اس کے مقابلے میں اب قرآن سے اسی نوعیت کی ایک مثال لیجیے۔یہ فرعون موسیٰ کی مثال ہے۔اس کے بارے میں قرآن میں جو الفاظ آئے تھے، بعد کی تاریخ حیرت انگیز طور پر اس کی تصدیق بن گئی۔
تاریخ کے مطابق حضرت موسیٰ کے زمانے میں مصر کا جو بادشاہ غرق ہوا وہ رعمیس دوم کا فرزند تھا۔اس کا خاندانی لقب فرعون اور ذاتی نام مر نفتاح (Merneptah) تھا۔نزولِ قرآن کے وقت اس فرعون کا ذکر صرف بائبل کے محفوظات میں تھا۔ اس میں بھی صرف یہ لکھا ہوا تھا کہ "خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہہ و بالا کر دیا اور فرعون کے سارے لشکر کو سمندر میں غرق کر دیا" (خروج،14:28)۔
اس وقت قرآن نےحیرت انگیز طور پر یہ اعلان کیا کہ فرعون کا جسم محفوظ ہے اور وہ دنیا والوں کے لیے سبق بنے گا:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً (10:92)۔آج ہم تیرے بدن کو بچا لیں گے تا کہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی ہو۔
قرآن میں جب یہ آیت اتری تو وہ نہایت عجیب تھی۔اس وقت کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ فرعون کا جسم کہیں محفوظ حالت میں موجود ہے۔اس آیت کے نزول پر اسی حالت میں تقریباً چودہ سو سال گزر گئے۔پروفیسر لاریٹ (1946Victor Loret, 1859-) پہلا شخص ہے جس نے 1898ء میں مصر کے ایک قدیم مقبرہ میں داخل ہو کر دریافت کیا کہ یہاں مذکورہ فرعون کی لاش ممی کی ہوئی موجود ہے ۔8 جولائی 1907ء کو الیٹ اسمتھ (Sir Grafton Elliot Smith, 1871-1937) نے اس لاش کے اوپر لپٹی ہوئی چادر کو ہٹایا ۔اس نے اس کی باقاعدہ سائنسی تحقیق کی اور پھر 1912ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہے ― شاہی ممیاں:
The Royal Mummies, 1912, 118 pages
اس سے ثابت ہو گیا کہ یہ ممی کی ہوئی لاش اسی فرعون کی ہے جو تین ہزار سال پہلے حضرت موسیٰ کے زمانے میں غرق کیا گیا تھا۔ایک مغربی مفّکر کے الفاظ میں:
His earthly remains were saved by the will of God from destruction to become a sign to man, as it is written in the Qur'an.
فرعون کا مادی جسم خدا کی مرضی کے تحت برباد ہونے سے بچا لیا گیا تا کہ وہ انسان کے لیے ایک نشانی ہو ، جیسا کہ وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔
قرآن اور بائبل اور سائنس ( The Bible, the Quran, and Science) کے مصنف ڈاکٹر موریس بوکائلے (Maurice Bucaille) نے 1975ء میں فرعون کی اس لاش کامعائنہ کیا۔اس کے بعد انہوں نے اپنی کتاب میں اس پر جو باب لکھا ہے اس کا خاتمہ ان پُر اہتزاز سطروں پر ہوا ہے۔
Those who seek among modern data for proof of the veracity of the Holy Scriptures will find a magnificent illustration of the verses of the Quran dealing with the Pharoah's body by visiting the Royal Mummies Room of the Egyption Museum, Cairo!
وہ لوگ جو مقدس کتابوں کی سچائی کے لیے جدید ثبوت چاہتے ہیں وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرہ کو دیکھیں، وہاں وہ قرآن کی ان آیتوں کی شاندار تصدیق پا لیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے بحث کرتی ہیں۔
قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں کہا کہ فرعون کا جسم لوگوں کی نشانی کے لیے محفوظ ہے،اور وہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں نہایت صحت کے ساتھ بر آمد ہو گیا۔دوسری طرف موجودہ زمانے کے علماء سائنس نے اعلان کیا کہ پلٹ ڈاؤن کے مقام پر انہوں نے ایک ڈھانچہ دریافت کیا ہے، جو قدیم انسان کے جسم کا ایک حصہ ہے۔اور اگلی معلومات کے تحت وہ بالکل بے بنیاد ثابت ہو گیا ۔
کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شبہ باقی رہتا ہے کہ قرآن ایک خدائی کتاب ہے۔وہ عام انسانی تصنیفات کی طرح کوئی انسانی تصنیف نہیں۔