بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ میں 20 ویں صدی قبل مسیح میں مصر میں داخل ہوئے اور حضرت موسیٰ کے زمانے میں تیرھویں صدی قبل مسیح میں مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں گئے۔یہ دونوں واقعات بائبل میں بھی مذکور ہیں اور قرآن میں بھی۔مگر قرآن کے بیانات خارجی تاریخ سے کامل مطابقت رکھتے ہیں۔جب کہ بائبل میں کئی باتیں ایسی ہیں جو خارجی تاریخی واقعات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔چنانچہ بائبل کے معتقدین کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ بائبل کے بیان کو لیں یا تاریخ کے بیان کو، کیونکہ دونوں کو بیک وقت لینا ممکن نہیں ہے۔
12 جنوری 1985ء کو نئی دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز (تغلق آباد) میں اجتماع تھا۔اس اجتماع کے مقرر مسٹر عذرا کولٹ (Ezra Kolet, 1914-1992) تھے، جو ہندوستان میں آباد یہودیوں کی مجلس (Council of Indian Jewry) کے صدر ہیں۔تقریر کا عنوان تھا:
What is Judaism?
یہودی مقرر نے اپنی تقریر میں قدرتی طور پر یہودیوں کی تاریخ بیان کی۔انہوں نے مصر میں ان کے جانے اور پھر وہاں سے نکلنے کا بھی تذکرہ کیا۔اس سلسلے میں حضرت یوسفؑ اور حضرت موسیٰ کا ذکر آیا تو انہوں نے حضرت یوسف کے ہم عصر مصری بادشاہ کو بھی فرعون کہا اور حضرت موسیٰ کے ہم عصر مصری بادشاہ کو بھی فرعون بتایا۔
ہر صاحبِ علم جانتا ہے کہ یہ بات تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ "فرعون" نام کے بادشاہ صرف بعد کو حضرت موسیٰ کے زمانے میں ہوئے۔اس سے پہلے حضرت یوسف کے زمانےمیں دوسرے لوگ مصر کے حکمراں تھے۔
حضرت یوسف جس زمانےمیں مصر میں داخل ہوئے اس زمانےمیں وہاں ان لوگوں کی حکومت تھی جن کو تاریخ میں چرواہے بادشاہ (Hyksos Kings) کہا جاتا ہے۔یہ لوگ عرب نسل سے تعلق رکھتے تھے اور باہر سے آکر مصر پر قابض ہو گئے تھے۔ یہ خاندان دو ہزار سال قبل مسیح سے لے کر پندرھویں صدی قبل مسیح کے آخر تک مصر میں حکمران رہا۔اس کے بعد مصر میں غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت ہوئی اور ہکسوس کی حکومت ختم کر دی گئی۔
اس کے بعد مصر میں ملک والوں کی حکومت قائم ہوئی۔اس وقت جس خاندان کو مصر کی بادشاہی ملی اس نے اپنے حکمرانوں کے لیے فرعون کا لقب پسند کیا۔فرعون کے لفظی معنی سورج دیوتا کی اولاد کے ہیں۔اس زمانے میں مصر کے لوگ سورج کو پوجتے تھے۔چنانچہ حکمرانوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ سورج دیوتا کا مظہر ہیں۔تا کہ مصریوں کے اوپر اپنا حق حکومت ثابت کیا جا سکے۔
مسٹر عذرا کولٹ نے جو کچھ کیا وہ مجبور تھے کہ ویسا ہی کریں۔کیونکہ بائبل میں ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔بائبل حضرت یوسف کے ہم زمانہ مصری بادشاہ کو بھی فرعون کہتی ہے۔اور حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ مصری بادشاہ کو بھی فرعون کہتی ہے۔مسٹر عذرا کولٹ یا تو بائبل کو لے سکتے تھے یا تاریخ کو۔دونوں کو ساتھ لینا ممکن نہ تھا۔انہوں نے یہودی کونسل کا صدر ہونے کی حیثیت سے تاریخ کو چھوڑا اور بائبل کو اختیار کر لیا۔
مگر قرآن اس قسم کے اختلاف بیانی سے خالی ہے۔اس لیے حاملینِ قرآن کے لیے یہ مسئلہ نہیں کہ قرآن کو لینے کے لیے انہیں تاریخی حقیقت کو چھوڑنا پڑے۔قرآن کے زمانہ نزول میں یہ تاریخی واقعات لوگوں کو معلوم نہ تھے۔یہ تاریخ ابھی تک قدیم آثار کی صورت میں زمین کے نیچے دفن تھی جن کو بہت بعد کو زمین کی کھدائی سے برآمد کیا گیا۔ اور ان کی بنیاد پر مصر کی تاریخ مرتب کی گئی۔
اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں حضرت یوسف کے ہم زمانہ مصری بادشاہ کا ذکر آتا ہے تو قرآن اس کے لیے ملکِ مصر ( مصر کا بادشاہ) کا لفظ استعمال کرتا ہے۔اور حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ مصری بادشاہ کا ذکر آتا ہے تو وہ اس کو بار بار فرعون کہتا ہے۔اس طرح قرآن کا بیان خارجی تاریخی حقیقت کے عین مطابق ٹھہرتا ہے۔جب کہ بائبل کا بیان خارجی تاریخی حقیقت سے ٹکرا رہا ہے۔یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کا مصنف ایک ایسا مصنف ہے جو انسانی معلومات کے ماورا تمام حقیقتوں کو براہ ِراست دیکھ رہا ہے۔