کائنات کی گواہی
سورہ الانعام میں منکرین کے اس مطالبہ کا ذکر ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے اس وعدے میں سچےہو کہ جو پیغام تم لائے ہو وہ خدا کی طرف سے ہے تو کوئی معجزہ دکھاؤ۔فرمایا کہ ایمان کا مدار معجز نما واقعات پر نہیں ہے بلکہ اس پر ہے کہ آدمی کی آنکھ کھلی ہوئی ہو اور وہ نشانیوں سے سبق لینا جانتا ہو۔جس میں یہ صلاحیت زندہ ہو،اس کو نظر آئے گا کہ یہاں وہ معجزہ پہلے سے نہایت وسیع پیمانہ پر موجود ہے جس کا وہ مطالبہ کر رہا ہے۔آخر اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ساری کائنات اپنے تمام اجزاء سمیت اس پیغام کی سچائی کی تصدیق کر رہی ہے جس کی طرف خدا کا رسول بلا رہا ہے۔اور اگر آدمی نے اپنے آپ کو اندھا بنا رکھا ہو،وہ واقعات سے سبق لینے کی کوشش نہ کرتا ہو تو بڑے سے بڑا معجزہ بھی کار آمد نہیں ہو سکتا(6:35-40)۔
اس سلسلے میں ان دیگر مخلوقات (چڑیوں اور جانوروں) کی مثال دی گئی ہے جو اس دنیا میں انسان کے سوا پائی جاتی ہیں۔دوسری جگہ زمین و آسمان کو بھی اس مثال میں شامل کیا گیا ہے(بنی اسرائیل،17:44)۔یعنی اگر تم غور کرو تو تمہارے لیے کافی سامان عبرت و نصیحت کا ان کے اندر موجود ہے۔کیوں کہ یہ سب بھی تمہاری طرح مخلوقات ہیں۔ان کو بھی اپنی زندگی میں ا یک ڈھنگ اختیار کرنا ہے جس طرح تم کو اختیار کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
مگر تمہارے مقابلے میں،عالم موجودات کا بے حد بڑا حصہ ہونے کے باوجود ،ان کا معاملہ مکمل طور پر تم سے مختلف ہے۔وہ ایک ہی مقررہ نقشہ پر کروڑوں برس سے چل رہے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی اپنے مقرر نقشہ سے ادنیٰ انحراف نہیں کرتا۔یہ صرف انسان ہے جو ایک مقرر نقشہ کو قبول نہیں کرتا۔ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ اپنی من مانی راہوں پر دوڑتا رہے۔
رسول کا مطالبہ تم سے کیا ہے۔یہی تو ہے کہ اس دنیا کا ایک خالق و مالک ہے۔ تمہارے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ تم خود سری اور خود رائی کو چھوڑ دو اور اپنے خالق و مالک کے تابع ہو جاؤ۔غور کرو تو اس دعوت کے حق ہونے پر تمام زمین و آسمان اور تمام حیوانات گواہی دے رہے ہیں(النور،24:41)۔کیونکہ جس دنیا میں تم ہو جب اس کا وسیع تر حصہ خود سری کے بجائے پابندی کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے تو تم اس کا بے حد مختصر حصہ ہو کر اس کے خلاف رویّہ اپنانے میں حق بجانب کیسے ہو سکتے ہو۔
عظیم الشان کائنات کا ہر جزخواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،وہی کر رہا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔سب اپنے ایک ہی متعین راستہ پر اتنی صحت کے ساتھ چلے جا رہے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی عزیز و علیم نے ان کو بزور اس کا پابند کر رکھا ہے(یٰس،36:38)۔ اتنی بڑی کائنات میں انسان کا الگ راستہ اختیار کرنا بتا رہا ہے کہ انحراف انسان کی طرف ہے، نہ کہ بقیہ کائنات کی طرف (آل عمران،3:83)۔
ساری کائنات اپنے لاتعداد اجزاء کے ساتھ انتہائی متوافق طور پر (proportionately) حرکت کرتی ہے۔ان میں کبھی باہم ٹکراؤ نہیں ہوتا۔یہ صرف انسان ہے جو آپس میں ٹکراؤ کرتا ہے۔تمام کائنات اپنی نا قابل قیاس سرگرمیوں کے ساتھ ہمیشہ نفع بخش انجام کی طرف جاتی ہے۔مگر انسان ایسی کاروائیاں کرتا ہے جو تباہی اور بربادی پیدا کرنے والی ہوں۔
دو قسم کے پانی اپنی اپنی حد مقرر کیے ہوئے ہیں۔ایک دوسرے کی حد کو نہیں توڑتا۔حتٰی کہ سانڈوں کا گروہ بھی اپنے اپنے حدود کو متعین کر لیتا ہے۔ہر سانڈ اپنی حد کے اندر کھاتا پیتا ہے،دوسرے سانڈ کی حد میں نہیں گھستا۔مگر انسان کسی حد بندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔شہد کی مکھیاں حد درجہ نظم اور تقسیم کار کے ساتھ اپنی تعمیری سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔مگر انسان نظم و ضبط کو توڑتا ہے۔چیونٹیاں اور چڑیاں رزق کی فراہمی میں اپنی محنت پر بھروسہ کرتی ہیں۔وہ کسی سے چھین جھپٹ نہیں کرتیں، مگر انسان دوسرے انسان کا استحصال کرتا ہے۔کوئی شیر یا بھیڑیا اپنی نوع کے جانور کو نہیں پھاڑتا ۔مگر انسان انسان کا خون بہاتا ہے۔کوئی جانور حتیٰ کہ سانپ بچھو بھی بلا وجہ کسی کے اوپر حملہ نہیں کرتے۔وہ حملہ کرتے ہیں تو صرف اپنے بچاؤ کے لیے۔مگر انسان دوسرے انسانوں کے اوپر یک طرفہ جارحانہ کاروائیاں کرتا ہے۔تمام جانور بقدر ضرورت کھاتے ہیں۔بقدر ضرورت جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں اور بقدر ضرورت گھر بناتے ہیں۔مگر انسان ہر چیز میں اسراف اور بے راہ روی اور غیر ضروری تکلّفات کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔
تمام جانور صرف اپنے دائرہ کار میں اپنے کو مصروف رکھتے ہیں۔مگر انسان اپنے دائرہ عمل کو چھوڑ کر دوسرے کے دائرہ میں مداخلت کرتا ہے۔ایک چرواہے کى پچاس بکریاں جنگل میں چرتے ہوئے ہزاروں بھیڑ بکریوں سے مل جائیں اور اس کے بعد ان کا چرواہا ایک مقام پر کھڑے ہو کر آوازدے تو اس کی تمام بکریاں نکل نکل کر اس کے پاس آجاتی ہیں۔ مگر انسان کاحال یہ ہے کہ اس کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے تووہ سننے اور سمجھنے کے بعد بھی اس پکار کی طرف نہیں دوڑتا۔
انسان ساری کائنات کا اس سے بھی کہیں زیادہ چھوٹا حصہ ہے جتنا پوری زمین کے مقابلہ میں سرسوں کا ایک دانہ۔پھر انسان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ کیسے درست ہو سکتا ہے جو وسیع تر کائنات کا راستہ ہے۔اگر اتنی عظیم الشان دلیل کے باوجود آدمی اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کرتا ہے تو موجودہ کائنات میں وہ اپنے آپ کو بے استحقاق ثابت کر رہا ہے۔اس کے بعد اس کا انجام صرف یہی ہو سکتا ہے کہ اس کو کائنات میں بے جگہ کر دیا جائے۔کائنات کی تمام چیزیں اس کے ساتھ مساعدت کرنے سے انکار کر دیں۔تمام کائناتی نعمتوں کو اس سے چھین کر اس کو ابدی محرومی میں ڈال دیا جائے۔
آدمی جس کائنات کا ہم سفر بننے کے لیے تیار نہیں،اس کو کیا حق ہے کہ اس کائنات کی چیزوں سے فائدہ اٹھائے۔اس کے بعد بالکل فطری طور پر یہ انجام ہونا چاہیے کہ کائنات کو اس کی تمام نعمتوں کے ساتھ صرف ان انسانوں کو دے دیا جائے جو اس کے ہم سفر بنے،جنہوں نے اپنے خالق و مالک کی تابعداری اسی طرح کی جس طرح ساری کائنات کر رہی تھی۔اس کے سوا وہ انسان جنہوں نے بغاوت اور خودرائی کا طریقہ اختیار کیا،ان کو نہ اس دنیا کی روشنی میں حصہ دار بننے کا حق ہے اور نہ اس کی ہوا اور پانی میں۔وہ اس دنیا میں نہ اپنے لیے مکان بنانے کا حق رکھتے اور نہ کھانے اور آرام کرنے کا۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ کائنات اپنے جنتی امکانات کے ساتھ صرف پہلے گروہ کے حصے میں آئے اور دوسرے گروہ کو یہاں کی تمام بہترین چیزوں سے محروم کر کے چھوڑ دیا جائے۔