لٹریچر کی تیاری

قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا نے قلم کے ذریعہ انسان کو تعلیم دی : عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (96:4)۔ اس سے اسلامی دعوت کے لیے لٹریچر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

مگر اسلامی لٹریچر کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کے نام پر کچھ کتابیں لکھی جائیں اور ان کو کسی نہ کسی طرح مختلف زبانوں میں چھاپ کر تقسیم کر دیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی لٹریچر کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔یہ بشری سطح پر قرآن کا بدل فراہم کرنا ہے۔

خدا نے اپنا کلام عربی زبان میں اتارا ہے۔مگر اس کی تبلیغ دوسری زبان والوں تک بھی کرنی ہے،اور جیسا کہ قرآن سےثابت ہے،مدعو کو ان کی اپنی زبان میں تبلیغ کرنی ہے(14:4)۔اس لحاظ سے اگر عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (96:4)کو وقتی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو ابدی پس منظر (perspective) میں رکھ کر دیکھا جائے تو یقینی طور پر انسان بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔کیوں کہ دوسری زبانوں میں تعلیم بالقلم کا فریضہ انسان ہی کو ادا کرنا ہے۔گویا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ خدا عربی زبان میں معلّم بالقلم بنا تھا،اب ہم کو دوسری زبانوں میں معلم بالقلم بننا ہے۔مشہور عرب شاعر لبید نے قرآن کو سن کر شاعری چھوڑ دی ۔کسی نے کہا کہ تم اب شاعر ی کیوں نہیں کرتے۔انھوں نے کہا کہ قرآن کے بعد بھی:أبعد القرآن(الاستيعاب لابن عبد البر، جلد3، صفحہ1337)۔اس کا مطلب یہ ہے كه قرآن نے اپنے زمانہ کے افراد کو ذہنی طور پر مفتوح کر لیا تھا۔اسی طرح آج دوبارہ ایسا اسلامی لٹریچر درکار ہے جو لوگوں کو ذہنی طور پرمفتوح کر لے۔

بظاہریہ بات نا ممکن دکھائی دیتی ہے۔مگر اس نا ممکن کو  خود خدا نے ہمارے لیے ممکن بنا دیا ہے۔خدا نے حق کے داعیوں کی مدد کے لیے انسانی تاریخ میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔یہاں میری مراد سائنسی انقلاب سے ہے۔سائنسی انقلاب کے ذریعہ نئے استدلالی امکانات انسان کی دسترس میں آگئے۔حتیٰ کہ بلاتشبیہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج ہمارے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ مخاطب کے سامنے دین کے حق میں وہ اعجازی استدلال پیش کر سکیں جو پہلے صرف خدا کے پیغمبروں کی دسترس میں ہوتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ کائنات ایک عظیم الشان خدائی معجزہ ہے۔وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے خالق کی ذات و صفات کے حق میں معجزاتی دلیل ہے۔تا ہم قدیم زمانے میں یہ خدائی معجزہ ابھی تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑا ہوا تھا۔اس لیے خدا نے قدیم زمانے میں پیغمبروں کو مخصوص طور پرخارق عادت معجزے دیے۔

مگر پیغمبر اسلام کے مخاطبین کے مسلسل مطالبہ کے باوجود انھیں مذکورہ قسم کا کوئی معجزہ نہیں دکھایا گیا۔بلکہ قرآن میں کائنات کا حوالہ دیا گیا ۔کہا گیا کہ کائنات میں خدا کی آیات موجود ہیں ان کو دیکھو۔وہی تمھارے یقین کے لیے کافی ہیں۔چوں کہ قرآن دور سائنس کے آغاز میں آیا اس لیے قرآن میں کائنات کی نشانیوں کا حوالہ دینا کافی سمجھا گیا۔ابدی پس منظر میں ،قرآن کا مخاطب وہ انسان تھا جو دور سائنس میں جی رہا ہو۔اور دور سائنس کے انسان کو خدا اور اس کی باتوں پر یقین کرنے کے لیے کسی خارق عادت معجزہ کی ضرورت نہیں۔

معجزہ سے کیا مطلوب ہے۔معجزہ سے مطلوب محض کوئی حیران کن کرشمہ دکھانا نہیں  بلکہ دعوت حق کومخاطب کے لیے آخری طور پر ثابت شدہ بنانا ہے۔دعوت کی موافقت میں ایسے دلائل جمع کرنا ہے جس کے بعد مخاطب کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔قدیم زمانے میں اسی مقصد کے لیے خارق عادت معجزہ دکھایا جاتا تھا۔موجودہ زمانے میں یہی کام رموز فطرت کو منکشف کر کے سائنس نے انجام دے دیا ہے۔واضح ہو کہ قرآن میں پیغمبرانہ معجزوں اور کائناتی نشانیوں کے لیے ایک ہی مشترک لفظ استعمال ہوا  ہے  اور وہ آیت (نشانی) ہے۔

خدا کے دین کی دعوت  ا تمام حجت کی حد تک مطلوب ہے(النساء،4:165)۔اسی اتمام حجت کے لیے قدیم زمانے میں پیغمبروں کے ذریعہ معجزے دکھائے گئے۔اب سوال یہ ہے کہ آج کی قوموں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ دین کی دعوت ان کے سامنے اتمام حجت کی حد تک پیش کی جائے۔پھر موجودہ زمانے میں اس کا ذریعہ کیا ہے جب کہ پیغمبروں کی آمد اب ختم ہو چکی ہے۔

جدید سائنسی انقلاب اسی سوال کا جواب ہے۔جدید سائنسی انقلاب کے ذریعہ یہ ممکن ہو گیا ہے کہ دین حق کی تعلیمات کو عین اس معیار پر ثابت کیا جا سکے جو انسان کا اپنا تسلیم شدہ معیار ہے۔اس سلسلے میں پہلی اہم ترین بات وہ ہے جو طریق استدلال (methodology) سے تعلق رکھتی ہے۔جدید سائنس نے مختلف میدانوں میں اپنی تحقیقات کے نتیجے میں اس بات کا قطعی اقرار کیا ہے کہ استنباطی استدلال (inferential argument) اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا ہی معقول(valid) ہے جتنا کہ براہ راست استدلال ۔یہی قرآن کا طرز استدلال ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں علم انسانی نے قرآن کے طرزِ استدلال کو   عین  وہی درجہ دے دیا ہے جو علوم دینیہ سے باہر خود انسان کا تسلیم شدہ طرز استدلال ہے۔

جدید سائنس کا   یہ  نتیجہ ہوا  ہے   کہ جو چیز پہلے صرف خارجی اطلاع کی حیثیت رکھتی تھی وہ اب خود انسانی دریافت بن چکی ہے۔جدید سائنس نے معلوم کیا ہے کہ انسان اپنی محدودیت  (limitations) کی وجہ سے کلی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی رہنمائی کے لیے وحی کی ضرورت ہے۔جدید سائنس نے معلوم کیا ہے کہ  کائنات  میں تحکمی نظام  (arbitrary system)  ہے  اس  سے  واضح  طور  پر  خدا  کاوجود  ثابت  ہوتا  ہے۔جدید  سائنس  نےمعلوم  کیا  ہے  کہ    موجودہ دنیا کے ساتھ ایک اور غیر مرئی متوازی دنیا موجود ہے جس کا سائنسی نام اینٹی ورلڈ (antiworld) ہے۔اس سے واضح طور پر عالم آخرت کا وجود ثابت ہوتا ہے،وغیرہ۔

اسی طرح مقناطیسی میدان (magnetic field)اور حرکت (motion) کی یکجائی سے بجلی کی روشنی کا پیدا ہونا ویسا ہی ایک حیرت ناک خدائی معجزہ ہے جیسا ہاتھ کو بغل میں رکھ کر نکالنے سے ہاتھ کا غیر معمولی طور پر چمک اٹھنا،بڑے بڑے جہازوں کا اتھاہ سمندروں اور ناقابل عبور فضاؤں میں انسان کو لے کر دوڑنا ویسا ہی دہشت خیز خدائی معجزہ ہے جیسا دریا کا پھٹ کر انسانوں کو پار ہونے کا راستہ دینا۔مادہ سے متحرک مشینوں کا وجود میں آنا ویسا ہی عجیب خدائی معجزہ ہے جیسا کہ لاٹھی کا سانپ بن کر چلنے لگنا۔

واقعہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں پیغمبروں کو جو معجزے دیے گئے وہ سب با عتبار مواد استدلال خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔مگر قدیم زمانے میں چوں کہ وہ انسان کے علم میں نہیں آئے تھے اس لیے خدا  نے لوگوں کو خارق عادت معجزے دکھائے۔آج سائنسی تحقیقات نے فطرت کی یہ نشانیاں کھول دی ہیں اس لیے آج کے انسان کے یقین و ایمان کے لیے وہی کافی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی انقلاب خدا کے معجزہ کا ظہور ہے۔اس کے ذریعہ خدا کی تمام  باتیں   اعجازی سطح پر ثابت ہو رہی ہیں۔اگر ان سے گہری واقفیت حاصل کی جائے اور ان کو دعوت حق کی حمایت میں استعمال کیا جائے تو یہ دعوت کے ساتھ معجزہ کو جمع کرنے کے ہم معنی ہو گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج ہم حقیقی معنوں میں سائنسی دلائل کے ساتھ دین کی دعوت پیش کر سکیں تو زمین پر دوبارہ یہ واقعہ ظہور میں آئے گا کہ وقت کا "لبید" یہ کہہ دے کہ کیاحقیقت کے اس طرح ثابت ہو جانے کے بعد بھی ۔

سائنسی استدلال موجودہ زمانےمیں معجزاتی استدلال کا بدل ہے۔جدید سائنس نے تمام دینی تعلیمات کو علمی طور پر ثابت شدہ یا کم از کم قابل فہم (understandable) بنا دیا ہے۔تاہم اسلام کے داعیوں نے ابھی تک اس کو واقعی معنوں میں استعمال نہیں کیا۔راقم الحروف نے اس موضوع پر دس سالہ مطالعہ کے بعد 1964ء میں ایک کتاب، "مذہب اور جدید چیلنج" لکھی تھی جو عربی زبان میں "الاسلام یتحدی"اور انگریزی زبان میں گاڈ ارائزز (God Arises) کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ تاہم پچھلے 20 سال میں علم کا دریا بہت آگے جا چکا ہے۔چنانچہ اب میں اس موضوع پر، ان  شاء اللہ، دوسری جامع کتاب تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔وبید اللہ التوفیق۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom