قدیم عرب میں ایک رواج یہ تھا کہ بعض اوقات کوئی شخص اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دیتا تھا کہ افراد خاندان زیادہ ہو جائیں گے تو ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام نہ ہو سکے گا۔اس سلسلے میں قرآن میں یہ حکم اترا:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ نَحۡنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا (17:31) ۔اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم ان کو بھی روزی دیں گے اور تم کو بھی۔بے شک ان کو مار ڈالنا ایک بڑی غلطی ہے۔
یہ اعلان گویا ایک قسم کا دعویٰ تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مستقبل میں آبادی کا کوئی بھی اضافہ زمین پر رزق کی تنگی کامسئلہ پیدا نہیں کرے گا۔انسانی تعداد کے مقابلے میں غذائی اشیاء کا تناسب ہمیشہ موافق طور پر بر قرار رہے گا جس طرح آج سب کو ان کی روزی مل رہی ہے اسی طرح آئندہ بھی سب کو ان کی روزی ملتی رہے گی۔
مسلمان ہر دور میں اعتقادی طور پر اس اعلان کی صداقت کو مانتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں کبھی بھی وہ ذہن پیدا نہیں ہوا جس کو موجودہ زمانے میں تحدید نسل یا برتھ کنٹرول کہتے ہیں۔وہ خدا کی رزاقی پر بھروسہ کرتے ہوئے رزق کے معاملےکو خدا پر چھوڑتے رہے ہیں۔مگر اس اعلان کے ایک ہزار سال بعد انگریز ماہر معاشیات رابرٹ مالتھس (1834-1766) میں پیدا ہوا۔1798 میں "اصول آبادی" پر اس کی مشہور کتاب چھپی جس کا پورا نام یہ ہے :
An Essay on the Principle of Population as It Affects the Future Improvement of Society.
مالتھس نے اپنی مشہور کتاب میں وہ مشہور نظریہ پیش کیا جس کا خلاصہ اس کے الفاظ میں یہ تھا :
Population when unchecked increases in a geometrical ratio. Subsistence only increases in an arithmetical ratio.
آبادی ، جب کہ وہ بے قید طور پر چھوڑ دی جائے، جیومیٹری کے تناسب سے بڑھتی ہے۔اشیاء خوراک صرف ارتھیمٹک کے تناسب سے بڑھتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اضافہ اور غذائی اشیاء کا اضافہ قدرتی طور پر یکساں نہیں ہے۔انسانی آبادی کا اضافہ 1۔2۔4۔8۔16۔32۔64 کے تناسب سے ہوتا ہے۔اس کے برعکس، غذائی اشیاء میں اضافہ کا تناسب 1۔2۔3۔4۔5۔6۔7۔8۔ رہتا ہے۔یعنی انسانی آبادی میں اضافہ نہایت تیز رفتار ہوتا ہے اور غذائی اشیاء میں اضافہ نہایت سست رفتار۔اس بنا پر مالتھس نے کہا کہ زمین پر انسانی نسل کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پیدائش پر کنٹرول قائم کیا جائے۔انسان کی تعداد کو ایک خاص حدسے آگے بڑھنے نہ دیا جائے۔ورنہ بہت جلد ایسا ہو گا کہ آبادی اور غذائی اشیاء میں غیر متناسب اضافہ کی وجہ سے فاقہ کا دور شروع ہو جائے گا اور بے شمار انسان بھوک سے مرنے لگیں گے۔
مالتھس کی اس کتاب نے دنیا کی فکر پر زبردست اثر ڈالا۔اس کی تائید میں بے شمار لکھنے اور بولنے والے پیدا ہو گئے۔یہاں تک کہ ساری دنیا میں برتھ کنٹرول اور فیملی پلاننگ کی کوششیں شروع ہو گئیں۔مگر اب محققین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس کا اندازہ سراسر غلط تھا۔ مسٹر گوائن ڈائر (Gwynne Dyer)نے ان تحقیقات کا خلاصہ ایک مقالے کی صورت میں شائع کیا ہے۔اس مقالے کا عنوان با معنی طور پر یہ ہے ― مالتھس جھوٹا پیغمبر:
Malthus: The False Prophet
مقالہ نگار جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
It is the 150th anniversary of Malthus's death and his grim predictions have not yet come true. The world's population has doubled and redoubled in a geometrical progression as he fore saw. only slightly checked by wars and other catastrophes, and now stands at about eight times the total when he wrote. But food production has more than kept pace and the present generation of humanity is on average the best fed in history. (Hindustan Times, 28th Dec 1984)
مالتھس کی موت کو اب 150 سال گزر چکے ہیں اور اس کی سنگین پیشن گوئیاں ابھی تک پوری نہیں ہوئیں۔دنیا کی آبادی جیومیٹری کے حساب سے دوگنی اور چو گنی ہو گئی جیسا کہ اس نے کہا تھا ، اس میں جنگوں اور حوادث کی وجہ سے بس تھوڑا سا فرق پڑا ہے۔ جب مالتھس نے اپنی کتاب لکھی تھی اس وقت کی آبادی کے مقابلے میں آج کی دنیا کی آبادی تقریباً آٹھ گنا ہو چکی ہے۔مگر غذائی پیداواربھی کچھ اضافہ کے ساتھ ساتھ قدم بقدم چلتی رہی ہے۔اور انسان کی موجودہ نسل کو اوسط طور پر تاریخ کی سب سے بہتر غذا مل رہی ہے۔(ہندوستان ٹائمس 28 دسمبر 1984)
رابرٹ مالتھس "روایتی زراعت" کے دور میں پیدا ہوا۔وہ اس کا اندازہ نہ کر سکا کہ جلد ہی "سائنٹفک زراعت" کا دور آنے والا ہے جس کے بعدپیداوار میں غیر معمولی اضافہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔پچھلے ڈیڑھ سو سال میں زراعت کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں ہوئی ہیں اب ایسے منتخب بیج بوئے جاتے ہیں جو زیادہ فصل دینے والے ہوں۔یہی معاملہ مویشیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔کھیتوں کو زرخیز کرنے کے مزید طریقے دریافت ہو گئے ہیں۔نئی نئی کھادیں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگی ہیں۔مشین کی مدد سے ان مقامات پر کھیتی ہونے لگی ہے جہاں پہلے کھیتی کرنا نا ممکن نظر آتا تھا۔آج ترقی یافتہ ملکوں میں کسانوں کی تعداد میں 90 فی صد تک کمی کرنے کے باوجود زرعی پیداوار کو دس گنا تک بڑھا لیا گیا ہے،وغیرہ۔
تیسری دنیا ( غیر ترقی یافتہ ممالک) کا جو رقبہ ہے اس کے لحاظ سے اس میں 33 بلین انسانوں کی آبادکاری کی گنجائش ہے جب کہ اس کی موجودہ آبادی صرف 3 بلین ہے۔تیسری دنیا امکانی طور پر اپنی موجودہ آبادی کی دس گنا تعداد کو خوراک مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) نے اندازہ لگایا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کی آبادی اگر بے قید طور پر بڑھتی رہے اور 2000ء میں چار بلین سے زیادہ ہو جائے تب بھی کوئی خطرہ کی بات نہیں ۔کیونکہ اندازہ کے مطابق ،اس وقت جو آبادی ہو گی اس سے ڈیڑھ گنا آبادی کو خوراک مہیا کرنے کے ذرائع پھر بھی تیسری دنیا کے علاقے میں موجود ہوں گے۔
خوراک میں یہ اضافہ جنگلوں کو کاٹے بغیر ممکن ہو سکے گا۔اس لیے حقیقت یہ ہے کہ نہ تو عالمی سطح پر کسی غذائی بحران کا کوئی حقیقی اندیشہ ہے اور نہ علاقائی سطح پر۔مسٹر گوائن ڈائر نے اپنی رپوٹ ان الفاظ پر ختم کی ہے:
Malthus was wrong. We are not doomed to breed ourselves into famine.
مالتھس غلطی پر تھا، ہمارے لیے یہ مقدر نہیں کہ ہماری اگلی نسلیں قحط میں پیدا ہوں۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مالتھس کی کتاب "اصول آبادی " انسانی ذہن کی پیداوار تھی جو زبان و مکان کے اندر رہ کر سوچتا ہے۔اس کے برعکس قرآن ایک ایسے ذہن سے نکلا ہوا کلام ہے جو زمان و مکان سے بلند ہو کر سوچنے کی طاقت رکھتا ہے۔یہی فرق اس بات کا سبب ہے کہ مالتھس کا کلام خارجی حقیقت سے ٹکرا گیا اور قرآن آخری حد تک خارجی حقیقتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔قرآن کے بیان اور خارجی واقعہ میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔