انسان کو خدا نے اس نظام کی پابندی سے بظاہر آزاد رکھا ہے۔تا ہم یہ آزادی صرف امتحان کی مصلحت کی بنا پر ہے۔ورنہ انسان سے بھی عین وہی روش مطلوب ہے جو بقیہ کائنات میں خدا نے قائم کر رکھی ہے۔فرق یہ ہے کہ بقیہ کائنات میں یہ روش خدا کے براہِ راست کنٹرول کے تحت قائم ہے اور انسان کی زندگی میں اس کو خود انسان کے اپنے ارادے کے تحت قائم ہونا ہے۔یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس میں کہا گیا ہے کہ خدا کے اخلاق کو اپنا اخلاق بناؤ:تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ(شرح العقیدۃ الطحاویۃ،صفحہ120)۔
اسلامی اخلاق کی بنیاد اس تصور پر قائم ہے کہ اخلاق ایک کائناتی حقیقت ہے۔جو اخلاق (standards of conduct) بقیہ کائنات کے لیے مقرر کیا گیا ہے، وہی اخلاق انسان سے بھی مطلوب ہے۔انسان کے لیے بقیہ کائنات ایک اخلاقی ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک اچھے انسان کے لیے بھی وہی بات صحیح ہے جو اسپینش رائٹرمیگول ڈی سرونیتش(Miguel de Cervantes, 1547-1616) نے ایک اچھے مصوّر کے بارے میں کہی ہے:
Good painters imitate nature, bad ones vomit it.
اچھے مصوّر فطرت کی نقل کرتے ہیں،برے مصوّر اس کو اگل دیتے ہیں۔
انسان کے سوا جو کائنات ہے اس کو خدا نے ایک قانون کا پابند بنا رکھا ہے۔وہ لازمی طور پر اس کے مطابق عمل کرتی ہے۔اس کائناتی قانون کو سائنس کی زبان میں قانون فطرت کہا جاتا ہے۔قرآن میں اسی بات کو اس طرح کہا گیا ہے کہ زمین و آسمان خدا کے امر کے تحت ہیں(32:5)۔
اور پھر یہی مطالبہ انسان سے کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے امر کےماتحت بن کر رہے (آل عمران، 3:154)۔حقیقت یہ ہے کہ خدا کا ایک ہی قانون ہے جس کی پیروی کائنات اور انسان دونوں سے مطلوب ہے۔بقیہ کائنات بجز اس قانون کو اختیار کیے ہوئے ہے۔اور انسان کو خود اپنے ارادہ کے تحت اس قانون کو اختیار کرنا ہے۔
اسلامی اخلاق کا یہ اصول قرآن کی حسب ذیل آیت میں ملتا ہے:
کیا لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔حالانکہ اسی کے تابع ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے خوشی سے یا نا خوشی سے۔اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے(3:83)۔
قرآن کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے بقیہ کائنات کا نظام جن اصولوں پر عملاً قائم کر رکھا ہے اسی کے مطابق وہ انسانی زندگی کے نظام کو بھی دیکھنا چاہتا ہے۔انسانی معاشرہ کو بھی انہیں ضابطوں میں ڈھل جانا چاہیے جس کا نمونہ کائناتی سطح پر ہر آن دکھایا جا رہا ہے۔