اس کی ایک مثال حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ ہے۔ڈارون (1882-1809) اور دوسرے سائنسدانوں نے دیکھا کہ زمین پر جو مختلف انواع حیات موجود ہیں ان میں ظاہری اختلافات کے باوجود حیاتیاتی نظام کے اعتبارسے کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔مثلاً گھوڑے کا ڈھانچہ اگر کھڑا کیا جائے تو وہ انسان کے ڈھانچے سے ملتا جلتا نظر آئے گا۔
اس قسم کے مختلف مشاہدات سے انہوں نے یہ نظریہ قائم کر لیا کہ انسان کوئی علاحدہ نوع نہیں۔انسان اور حیوان دونوں ایک ہی مشترکنسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ رینگنے والے جانور اور چوپائے اور بندر سب حیاتیات کے سفر ارتقاء کی پچھلی کڑیاں ہیں۔ اورانسان اس سفر ارتقاء کی اگلی کڑی ہے۔
یہ نظر یہ ایک سو سال تک انسانی ذہن پر حکمران رہا۔مگر بعدکو مزید مطالعہ نے بتایا کہ وہ کائنات کے مجموعی نظام سے ٹکرا رہا ہے۔وہ اس کے اندر درست نہیں بیٹھتا۔
مثال کے طور پر سائنسی طریقوں کے استعمال سے اب یہ معلوم ہوگیا ہے کہ زمین کی عمر کیا ہے۔چنانچہ اندازہ کیا گیا ہے کہتقریباً دو ہزار ملین سال پہلے زمین وجود میں آئی۔یہمدّت ڈراون کے مفروضہ ارتقاء کو ظہور میں لانے کے لیے انتہائی حد تک نا کافی ہے۔ سائنس دانوں نے حساب لگا کر اندازہ کیا ہے کہ صرف ایک پروٹینی سالمہ کے مرکب کو ارتقائی طور پر وجود میں لانے کے لیے سنکھ مہا سنکھ ملین سال سے بھی زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔پھر صرف دو ہزار ملین سال میں زمین کی سطح پر مکمل اجسام رکھنے والے حیوانات کی دس لاکھ سے زیادہ قسمیں کیسے بن گئیں اور نباتات کی دو لاکھ سے زیادہ تکمیل یا فتہ قسمیں کیوں کر وجود میں آگئیں۔اس قلیل مدت میں تو ایک معمولی حیوان بھی نہیں بن سکتا۔کجا کہ مفروضہ ارتقاء کے مطابق لا تعداد مراحل سے گزر کر انسان جیسی اعلیٰ نوع ظہور میں آ جائے۔
نظریہ ارتقاء حیاتیاتی عمل میں جن نوعی تبدیلیوں کو فرض کرتا ہے ان کے متعلق ریاضیات کے ایک عالم پاچو (Patau) نے حساب لگایا ہے۔اس کے مطابق کسی نوع میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کو مکمل ہونے کے لیے دس لاکھ پشتوں کی مدت درکار ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ اگر مفروضہ ارتقائی عمل کے ذریعے کتے جیسی نسل میں ان گنت تبدیلیوں کے جمع ہونے سے گھوڑے جیسا بالکل مختلف جانور بنے تواس کے بننے میں کس قدر زیادہ لمبا عرصہ درکار ہوگا۔
اس مشکل کو حل کرنے کے لیے وہ نظر یہ وضع کیا گیا جس کو پینس پرمیا (Panspermia) کا نظریہ کہا جاتا ہے ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ زندگی ابتداءً زمین کے باہر بالائی خلا میں کسی مقام پر پیدا ہوئی اور وہاں سے سفر کر کے زمین پر آئی ۔ مگر تحقیق نے بتایا کہ اس کو ماننے میں اور بھی زیادہ بڑی بڑی مشکلیں حائل ہیں ۔ زمین کے علاوہ وسیع کائنات کے کسی بھی ستارہ یا سیارہ پر وہ اسباب موجود نہیں ہیں جہاں زندگی جیسی چیز نشو و نما پاسکے ۔ مثلاً پانی جو زندگی کے ظہور اور بقا کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے وہ اب تک کی معلومات کے مطابق زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں ۔
پھر کچھ ذہین افراد نے فجائی ارتقاء (Emergent Evolution) کا نظریہ وضع کیا۔ اس کے مطابق فرض کیا گیا کہ زندگی یا اس کی انواع بالکل اچانک پیدا ہو جاتی ہیں ۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ محض ایک لفظ ہے، نہ کہ کوئی علمی نظریہ ۔ اچانک پیدائش کبھی اندھے مادی قوانین کے ذریعہ ممکن نہیں۔ اچانک پیدائش کا نظریہ لازمی طور پر ایک مداخلت کرنے والے کا تقاضا کرتا ہے ۔ یعنی اس خارجی عامل کا جس کو نہ ماننے کے لیے یہ تمام نظریات گھڑے گئےہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی توجیہ ایک خالق کو مانے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ خالق کو چھوڑ کر دوسری جو بنیا د بھی تلاش کی جائے گی وہ کائنات کے نقشہ سے ٹکرا جائے گی ، وہ اس کےڈھانچے میں جگہ نہیں پا سکتی ۔