سائنسی انقلاب کے دو پہلو
مہدی اور مسیح اور دجّال کوئی پُراسرار شخصیتیں نہیں ہیں۔ یہ دراصل ما بعد سائنس دور (post scientific age) کے حالات میں پیش آنے والے فطری واقعات ہیں۔ قرآن کی تصریح کے مطابق، موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ شر کے ساتھ خیر اور خیر کے ساتھ شر کا پہلو شامل رہتا ہے (النور: 11)۔ اِس عام فطری اصول کے مطابق، سائنسی انقلاب کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا کہ اُس کے ہر شر میں خیر اور ہر خیر میں شر کا پہلو شامل تھا۔ اِس کے بعد فطری طورپر دو کردار سامنے آئے۔ ایک، وہ کردار جس کے حصے میں سائنسی انقلاب کے منفی پہلو کا استعمال آئے گا۔ اور دوسرا، وہ کردار جو سائنسی انقلاب کے مثبت پہلو کے استعمال کا کریڈٹ (credit) پائے گا۔
ایک مثال سے اِس کی وضاحت ہوگی۔ قدیم زمانے میں ایٹم (atom) کو مادّے کا آخری ناقابلِ تقسیم ذرّہ سمجھا جاتا تھا جو کہ مادّے کی آخری اکائی تھا۔اِس سے یہ نظریہ بنا کہ حقیقت وہ ہے جو قابلِ پیمائش ہو۔ لیکن جرمن سائنس داں آئن اسٹائن (وفات: 1955) کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایٹم مزید ٹوٹ سکتاہے۔ ایٹم کے اِس ٹوٹنے کے واقعے کو جوہری انشقاق (nuclear fission)کہاجاتا ہے۔ اِس عمل میں ایٹم کا مرکزہ جوہری ذرات کے تصادم سے پھٹ کر غیر معمولی توانائی خارج کرتاہے:
Nuclear fission: the spontaneous or impact -induced splitting of a heavy atomic nucleus, accompanied by a release of energy.
اِس جوہری انشقاق (nuclear fission) کا ایک پہلو یہ تھا کہ اُس سے انتہائی شدید قسم کی توانائی خارج ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اِس توانائی کا منفی استعمال کیا۔ انھوں نے اِس کے ذریعے سے ایٹم بم (atomic bomb) یا نیوکلیر بم (nuclear bomb) بنایا۔ اِس طرح ایک ایسا تخریبی ہتھیار بنا، جو تمام مہلک ہتھیاروں سے زیادہ بڑا مہلک ہتھیار تھا۔
لیکن اِس جوہری انشقاق کے واقعے میں ایک عظیم مثبت پہلو بھی شامل تھا۔ جوہری انشقاق سے پہلے ایٹم کو آخری مادّی اِکائی سمجھا جاتا تھا۔ اِس کے تحت یہ نظریہ بنا کہ حقیقت صرف وہ ہے جو تجربے میں آئے۔ جو چیز انسان کے براہِ راست تجربے میں نہ آئے، وہ حقیقت بھی نہیں۔ مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد یہ نظریہ ختم ہوگیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم کے ماورا بھی کچھ ایسی حقیقتیں ہیں جو مشاہدے میں نہیں آتیں، اگر چہ وہ اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اِن حقیقتوں کو صرف ان کے اثر (effect) کے ذریعہ جانا جاسکتا ہے۔ اِس طرح بالواسطہ استدلال (inferential argument) کا طریقہ رائج ہوا۔ علمی حلقے میں یہ مان لیاگیا کہ بالواسطہ استد لال یا استنباط (inference) بھی اتنا ہی معقول استدلال (valid argument) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال (direct argument)۔
اِس واقعے کا ایک زبردست الٰہیاتی پہلو تھا۔ قدیم زمانے کے فلاسفہ اور متکلمین، خدا کے وجود پر جو استدلال قائم کرتے تھے، وہ تمام تر بالواسطہ استدلال ہوا کرتا تھا۔ مثلاً وہ استدلال جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہا جاتا ہے۔ اِس طرزِ استدلال کو منکرینِ خدا نے یہ کہہ کررد کردیاکہ یہ کوئی سائنٹفک استدلال نہیں ہے۔ مگر اب جب کہ خود سائنس میں جوہری انشقاق کے بعد یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال (inferential argument) بھی علمی اعتبار سے ایک معقول استدلال ہے، تو علمِ الٰہیات (theology) ایک نئے دور میں داخل ہوگیا، یعنی ایک ایسے دور میں جب کہ الٰہیاتی استدلال بھی عقلی طورپر اتنا ہی قابلِ قبول ہے، جتنا کہ معروف سائنسی استدلال۔