منصوبہٴ خدا وندی
حضرت آدم پہلے انسان تھے اور اسی کے ساتھ پہلے پیغمبر بھی۔بعض روایات کے مطابق حضرت آدم کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک آپ کی نسل توحید اور دین حق پر قائم رہی۔اس کے بعد ملت آدم میں شرک کا غلبہ ہو گیا (البقرہ،2:213)۔حضرت نوح اسی ملت آدم کی اصلاح کے لیے آئے جو اس وقت دجلہ اور فرات کے سر سبز علاقے میں آباد تھی۔
تا ہم حضرت نوح کی طویل کوششوں کے باوجود ملت آدم دوبارہ مشرکانہ دین کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ان میں سے صرف چند آدمی تھے جو حضرت نوح پر ایمان لائے۔ چنانچہ عظیم طوفان آیااور چند مومنین کو چھوڑ کر باقی تمام لوگ غرق کر دیے گئے۔ اس کے بعد ملت نوح کے ذریعہ دوبارہ انسانی نسل چلی ۔لیکن دوبارہ وہی قصہ پیش آیا جو اس سے پہلے پیش آ چکا تھا۔کچھ عرصہ بعد بیشتر لوگ دین توحید کو چھوڑ کر دین شرک پر چل پڑے۔یہی قصہ ہزاروں سال تک بار بار پیش آتا رہا۔خدا نے لگاتار پیغمبر بھیجے (المومنون،23:44)۔ مگر انسان ان سے نصیحت قبول کرنے پر تیار نہ ہوا۔حتٰی کہ تمام پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا گیا (یٰس،36:30)۔
یہ سلسلہ ہزاروں برس تک جاری رہا۔یہاں تک کہ تاریخ میں شرک کا تسلسل قائم ہو گیا۔اس زمانے کے انسانی معاشروں میں جو شخص بھی پیدا ہوتا وہ اپنے ماحول کی ہر چیز سے شرک کا سبق لیتا۔مذہبی رسموں،سماجی تقریبات،قومی میلے اور حکومتی نظام تک ہر چیز مشرکانہ عقائد پر قائم ہو گئی۔نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جو انسان بھی پیدا ہو وہ شرک کی فضا میں آنکھ کھولے اور شرک ہی کے ماحول میں اس کا خاتمہ ہو جائے۔اسی چیز کو میں نے تاریخ میں شرک کا تسلسل قائم ہو جانے سے تعبیر کیا ہے،اور یہی وہ حقیقت ہے جو حضر ت نوح کی دعا میں ان الفاظ میں ملتی ہے:
وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا (71:27)۔اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا، وہ بدکار اور سخت منکر ہی ہوگا۔
اب تاریخ حضرت ابراہیم تک پہنچ چکی تھی جن کا زمانہ 2100 قبل مسیح ہے۔خود حضرت ابراہیم نے قدیم عراق میں جو اصلاحی کوششیں کیں ان کا بھی وہی انجام ہوا جو آپ سے پہلے دوسرے نبیوں کا ہوا تھا۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے منصوبہ بنایا۔وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی اہتمام کے ذریعے ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو شرک کے تسلسل سے منقطع ہو کر پرورش پائے۔اپنی فطری حالت پر قائم رہنے کی وجہ سے اس کے لیے توحید کو قبول کرنا آسان ہو جائے۔پھر اسی گروہ کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے کہ وہ تاریخ میں جاری ہونے والے شرک کے تسلسل کو توڑے۔
اس وقت حضرت ابراہیم کو حکم ہوا کہ وہ عراق اور شام اور مصر اور فلسطین جیسے آباد علاقوں کو چھوڑ کرقدیم مکہ کے غیر آباد علاقے میں جائیں۔اوروہاں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے شیرخوار بچے اسماعیل کو بسا دیں۔یہ علاقہ وادی غیر ذی زرع ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں بالکل غیر آباد تھا۔اس بنا پر وہ قدیم مشرکانہ تہذیب سے پوری طرح پاک تھا۔حضرت ابراہیم کی دعا میں عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ(14:37)سے یہی چیز مراد ہے۔یعنی ایک ایسا مقام جو شرک کی پہنچ سے دور ہو۔حضرت ابراہیم کی اس دعا کا مطلب یہ تھا کہ خدایا،میں نے اپنی اولاد کو ایک بالکل غیر آباد علاقہ میں بسا دیاہے۔جہاں مشرکانہ تہذیبوں کے اثرات ابھی تک نہیں پہنچے ہیں۔ایسا میں نے اس لیے کیا ہے تا کہ وہاں ایک ایسی نسل پیدا ہو جو شرک کے تسلسل سے منقطع ہو کر پرورش پائے اور حقیقی معنوں میں توحید کی پرستار بن سکے۔
کسی تہذیبی تسلسل سے منقطع ہو کر پرورش پانا کیا معنی رکھتا ہے۔اس کی وضاحت ایک جزئی مثال سے ہوتی ہے،راقم الحروف ایک ایسے علاقے میں رہنے والا ہے جس کی زبان اردو ہے۔میرے باپ اردو بولتے تھے۔میں بھی اردو بولتا ہوں اور میرے بچوں کی زبان بھی اردو ہے۔اب یہ ہوا کہ میرے ایک لڑکے نے لندن میں ایک ایسے علاقے میں رہائش اختیار کر لی جہاں صرف انگریزی بولنے والے لوگ رہتے ہیں اور ہر طرف انگریزی زبان کا ماحول ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے اس لڑکے کے بچے اب صرف انگریزی زبان جانتے ہیں۔وہ اردو میں اظہار خیال کی صلاحیت نہیں رکھتے۔میں لندن گیا تو اپنے ان پوتوں سے مجھے انگریزی زبان میں بات کرنی پڑی۔
میرے ان پوتوں کا یہ حال اس لیے ہوا کہ اردو کے تسلسل سے منقطع ہو کر ان کی پرورش ہوئی ۔اگر وہ میرے ساتھ دہلی میں ہوتے تو ان بچوں کا یہ معاملہ کبھی نہ ہوتا۔
ذبح اسماعیل کے واقعے کی حقیقت بھی یہی ہے۔حضرت ابراہیم کو جو خواب (الصافات،37:102) دکھایا گیا، وہ ایک تمثیلی خواب تھا۔اگرچہ حضرت ابراہیم اپنی انتہائی وفاداری کی بنا پر اس کی حقیقی تعمیل کے لیے آمادہ ہو گئے۔قدیم مکہ میں نہ پانی تھا،نہ سبزہ اور نہ زندگی کا کوئی سامان۔ایسی حالت میں اپنی اولاد کو وہاں بسانا یقیناً ان کو ذبح کرنے کے ہم معنی تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کو جیتے جی موت کے حوالے کر دیا جائے۔شرک کے تسلسل سے منقطع کر کے نئی نسل پیدا کرنے کا منصوبہ کسی ایسے مقام پر ہی زیرِ عمل لایا جا سکتا تھا۔جہاں اسبابِ حیات نہ ہوں اور اس بنا پر وہ انسانی آبادی سے خالی ہو۔حضرت ابراہیم کے خواب کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو معاشی اور سماجی حیثیت سے ذبح کر کے مذکورہ نسل تیار کرنے میں خدائی منصوبے کا ساتھ دیں۔
یہ منصوبہ چونکہ اسباب کے دائرہ میں زیرِ عمل لاناتھا اس لیے اس کی باقاعدہ نگرانی بھی ہوتی رہی۔حضرت ابراہیم خود فلسطین میں مقیم تھے ۔مگر وہ کبھی کبھی اس کی جانچ کے لیے مکہ جاتے رہتے تھے۔
ابتداءً اس مقام پر صرف ہاجرہ اور اسماعیل تھے۔بعد کو جب وہاں زمزم کا پانی نکل آیا تو قبیلہ جرہم کے کچھ خانہ بدوش افراد یہاں آکر آباد ہو گئے۔حضرت اسماعیل بڑے ہوئے تو انھوں نے قبیلہ جرہم کی ایک لڑکی سے نکاح کر لیا۔روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم ایک بار فلسطین سے چل کر مکہ پہنچے تو اس وقت حضرت اسماعیل گھر پر موجود نہ تھے ۔ حضرت ابراہیم نے ان کی بیوی سے حال دریافت کیا۔بیوی نے کہا کہ ہم بہت برے حال میں ہیں،اور زندگی مصیبتوں میں گزررہی ہے۔حضرت ابراہیم یہ کہہ کر واپس ہو گئے کہ جب اسماعیل آئیں تو ان کو میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو (غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ)۔ حضرت اسماعیل جب لوٹے اور بیوی سے یہ روداد سنی تو وہ سمجھ گئے کہ یہ میرے والد تھے اور ان کا پیغام تمثیل کی زبان میں یہ ہے کہ میں موجودہ عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت سے رشتہ کر لوں۔چنانچہ انھوں نے اس کو طلاق دے دی اور قبیلہ کی دوسری عورت سے شادی کر لی۔حضرت ابراہیم کی نظر میں وہ عورت اس قابل نہ تھی کہ وہ زیر تیاری نسل کی ماں بن سکے) صحيح البخاري،حدیث نمبر 3185)۔
کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم دوبارہ مکہ آئے۔اب بھی حضرت اسماعیل گھر پر نہ تھے۔البتہ ان کی دوسری بیوی وہاں موجود تھیں۔اس سے حال پوچھا تو اس نے قناعت اور شکر کی باتیں کیں اور کہا کہ ہم بہت اچھے حال میں ہیں۔حضرت ابراہیم یہ کہہ کر واپس ہو گئے کہ جب اسماعیل آئیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دے دینا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ باقی رکھو (ثبِّت عَتَبَةَ بَابِكَ)۔حضرت اسماعیل جب واپس آئے اور روداد سنی تو سمجھ گئے کہ یہ میرے والد تھے، اور ان کے پیغام کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ پیش نظر منصوبے سے مطابقت کر کے رہ سکے، اورپھر اس سے وہ نسل تیار ہو جس کا یہاں تیار کرنا اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے) صحيح البخاري،حدیث نمبر 3185)۔
اس طرح صحرائے عرب کے الگ تھلگ ماحول میں ایک نسل بننا شروع ہوئی۔اس نسل کی خصوصیات کیا تھیں،اس کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نسل بیک وقت دو خصوصیات کی حامل تھی،ایک الفطرۃ اور دوسرے المروۃ۔
صحرائے عرب کے ماحول میں فطرت کے سوا اورکوئی چیز نہ تھی جو انسان کو متاثر کرے۔کھلے بیابان،اونچے پہاڑ، رات کے وقت وسیع آسمان میں جگمگاتے ہوئے تارے، وغیرہ۔اس قسم کے قدرتی مناظر چاروں طرف سے انسان کو توحید کا سبق دے رہے تھے۔وہ ہر وقت اس کو خدا کی عظمت اور کاریگری کی یاد دلاتے تھے۔اسی خالص ربانی ماحول میں پرورش پا کر وہ قوم تیار ہوئی جو حضرت ابراہیم کے الفاظ میں اس بات کی صلاحیت رکھتی تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں امت مسلمہ (البقرہ،2:128)بن سکے۔ یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے سپرد کر دینے والی قوم۔یہ ایک ایسی قوم تھی جس کی فطرت اپنی ابتدائی حالت میں محفوظ تھی،اسی لیے وہ دین فطرت کو قبول کرنے کی پوری استعداد رکھتی تھی۔
اسی کے ساتھ دوسری چیز جس کوپیدا کرنے کے لیے یہ ماحول خصوصی طور پر موزوں تھاوہ وہی ہے جس کو عربی زبان میں الْمُرُوءَة (مردانگی) کہتے ہیں۔قدیم حجازکے سنگلاخ ماحول میں زندگی نہایت مشکل تھی۔وہاں خارجی اسباب سے زیادہ انسانی اوصاف کارآمد ہو سکتے تھے۔وہاں بیرونی ماحول میں وہ چیزیں موجود نہ تھیں جن پر انسان بھروسہ کرتا ہے۔وہاں انسان کے پاس ایک ہی چیز تھی، اور وہ اس کا اپنا وجود تھا۔ایسے ماحول میں قدرتی طور پر ایسا ہونا تھا کہ انسان کے اندرونی اوصاف زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوں۔اس طرح دو ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں وہ قوم بن کر تیار ہوئی جس کے اندر حیرت انگیز طور پر اعلیٰ مردانہ اوصاف تھے۔پروفیسر فلپ ہٹی کے الفاظ میں پورا عرب ہیروؤں کی ایک ایسی نرسری (nursery of heroes) میں تبدیل ہو گیا جس کی مثال نہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی پائی گئی اور نہ اس کے بعد۔
History of the Arabs by Philip K. Hitti, Macmillan, 1989 p. 142
چھٹی صدی عیسوی میں وہ وقت آگیا تھا کہ تاریخ میں شرک کے تسلسل کو توڑنے کا منصوبہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔چنانچہ بنو اسماعیل کے اندر پیغمبر آخر الزماں (حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم)پیدا کر دیے گئے،جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (61:9)۔ وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ، تاکہ وہ اس کو سب دینوں پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کا خاص مشن یہ تھا کہ دین شرک کو غلبہ کے مقام سے ہٹا دیں اور دین توحید کو غالب دین کی حیثیت سے دنیا میں قائم کر دیں۔اس غلبے سے مراد اصلاًفکری اور نظریاتی غلبہ ہے۔یعنی تقریباً اسی قسم کا غلبہ جیسا کہ موجودہ زمانے میں سائنسی علوم کو روایتی علوم کے ا وپر حاصل ہوا ہے۔
یہ غلبہ تاریخ کا مشکل ترین منصوبہ تھا۔اس کا کچھ اندازہ اس مثال سے ہو سکتا ہے کہ قدیم روایتی علوم کو اگر جدید سائنسی علوم پر غالب کرنے کی مہم چلائی جائے تو وہ کس قدر دشوار ہو گی۔اسی طرح ساتویں صدی عیسوی میں یہ بے حد مشکل کام تھا کہ مشرکانہ تہذیب کو مغلوب کیا جائے اور اس کی جگہ توحید کو غالب فکر کا مقام عطا کیا جائے۔کسی نظام کے فکری غلبےکو ختم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی درخت کو اس کی تمام جڑوں سمیت اکھاڑ پھینکنا۔اس قسم کا کام ہمیشہ بے حد مشکل کام ہوتا ہے جو نہایت گہری منصوبہ بندی اور زبردست جدوجہد کے بعد ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو دو خاص امداد ی چیزیں فراہم کی گئیں۔ایک وہ جس کا ذکر كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (3:110)میں ہے۔یعنی تم بہترین گروہ ہو جس کو لوگوں کے واسطے نکالا گیا ہے۔دو ہزارسال کے عمل کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ تیار کیا گیا جو وقت کا بہترین گروہ تھا۔جیساکہ عرض کیا گیا، ایک طرف وہ اپنی تخلیقی فطرت پر قائم تھا۔دوسری طرف وہ چیز اس کے اندر کمال درجہ میں موجود تھی جس کو اخلاقی کردار یا مردانہ اوصاف کہا جاتا ہے۔اسی گروہ کے بہترین منتخب افراد،قبول اسلام کے بعد وہ لوگ بنے جن کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔
دوسری خصوصی مدد وہ تھی جس کی طرف سورہ الروم کی ابتدائی آیات میں اشارہ ملتا ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا میں دو بڑی مشرکانہ سلطنتیں تھیں۔ ایک رومی (بازنطینی) سلطنت،دوسرے ایرانی (ساسانی) سلطنت۔اس وقت کی آباد دنیا کا اکثر حصہ،براہ ِ راست یا بالواسطہ طور پر، انھیں دونوں سلطنتوں کے زیر قبضہ تھا۔توحید کو وسیع تر دنیا میں غالب کرنے کے لیے ان دونوں مشرک سلطنتوں سے سابقہ پیش آنا لازمی تھا۔خدا نے یہ کیا کہ عین اسی زمانے میں دونوں سلطنتوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دیا۔ان کی یہ لڑائی نسلوں تک جاری رہی۔ایک بار ایرانی اٹھے اور رومیوں کی طاقت کو تہس نہس کر کے ان کی مملکت کے بڑے حصے پر قابض ہو گئے۔دوسری بار رومی اٹھے اور انھوں نے ایرانیوں کی طاقت کو بالکل توڑ ڈالا۔یہی وجہ ہے کہ بنو اسماعیل (اصحاب رسول)جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت منظم ہو کر اٹھے تو انھوں نے بے حد کم عرصے میں ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے کو فتح کر ڈالا اور ہر طرف شرک کو مغلوب اور توحید کو غالب کر دیا۔
اس سلسلے میں یہاں پروفیسر ہٹی کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:
The enfeebled condition of the rival Byzantines and Sasanids who had conducted internecine against each other for many generations the heavy taxes, consequent upon these wars, imposed on the citizens of both empires and undermining their sense of loyalty, …all these paved the way for the surprisingly rapid progress of Arabian arms. (Philip K. Hitti, History of the Arabs, London 1970, p. 142-43)
رومی اور ایرانی سلطنتوں کی باہمی رقابت نے دونوں کو شدید طور پر کمزور کر دیا تھا۔دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہلاکت خیز جنگیں چھیڑ رکھی تھیں۔یہ سلسلہ کئی نسلوں تک جاری رہا۔اس کا خرچ پورا کرنے کے لیے رعایا پر بھاری ٹیکس لگائے گئے۔جس کے نتیجے میں رعایا کی وفاداری اپنی حکومتوں کے ساتھ باقی نہ رہی۔اس قسم کی چیزیں تھیں جنھوں نے عرب ہتھیاروں کو موقع دیا کہ وہ رومی اور ایرانی علا قوں میں تعجب خیز حد تک تیز کامیابی حاصل کر سکیں۔
مورخین نے عام طورپر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔تا ہم وہ اس کو ایک عام طبعی واقعہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غیر معمولی واقعہ ایک خدائی منصوبہ تھا جو خاتم النبیین کی تائید کےلیے خصوصی طورپر ظاہر کیا گیا۔
ایک امریکی انسائیکلو پیڈیا میں"اسلام" کے عنوان سے جو مقالہ ہے اس میں عیسائی مقالہ نگار نے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ اسلام کے ظہور نے انسانی تاریخ کے رخ کو بدل دیا:
Its advent changed the course of human history.
یہ ایک حقیقت ہے کہ صدرِ اول کے اسلامی انقلاب کے بعد انسانی تاریخ میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں جو اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھیں۔اور ان تمام تبدیلیوں کی اصل یہ تھی کہ دنیا میں شرک کا تسلسل ختم ہو کر توحید کا تسلسل جاری ہوا۔شرک تمام برائیوں کی جڑ ہے اور توحید تمام خوبیوں کا سر چشمہ ہے ۔اس لیے جب یہ بنیادی واقعہ ہوا تو اسی کے ساتھ انسان کے اوپر تمام خوبیوں کا دروازہ بھی کھل گیا جو شرک کے غلبے کے سبب سے اب تک اس کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔
اب توہماتی دور ختم ہو کر علمی دور کا آغاز ہوا۔انسانی امتیاز کی بنیاد ڈھ گئی اور اس کے بجائے انسانی مساوات کا زمانہ شروع ہوا۔نسلی حکمرانی کی جگہ جمہوری حکمرانی کی بنیادیں پڑیں۔مظاہر فطرت جو تمام دنیا میں پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے،پہلی بار تحقیق اور تسخیر کا موضوع قرار پائے،اور اس طرح حقائق فطرت کے کھلنے کا آغاز ہوا۔یہ دراصل توحید ہی کا انقلاب تھا جس سے ان تمام انقلابات کی بنیاد پڑی جو بالآخر اس مشہور واقعہ کو پیدا کرنے کا سبب بنے جس کو جدید ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم نے دعا فرمائی تھی :
وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ۔ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيراً مِنَ النَّاسِ (14:35-36)۔خدا یا مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔خدایا، ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ بتوں نے کس طرح لوگوں کو گمراہ کیا۔بتوں (اصنام) میں وہ کون سی خصوصیت تھی ،جس کی بنا پر وہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔اس کا راز اس وقت سمجھ میں آتا ہے جب یہ دیکھا جائے کہ حضرت ابراہیم کے زمانےمیں وہ کون سے بت تھے جن کی بابت آپ نے یہ الفاظ فرمائے۔
یہ بت ،سورج،چاند اور ستارے تھے۔تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں جو مہذب دنیا تھی اس میں ہر جگہ آسمان کے ان روشن اجرام کی پرستش ہوتی تھی جن کو سورج ،چاند اور ستارے کہا جاتا ہے۔اسی سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ بت کیوں کر لوگوں کو گمراہ کر پاتے تھے۔
خدا اگرچہ سب سے بڑی حقیقت ہے مگر وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔اس کے برعکس، سورج،چاند اور ستارے ہر آنکھ کو جگمگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اسی جگمگاہٹ کی بنا پر لوگ ان کے فریب میں آگئے اور ان سے متاثر ہو کر ان کو پوجنا شروع کر دیا ۔ ان روشن اجسام کا غلبہ انسان کے ذہن پر اتنا زیادہ ہوا کہ وہی پوری انسانی فکر پر چھا گیا۔حتیٰ کہ حکومتیں بھی انھیں کی بنیاد پر قائم ہونے لگیں۔اس زمانے کے بادشاہ اپنے آپ کو سورج کی اولاد اور چاند کی اولاد بتا کر لوگوں کے اوپر حکومت کرنے لگے۔
پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے توحید کو غالب کر کے اس دور کو ختم کیا گیا۔اس وقت غلبہ توحید کا جو منصوبہ بنایا گیا اس کے دو خاص مرحلے تھے۔پہلامرحلہ وہ تھا جس کو قرآن میں وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (8:39) کہا گیا ہے۔یعنی، ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔
اس آیت میں " فتنہ" سے مراد شرک جارح ہے۔قدیم زمانےمیں شرک کو جارحیت کا موقع اس لیے حاصل تھا کہ اس زمانے میں حکومت کی بنیاد شرک پر قائم ہو گئی تھی۔ شرک کو مکمل طور پر حکومت کی سر پرستی حاصل تھی۔ ایسی حالت میں جب توحید کی دعوت دی جاتی تو وقت کے حکمرانوں کو یہ محسوس ہونے لگتا کہ یہ دعوت ان کےحق حکمرانی کو مشتبہ کر رہی ہے۔چنانچہ وہ توحید کے داعیوں کو کچلنے کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ قدیم زمانےمیں اعتقادی جارحیت کااصل سبب یہی تھا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو یہ حکم ہوا کہ علم بردارانِ شرک سے لڑو اور شرک کی اس حیثیت کا خاتمہ کر دو کہ وہ داعیان توحید کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا سکیں۔دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ شرک کا رشتہ سیاست سے کاٹ دیا جائے۔شرک اور سیاست دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے یہ مہم پوری طاقت کے ساتھ شروع کی۔ان کی کوششوں سے پہلے عرب میں شرک کا زور ٹوٹا۔اس کے بعد قدیم آباد دنیا کے بیشتر علاقے میں مشرکانہ نظام کو مغلوب کر کے ہمیشہ کے لیے شرک کی جارحانہ حیثیت کا خاتمہ کر دیا گیا۔اب ہمیشہ کے لیے شرک الگ ہو گیا اور سیاسی اقتدار الگ۔
شرک کے اوپر توحید کے غلبہ کی مہم کا دوسرا مرحلہ وہ تھا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
پہلے مرحلہ کا مطلب مظاہرفطرت سے سیاسی نظریہ اخذ کرنے کو ختم کرنا تھا ۔وہ ساتویں صدی عیسویں میں پوری طرح انجام پا گیا۔دوسرے مرحلہ کا مطلب یہ تھاکہ مظاہر فطرت سے توہمات کے پردہ کو ہٹا دیا جائے اوراس کو علم کی روشنی میں لایا جائے۔اس دوسرے مرحلہ کا آغاز دور نبوت سے ہوا اوراس کے بعد وہ موجود ہ سائنسی انقلاب کی صورت میں تکمیل کو پہنچا۔
موجودہ دنیا خدا کی صفات کا ایک اظہار ہے۔یہاں مخلوقات کے آئینے میں آدمی اس کے خالق کوپاتا ہے۔وہ اس پر غور کر کے خدا کی قدرت اور عظمت کا مشاہدہ کرتا ہے۔مگر قدیم مشرکانہ افکار نے دنیا کی چیزوں کو پر اسرار طور پر مقدس بنا رکھا تھا۔ہر چیز کے بارے میں کچھ توہماتی عقائد بن گئے تھے اور یہ عقائد ان چیزوں کی تحقیق و جستجو میں مانع تھے۔ توحید کے انقلاب کے بعد جب تمام دنیا خدا کی مخلوق قرار پائی توا س کے بارے میں تقدس کا ذہن ختم ہو گیا۔اب دنیا کی ہر چیز کا بے لاگ مطالعہ کیا جانے لگا اور اس کی تحقیق شروع ہو گئی۔
اس تحقیق اور مطالعہ کے نتیجےمیں چیزوں کی حقیقتیں کھلنے لگیں۔دنیا کے اندر قدرت کا جو مخفی نظام کار فرما ہے وہ انسان کے سامنے آنے لگا۔یہاں تک کہ جدید سائنسی انقلاب کی صورت میں وہ پیشن گوئی کامل صورت میں پوری ہو گئی جس کا ذکر اوپر کی آیت (حٰم السجدہ41:53) میں ہے۔
جدید سائنسی مطالعہ نے کائنات کے جو حقائق انسان پر کھولے ہیں انھوں نے ہمیشہ کے لیے توہماتی دور کا خاتمہ کر دیا ہے۔ان دریافت شدہ حقائق سے بیک وقت دو فائدے حاصل ہوئے ہیں۔ایک یہ کہ دینی عقائد اب محض مدعیانہ عقائد نہیں رہے بلکہ خود علم انسانی کے ذریعہ ان کا بر حق ہونا ایک ثابت شدہ چیز بن گیا ہے۔
دوسرے یہ کہ معلومات ایک مومن کے لیے اضافہ ایمان کا بے پناہ خزانہ ہیں۔ان سائنسی دریافتوں کے ذریعہ کائنات کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ اگرچہ بہت جزئی ہے، تا ہم وہ اتنا زیادہ حیرت ناک ہے کہ اس کو پڑھ کر اور جان کر آدمی کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوں۔ اس کا ذہن معرفت رب کی روشنی حاصل کرے۔اس کی آنکھیں خدا کی عظمت اور خوف سے آنسو بہانے لگیں۔وہ آدمی کو اس درجہ احسان تک پہنچا دے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ )صحيح البخاری، حدیث نمبر 4777)۔اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔