حدیث میں آئی ہوئی پیشین گوئیاں

1 - حدیث میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں ایک سنگین فتنہ ظاہرہوگا، یعنی فتنۂ دہیماء (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم)۔ اِس سے مرادغالباً ذہنی کہر(intellectual fog) جیسی صورتِ حال ہے۔ یہ صورتِ حال پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد شروع ہوئی، اور انٹرنیٹ کے دور میں آکر وہ اپنی آخری حد تک پہنچ گئی۔ اِس زمانے میں پرنٹنگ میٹریل اور الیکٹرانک میٹریل کے ذریعے اتنی زیادہ باتیں لوگوں کے درمیان پھیلائی گئی ہیں کہ اب ہر انسان معلومات کے جنگل میں جی رہا ہے۔ اِس صورتِ حال نے ایک ذہنی کہر کی حالت پیدا کردی ہے۔ ہر آدمی کا دماغ معلومات کا جنگل بنا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا اور غلط کو الگ کرکے صحیح کو دیکھنا، اتنا زیادہ مشکل ہوچکا ہے کہ وہ خدا کی خصوصی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

2 - ایک روایت کے مطابق، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ہرج بہت زیادہ نہ بڑھ جائے (لا تقوم السّاعۃ حتّٰی یکثر الہرْج)۔ لوگوں نے کہا کہ ہرج کیا ہے، اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا: القتل، القتل (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط السّاعۃ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل کا زمانہ ہے۔ اُس زمانے میں جدید ہتھیار نہیں بنے تھے۔ اُس وقت یہ ناقابلِ تصور تھا کہ قتل اور خوں ریزی ہر طرف عام ہوجائے۔ یہ صرف موجودہ زمانے میں ممکن ہوا ہے، جب کہ عمومی تباہی کے ہتھیار (weapons of mass destruction)بنائے گئے اور وسیع پیمانے کا قتل وخون ممکن ہوگیا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں ہر طرف اور ہر روز کثرت سے قتل اور خوں ریزی کے واقعات ہورہے ہیں۔ یہ صورت حال اِس بات کی علامت ہے کہ اب قیامت بہت قریب آچکی ہے۔ اِس پیشین گوئی کی صداقت کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ یہ پیشین گوئی بہت پہلے اُس وقت کی گئی، جب کہ موجودہ قسم کا قتل اور تشدد بالکل ناقابلِ قیاس تھا۔

3 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوُشک الفراتُ أن یحسر عن کنز من ذَہب (صحیح مسلم، کتاب الفتن) یعنی وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ دریائے فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے۔

اِس حدیث میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، اُس سے مراد واضح طورپر پٹرول ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سیّال سونا (liquid gold) کہاجاتا ہے اور جو بہت بڑی مقدار میں شرقِ اوسط (Middle East) کے عرب علاقے میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ واقعہ بھی پیغمبر اسلام کے زمانے میں ناقابلِ تصور تھا۔ موجودہ زمانے میں بلاشبہہ آپ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے۔ یہ واقعہ اِس بات کی ایک علامت ہے کہ قیامت اب زیادہ دور نہیں۔

4 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی دس نشانیوں کا ذکر فرمایا۔اُن میں سے ایک نشانی دُخان کا ظاہر ہونا ہے۔ دُخان کے لفظی معنیٰ دھواں (smoke) کے ہیں۔ اِس روایت میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا، جب کہ زمین کی پوری فضا دھویں سے بھر جائے گی۔

موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی واقعہ بن چکی ہے۔ اِس سے مراد واضح طورپر وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں فضائی کثافت (air pollution) کہاجاتا ہے۔یہ کثافت، جدید صنعتی دور کا ایک ظاہرہ ہے۔ جدید صنعتی دور نے تاریخ میں پہلی بار وہ چیز پیدا کی ہے جس کو کاربن ایمیشن (carbon emission) کہاجاتا ہے۔اس کے نتیجے میں پوری فضا کاربن ڈائی آکسائڈ سے بھر گئی ہے، جو انسان جیسی مخلوق کے لیے انتہائی حد تک مہلک ہے۔فضائی کثافت کا یہ معاملہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں ناقابلِ تصور تھا۔ ایسی حالت میں چودہ سو سال بعد اِس پیشین گوئی کا واقعہ بننا، قربِ قیامت کی ایک واضح نشانی کی حیثیت رکھتا ہے۔

5 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنکم سترون بعد قلیل أمراً عظیما، یُحرّق البیت، ویکون ویکون(صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔ یعنی آئندہ تم ایک امرِ عظیم دیکھو گے، وہ یہ کہ ایک گھر جلا دیا جائے گا۔ ایسا ہوگا اور ضرورہوگا۔

حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے تو یہ کسی عام گھر کو جلانے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہت بڑے گھر کو جلانے کی بات ہے، جیسا ’’گھر‘‘ قدیم زمانے میں موجود نہ تھا۔اِس پیشین گوئی سے غالباً وہ واقعہ مراد ہے جو 11 ستمبر 2001 کو نیویارک (امریکا) میں پیش آیا۔ یہاں مشہور ورلڈ ٹریڈ سنٹر (World Trade Centre) واقع تھا۔ یہ سنٹر 1970-72 میں تعمیر کیاگیا تھا۔ اس کی ایک سودس منزلیں تھیں۔ یہ گویا کہ ایک عمارتی پہاڑ تھا۔ روایتی طریقوں سے اس کو توڑنا، یا جلانا ناممکن تھا۔ مذکورہ تاریخ کو کچھ لوگوں نے دو ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور اس کو فضا میں تیز اڑاتے ہوئے لے جاکر ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا دیا۔ اِس کے بعد ایک عظیم دھماکہ کے ساتھ پوری بلڈنگ جل کر کھنڈر ہوگئی۔

ایسے کسی واقعے کے ظہور میں آنے کے لیے بہت سے اسباب درکار تھے۔ یہ اسباب تاریخ میں پہلی بار بیسویں صدی عیسوی میں انسان کو حاصل ہوئے۔ ایسی حالت میں اِس انوکھی پیشین گوئی کا حرف بہ حرف پورا ہونا، اِس بات کی یقینی علامت ہے کہ اب قیامت کا وقت قریب آچکا ہے، اس کے آنے میں اب زیادہ دیر نہیں۔

6 - ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تقوم السّاعۃ حتّی لا یُقال فی الأرض: اللّٰہ، اللّٰہ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان؛ الترمذی، کتاب الفتن) یعنی قیامت صرف اُس وقت قائم ہوگی جب کہ زمین پر کوئی اللہ، اللہ کہنے والا باقی نہ رہے۔

اِس حدیث میں قول سے مراد قولِ لسان نہیں ہے، بلکہ قولِ معرفت ہے، جیسا کہ قرآن (المائدۃ: 83) سے ثابت ہوتا ہے۔ قولِ معرفت کا معیار قرآن میں بتادیا گیا ہے۔ وہ معیار یہ ہے کہ قولِ معرفت ایک ایسے انسان کی زبان سے نکلتا ہے، جو اللہ کے ساتھ حبِّ شدید (البقرہ: 165) اور خوفِ شدید (التوبۃ: 18) کا تعلق رکھتاہو۔جس کا حال یہ ہو کہ جب اس کے سامنے خدا کا ذکر کیا جائے، تو اس کا سینہ خدا کی عظمت کے احساس سے دہل اٹھے (الأنفال:2)۔جب زمین پر اِس معنی میں خدا کی عظمت کا اعتراف کرنے والے لوگ باقی نہ رہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔

انسان کا وجود اور یہاں کی ہر چیز جو انسان کو ملی ہوئی ہے، وہ سب خدا کا انعام ہے۔ اللہ کا چرچا کرنے والوں کا زمین پر نہ ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ ایسی صورت ِ حال کا مطلب یہ ہے کہ لوگ خدا کے انعام کو تو خوب خوب لے رہے ہیں، لیکن وہ مُنعم کا اعتراف نہیں کرتے۔ جب زمین پر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان نے آخری طورپر اِس بات کا جواز کھودیا ہے کہ اُس کو خدا کی زمین پر مزید آباد رہنے کا موقع دیاجائے۔

موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایسے لوگ تو کثرت سے ملیں گے جو تکرارِ لسان کے طور پر اللہ کا نام لیں، مگر اللہ کے نزدیک ایسے لوگوں کی کوئی قیمت نہیں، اور جہاں تک حقیقی معنوں میں اللہ کویاد کرنے کا سوال ہے، ساری زمین پر بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اِس معاملے میں مطلوب معیار پر پورے اتریں۔

اِس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ پرنٹنگ پریس اور اسٹیج کے دور کے آنے کے بعد مسلمان بڑی بڑی سرگرمیاں کررہے ہیں، مگر حقیقی معنوں میں خدا کا چرچا کرنے والے لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔ لوگ اپنے قومی فخر میں جی رہے ہیں، نہ کہ خدا کی عظمت میں۔ خدا کی حقیقی عظمت کا ذکر ان کی تقریروں اور تحریروں اور ان کے اداروں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی قومی عظمت کو تو ضرور دریافت کیا، لیکن وہ خدا کی عظمت کو دریافت نہ کرسکے۔ ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ ان کی زندگیاں خدا کی حقیقی عظمت کے چرچے سے خالی نظر آئیں۔

7 - قربِ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ اُس زمانے میں اسلام کا کلمہ دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل ہوجائے گا (لایبقیٰ علیٰ ظہر الأرض بیت مَدر، ولا وبر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام)۔ اِس سلسلے میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں: بعِزّعزیز، وذُلّ ذلیل (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 4)۔ یعنی عزت والے کو عزت کے ساتھ اور ذلت والے کو ذلت کے ساتھ۔اِس سے مراد کسی قسم کی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ یہ ایک اسلوبِ کلام ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ— خواہی نہ خواہی (willingly or unwillingly) یعنی کوئی شخص چاہے یا نہ چاہے، اسلام کا کلمہ بہر حال اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا۔

یہ واقعہ کس طرح ہوگا۔ کمپیوٹر ایج (computer age)نے اِس بات کو پوری طرح قابلِ فہم بنا دیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ عملاً ہر گھر میں اور ہر آفس میں کمپیوٹر داخل ہوگیا ہے۔ انٹرنیٹ اور ویب سائٹ پر تمام اسلامی معلومات بھری جارہی ہیں۔ اب دنیا کے کسی بھی مقام پر اور کسی بھی آفس یا گھر میں ایک شخص اپنے کمپیوٹر کے ذریعے، اسلام کے بارے میں پوری معلومات خود اپنی زبان میں حاصل کرسکتا ہے۔اِس معاملے پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آتا ہے کہ ہرگھر میں کلمۂ اسلام کے داخلے سے مراد امکانی داخلہ (potential entry) ہے، نہ کہ واقعی داخلہ (actual entry)۔ اور امکانی داخلے کے اعتبار سے بلا شبہہ، اسلام کا کلمہ ہر گھر میں داخل ہوچکا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom