اس سلسلے میں پہلی بات جس کو جاننا ضروری ہے۔وہ یہ کہ وہ کون سے حالات ہیں جن کے درمیان ہم کو دعوت حق کا کام انجام دینا ہے۔مختصر لفظوں میں اس کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اسلاف کے لیے دعوت الی اللہ کا مطلب دور شرک کو ختم کرنا تھا۔اب ہمارے لیےدعوت الی اللہ کا مطلب دور الحاد کو ختم کرنا ہے۔ ہمارے اسلاف دور شرک کو ختم کر کے دور توحید لے آئے۔اس کے بعد دنیا میں ایک نئی تاریخ وجود میں آئی۔یہ تاریخ ہزار سال تک کامیابی کے ساتھ چلتی رہی۔یہاں تک کہ سولہویں صدی عیسوی میں مغربی سائنس کا ظہور ہوا۔اس کے بعد دنیا کی ایک نئی تاریخ بننا شروع ہوئی۔بیسویں صدی میں آکر یہ تاریخ اپنے کمال پر پہنچ گئی ہے۔اب دوبارہ یہ حال ہو گیا ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے جس طرح فکر و عمل کے تمام شعبوں پر شرک کا غلبہ تھا،اسی طرح اب فکرو عمل کے تمام شعبوں پر الحاد کا غلبہ ہو چکاہے۔حتیٰ کہ آج مذہب بھی علمی طور پر الحاد کا ضمیمہ بن چکا ہے۔اس سے الگ اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔
یہاں ایک لطیفہ قابل ذکر ہے موجودہ زمانے میں مذہب کی صورت کو بہت اچھی طرح واضح کرتا ہے۔جرمن مفکر ای،ایف، شوماخر (1911-1977)نے اپنا ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
On a visit to Leningrad some years ago (August 1968), I consulted a map to find out where I was, but I could not make it out. I could see several enormous churches, yet there was no trace of them on my map. When finally an interpreter came to help me, he said: "we don't show churches on our maps". (E. F. Schumacher, A Guide for the Perplexed, London, 1981, p.9)
اگست 1968ء میں روس کے شہر لینن گراڈگیا۔وہاں ایک دن میں ایک نقشہ دیکھ رہا تھا تا کہ میں جانوں کہ میں کہاں ہوں۔مگر میں اس کو جان نہ سکا ۔میری نظروں کے سامنے کئی بڑے بڑے چرچ تھے۔مگر میرے نقشہ میں ان کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔بالآخر ایک ترجمان نے میری مدد کی۔اس نے کہا" ہم اپنے نقشوں میں چرچ کو نہیں دکھاتے"۔
یہ جزئی واقعہ اس پوری صورت حال کی تصویر ہے جو موجودہ زمانے میں پیش آئی ہے۔ جدید انسان نے خدا کو اپنے علمی اور فکری نقشوں سے نکال دیا ہے۔موجودہ زمانے میں جغرافیہ،تاریخ ،طبیعیات ،نباتات،حیوانات،فلکیات وغیرہ تمام علوم نہایت تفصیل کے ساتھ مرتب کیے گئے ہیں۔مگر ان علوم میں کہیں بھی خدا کا ذکر نہیں۔ایک شخص جس کو نظر حاصل ہو، جب وہ آنکھ اٹھا کر کائنات کو دیکھتا ہے تو ہر طرف اس کو خدا کا نشان نمایاں نظر آتا ہے،مگر مدوّن علوم میں خدا ہر جگہ ایک غیر موجود چیز ہے۔ان علوم کو پڑھنے والا کہیں بھی خدا کا کوئی حوالہ نہیں پاتا۔
ان حالات میں دعوت توحید کا کام گویا خدا کو ازسر نو فکر انسانی کے نقشہ پر لکھنا ہے۔ عالمی سطح پر ایک ایسا فکری انقلاب لانا ہے کہ انسان دوبارہ خدائی اصطلاحوں میں سوچنے کے قابل ہو سکے۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ توحید اور آخرت کی بات آدمی کی سمجھ میں آئے اور اس کو وہ حقیقت سمجھ کر قبول کر سکے۔ ہمارے اسلاف نے انسانی فکر کی دنیا میں شاکلہٴ شرک کو توڑ کر شاکلہٴ توحید کوقائم کیا تھا۔اب ہم کو دوبارہ شاکلہٴ الحاد کو توڑ کر شاکلہٴ توحید پر انسانی فکر کا نظام قائم کرنا ہے۔ دعوت کے مسئلہ کا اس سے کم تصور دعوت کے مسئلہ کی تصغیر (underestimation) ہے، جس کی کوئی قیمت نہ بندوں کے نزدیک ہے اور نہ خدا کے نزدیک۔