یہ مذہبی کلام میں داخلی تضاد کی مثال تھی۔اب غیر مذہبی کلام میں داخلی تضاد کی مثال لیجئے۔یہاں میں کارل مارکس کا حوالہ دوں گا۔موجودہ زمانے میں کارل مارکس کی ذہنی عظمت کا حال یہ ہے کہ امریکی پروفیسر جان گال بریتھ نے مارکس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے:
If we agree that the Bible is a work of collective authorship, only Mohammad rivals Marx in the number of prefessed and devoted followers recruited by a single author. And the competition is not really very close. The followers of Marx now far outnumber the sons of the Prophet.
Jhon Kenneth Galbraith, The Age of Uncertainty, BBC, London, p. 77.
اگر ہم یہ مان لیں کہ بائبل کئی اشخاص کی مشترکہ تصنیف ہے تو صرف محمد وہ دوسرے واحد مصنف ہیں جو معتقدین اور پیرؤوں کی تعداد کے اعتبار سے مارکس کی برابری کر سکتے ہیں۔پھر مقابلہ زیادہ قریب قریب کا نہیں۔مارکس کے پیرؤوں کی تعداد آج پیغمبر کے پیرؤوں کی تعداد سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔
مگر ساری مقبولیت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ مارکس کا کلام داخلی تضاد کا شاہکار ہے۔مارکس کے فکر میں اتنے زیادہ تضادات پائے جاتے ہیں کہ اس کے خیالات کو مجموعہ اضداد کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔
مثال کے طور پر مارکس نے دنیا کی تمام خرابیوں کا سبب سماج میں طبقات کا ہونا بتایا ہے۔یہ طبقات اس کے نزدیک انفرادی ملکیت کے نظام کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ایک طبقہ (بورژوایا سرمایہ دار) ذرائع پیداوار قابض ہو کر دوسرے طبقہ (محنت کش طبقہ) کو لوٹتا ہے۔
اس کا حل مارکس نے یہ تجویز کیا کہ سرمایہ دار طبقہ سے اس کی ملکیتیں چھین لی جائیں اور ان کو مزدور طبقہ کے زیر انتظام دیدیا جائے۔اس کاروائی کو وہ بے طبقاتی سماج (Classless Society) قائم کرنے کا نام دیتا ہے۔مگر یہ کھلی ہوئی تضاد فکری ہے۔ کیونکہ مذکورہ کاروائی سے جو چیز وقوع میں آئے گی وہ بے طبقاتی سماج نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ معاشی ذرائع پر ایک طبقے کا قبضہ ختم ہوکر دوسرے طبقے کا قبضہ شروع ہو جائے۔یہ طبقات کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف طبقات کی تبدیلی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ پہلے یہ قبضہ ملکیت کے نام پر تھا اوراب یہ قبضہ انتظام کے نام پر ہو گا۔وہ چیز جس کو مارکس بے طبقاتی سماج کہتا ہے وہ عملاً سرمایہ دارطبقے کی ملکیت کو ختم کرکے کمیونسٹ طبقہ کی ملکیت قائم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
مارکس ایک ہی چیز کو ایک جگہ برائی کہتا ہے اور دوسری جگہ بھلائی ۔مگر سرمایہ داروں کے خلاف شدید نفرت اور تعصب کی وجہ سے اس کو اپنا یہ فکری تضاد دکھائی نہیں دیا۔وہ ذرائع معاش کو سرمایہ داروں کے بجائے عہدیداروں کے قبضہ میں دے رہا تھا۔مگر اپنے متعصبانہ اندھے پن کی وجہ سے وہ اپنے اس تضاد کو محسوس نہ کر سکا ۔ایک نوعیت کے دو واقعات میں سے ایک واقعہ کو اس نے انفرادی لوٹ کہا اور دوسرے کو اجتماعی تنظیم۔
قرآن اس قسم کے داخلی تضاد سے مکمل طور پر خالی ہے۔اس کا کوئی بیان اس کے دوسرے بیان سے نہیں ٹکراتا۔قرآن کے تمام بیانات میں کامل قسم کی داخلی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔