یاجوج اور ماجوج کا مصداق
یاجوج اور ماجوج سے کون لوگ مراد ہیں، اِس کے بارے میں اہلِ علم نے مختلف رائیں دی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اِس معاملے میں مولانا انور شاہ کشمیری (وفات: 1934) کی رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے روس اور برطانیہ اور جرمنی کی قوموں کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے: أما الکلام فی یأجوج ومأجوج، فاعلم أنہم من ذریۃ یافث باتفاق المؤرخین۔ ویقال لہم فی أوربّا: ’کاک میکاک‘ وفی مقدمۃ ابن خلدون ’غوغ ماغوغ‘ وللبریطانیۃ إقرار بأنہم من ذریۃ مأجوج، وکذالک ألمانیا أیضا منہم، وأما الروس فہم من ذریۃ یأجوج (فیض الباری علی صحیح البخاری، جلد4، صفحہ 23)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد وہ مغربی قومیں (western nations) ہیں جو یورپ میں آباد ہوئیں۔
یاجوج اور ماجوج کے بارے میں جو دستیاب معلومات (available data)ہیں، وہ سب سے زیادہ یورپی قوموں پر صادق آتی ہیں۔ یہ معلومات زیادہ تر تمثیل کی زبان میں ہیں، اِس لیے لوگوں کو ان کا مفہوم سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اگر اِس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے تو تقریباً بلا اشتباہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج اور ماجوج سے مراد وہی قومیں ہیں جن کو یورپی قومیں کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ حضرت نوح کے بیٹے یافِث (Japheth) کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ غالباً پہلے مغربی یورپ میں آباد ہوئے، پھر انھیں کی نسلیں امریکا اور آسٹریلیا میں پھیل گئیں۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھیری تھی(ھود: 44)۔ جودی پہاڑ قدیم ترکی کے سرحدی علاقے میں واقع ہے۔ ترکی، یورپ کا ایک حصہ مانا جاتا ہے۔ حضرت نوح کی کشتی جب یہاں ٹھیری، تو اُس وقت یہاں آپ کی اولاد میں سے تین افراد تھے—حام، سام اور یافث۔ پہلے دونوں افراد، ایشیا اور افریقہ کے علاقے میں آباد ہوئے۔ اور یافث کی اولاد ابتداء ً روس کے علاقے میں آباد ہوئی اور پھر بعد کو وہ یورپ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئی۔ غالباً مغربی ملکوں میں آباد ہونے والے یہی وہ لوگ ہیں جن کو قدیم کتابوں میں یاجوج اور ماجوج کہاگیا ہے۔ یاجوج اور ماجوج کو ئی پُراسرار لوگ نہ تھے، اور نہ وہ ایسے لوگ تھے جن کے لیے خدا نے ابدی طورپر گم راہی مقدر کردی ہو۔ وہ دوسرے انسانوں کی مانند انسان تھے۔ اُن کے ساتھ جو واقعات پیش آئے، وہ سب عام فطری قانون کے تحت پیش آئے۔