے اور کوئی فضائل کے نام پر۔کوئی بزرگوں کے ملفوظات اورکہانیوں کو دین کی بنیاد بنالے اور کوئی جلسوں اور تقریروں کی دھوم مچانے کو۔کوئی قرآن کو اپنی سیاسی تحریک کا ضمیمہ بنا لے اور کوئی اپنے قومی ہنگاموں کا۔قرآن کے نام پر یہ تمام سرگرمیاں قرآن کے معانی میں تحریف کا درجہ رکھتی ہیں۔مسلمان اگر قرآن کے معانی کے ساتھ اس قسم کا معاملہ کر  رہے ہوں تو  وہ   صرف اس بنا پر خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے کہ قرآن کے الفاظ کی حفاظت اور تکرار میں انھوں نے کمی نہیں کی تھی۔

اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کتاب الہٰی کی حامل دوسری قوموں کو جو سزا متن کتاب  کی تبدیلی پر دی گئی، وہ سزا مسلمانوں کو معانی کتاب کی تبدیلی پر ملے گی۔ مسلمانوں کا اصل امتحان جہاں ہو رہا ہے وہ یہی ہے۔اگر وہ کتاب اللہ کے معانی کو اپنی خود ساختہ تعبیرات سے بدل ڈالیں تو وہ صرف اس لیے خدا کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے کہ انھوں نے کتاب کے متن میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔کیونکہ امتحان آدمی کے اپنے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے۔اور مسلمانوں کو جہاں اختیار حاصل ہے وہ قرآن کے معانی میں تبدیلی ہے، نہ کہ قرآن کے متن میں تبدیلی۔متن قرآن میں تبدیلی سے تو خدا نے تمام قوموں کو عاجز کر رکھا ہے،پھر وہاں کسی کا امتحان کس طرح ہو گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom