انتظارِ مسیح
’’مسیح کی آمد ِ ثانی‘‘ کے بارہ میں عام طورپر لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے بطور خود مسیح کا ایک پُر عجوبہ تصور قائم کررکھا ہے۔ اپنے اِس تصور کے مطابق، وہ ایک پر عجوبہ شخصیت کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں نصوص کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح کسی پُر اسرار شخصیت کے طورپر ظاہر نہیں ہوں گے۔ اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس بات کا سخت اندیشہ معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ میں دوبارہ وہی صورتِ حال پیش آئے جو اِس سے پہلے امتِ یہود کے ساتھ پیش آئی تھی۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود، آخری رسول کی آمد کا انتظار کررہے تھے، لیکن جب آخری رسول آیا، تو یہود نے اس کو ماننے سے انکار کردیا (البقرۃ: 89) کیوں کہ وہ یہود کو ان کے اپنے مفروضہ تصور کے مطابق نظرنہ آیا۔ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے دوبارہ یہ اندیشہ ہے کہ لوگ اپنے مفروضات کے مطابق، ایک خود ساختہ مسیح کی آمد کا انتظار کرتے رہیں گے، جو کہ کبھی آنے والا نہیں۔ وہ اِسی انتظار میں رہیں گے، یہاں تک کہ اچانک قیامت آجائے گی، اور لوگوں کے حصے میں ابدی حسرت اور محرومی کے سوا کچھ اور نہ آئے گا۔مسیح، امتِ مسلمہ کے ایک فرد کے مصلحانہ رول کا نام ہے، نہ کہ جسمانی طور پرآسمان سے نازل ہونے والی کسی پُراسرار شخصیت کا نام۔ امتِ مسلمہ کے ایک فرد کا یہ رول عیسیٰ بن مریم کے رول کے مشابہ ہوگا۔ اس لیے اس کو امتِ مسلمہ کا مسیح کہاگیا ہے۔