ابدی صداقت
حضرت موسیٰ 15 ویں صدی قبل مسیح میں مصر میں پیدا ہوئے۔ان کو خدا نے اپنا پیغمبر مقرر کیا۔اس وقت مصر میں ایک مشرک خاندان کی حکومت تھی جو اپنے آپ کو فراعنہ کہتے تھے۔حضرت موسیٰ کا سابقہ اس خاندان کے دو بادشاہوں سے پیش آیا۔ایک وہ جس کو خدا نے بچپن میں آپ کی پرورش کا ذریعہ بنایا۔دوسرا وہ جس سے آپ کا مقابلہ پیش آیا۔
حضرت موسیٰ نے جب فرعون مصر کے سامنے حق کا پیغام پیش کیا تو وہ آپ کا مخالف ہو گیا۔ حضرت موسیٰ نے عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ دکھایا تو اس نے کہا کہ یہ جادو ہے اور ایسا جادو ہم بھی دکھا سکتے ہیں۔فرعون نے حکم دیا کہ اگلے قومی میلہ کے موقع پر مصر کے تمام جادوگروں كو اکٹھا کیا جائے۔وہ اپنے جادو کے کمالات دکھا کر موسیٰ کے معجزے کو باطل ثابت کریں۔چنانچہ مقرر وقت پر ملک کے تمام جادو گر اکٹھا ہو گئے۔حضرت موسیٰ جب میدان میں آئے تو اس وقت انہوں نے ایک تقریر کی۔اس تقریر کا ایک حصّہ یہ تھا:
قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ (10:81-82)۔موسیٰ نے جادو گروں سے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو وہ جادو ہے۔اللہ اس کو یقیناً باطل کر دے گا۔بیشک اللہ مفسدین کے کام بننے نہیں دیتا۔اور اللہ اپنے کلمات سے حق کو حق ثابت کر دیتا ہے،اگرچہ مجرم لوگوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
حضرت موسیٰ نے اس وقت جو کچھ کہا وہ دراصل پیغمبر کی زبان سے خدا کے ابدی فیصلہ کا اعلان تھا۔موجودہ دنیا میں امتحان کی آزادی ہے۔اس لیے یہاں ہر باطل کو ابھرنے کا موقع مل جاتا ہے۔مگر یہ ابھار ہمیشہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے دنیا کا نظام اتنا کامل اور معیاری ہے کہ وہ زیادہ دیر تک باطل کو قبول نہیں کرتا۔وہ ہر خلاف ِحق بات کو ایک عرصہ کے بعد رد کر دیتا ہے۔اور بالآخر جو چیز باقی رہتی ہے وہ وہی ہوتی ہے جو حق ہے۔
خدا کے اس قانون کا ظہور پچھلے زمانے میں بھی ہوا اور موجودہ زمانے میں بھی ہو رہا ہے۔حضرت موسیٰ کے زمانے میں معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو باطل ثابت کیا گیا تھا۔پچھلے زمانوں میں یہ واقعہ بار بار ایک یا دوسری شکل میں پیش آتا رہا ہے۔موجودہ زمانے میں خود علم انسانی کے ذریعہ خدا نے اس مقصد کوحاصل کیا ہے۔نزولِ قرآن کے بعد کے دور میں اس سلسلہ میں جو کچھ ہونے والا تھا اس کا ذکر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (5341:)۔ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی،یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ (قرآن) حق ہے۔کیا تمھارے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کا شاہد ہے۔
مفسر ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے:
سَنُظْهِرُ لَهُمْ دَلَالَاتِنَا وَحُجَجَنَا عَلَى كَوْنِ الْقُرْآنِ حقا منزلا من عند اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم بِدَلَائِلَ خَارِجِيَّةٍ (تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ187)۔عنقریب ہم قرآن کے حق اور اللہ کی طرف سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ ہونے کو خارجی دلائل اور براہین کے ذریعہ ان کے لیے ظاہر کر دیں گے۔
قرآن کی مذکورہ آیت کو ابدی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔یہ گویا ایک ایسی ہستی بول رہی ہے جس کے سامنے وقت کے انسان بھی ہیں اور مستقبل میں پیدا ہونے والے انسان بھی ― یہ آیت وقت کے مخاطبین کے ساتھ اگلی نسلوں کو سمیٹتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ آج جو بات علم وحی کی بنیاد پر کہی جا رہی ہے، وہ آئندہ خود علمِ انسانی کے زور پر صحیح ثابت ہوگی۔جو چیز آج خبر ہے وہ کل واقعہ بن جائے گی۔
قرآن کی یہ پیشگی خبر بعد کے دور میں نہایت کامل طور پر صحیح ثابت ہوئی ہے۔قدیم زمانے میں جادوگروں نے حق کے مقابلے میں جادو کو کھڑا کیا تو خدا نے اس کو ڈھادیا۔موجودہ زمانے میں علم کے زور پر الحاد و انکار کا دعویٰ کھڑا کیا تو اس کو بھی خدا نے ہباءً منثورا ًبنا دیا۔اسی طرح جس نے بھی کوئی چیز حق کے خلاف کھڑی کی وہ ہمیشہ ڈھا دی گئی۔قدیم زمانے سے لیکر حال کے دور تک کبھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔خدا کا کلام اپنی صداقت کو مسلسل بلا انقطاع باقی رکھے ہوئے ہے۔