کرۂ ارض میں تبدیلی
قرآن اور حدیث میں کثرت سے بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے کچھ علامتی واقعات ظاہر ہوں گے، جو یہ بتائیں گے کہ قیامت اب قریب آگئی ہے۔ مثال کے طورپر اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: یوم تُبدّل الأرض غیر الأرض والسمٰوات، وبرزوا للّٰہ الواحد القہار (ابراہیم: 48) یعنی جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔اور سب اللہ، واحد وقہّار کے سامنے پیش ہوں گے۔
اِس آیت میں کرۂ ارض کے اندر جس تبدیلی کا ذکر ہے، وہ غالباً اچانک تبدیلی نہیں ہے، بلکہ وہ بتدریج ہونے والی تبدیلی ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ واقعہ عملاً پیش آرہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے میں سائنس کی مختلف شاخوں میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ اِس کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان اِن ہونے والی تبدیلیوں کو بَروقت جان سکے، جب کہ سائنسی ترقی سے پہلے انسان کے لیے اِن تبدیلیوں کو جاننا ممکن نہ تھا۔ یعنی خدا نے ایک طرف قیامت کی پیشگی خبر کے طورپر زمین میں چشم کشا تبدیلیاں پیدا کیں، اور عین اُسی وقت خدا نے انسان کو وہ جدید سائنسی طریقے عطا کردیے جن کے ذریعہ وہ اِن تبدیلیوں کو براہِ راست طور پر جان سکے۔
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بھر کے سائنس دانوں نے اپنے مطالعے کے مطابق، متفقہ طورپر یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ زمین میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کے نتیجے میں نہایت تیزی سے تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ جدید سائنسی مشاہدات کے مطابق، اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ ہونے والا ہے کہ تقریباً2050 سے پہلے ہی ہماری زمین ناقابلِ رہائش (inhabitable) ہوجائے۔
پچھلے دس برسوں کے اندر اِس سلسلے میں سائنس دانوں کی طرف سے بہت سی رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں۔ حال میں امریکا کے سائنس میگزین میں اِس سلسلے میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ یہ ناسا (NASA) کے ایک ٹاپ سائنٹسٹ (James Hansen) کی طرف سے ہے۔ اِس رپورٹ کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9 اپریل 2008) میں اِس عنوان کے تحت چھپا ہے— زمین خطرے میں (Earth in Crisis)۔اِس رپورٹ کے مطابق، زمین پر بحران کی حالت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ بروقت ہی وہ خطرے کی سطح تک پہنچ چکی ہے:
“We have already reached dangerous level of carbon dioxide in the atmosphere,” James Hansen, 67, director of Nasa’s Goddard Institute for Space Studies in New York, said. (p. 35)
زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کے بگڑنے کے معاملے میں سائنس داں جو خبریں دے رہے ہیں، وہ نظریاتی تخمینہ پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ وہ خالص مشاہدات کے ذریعے حاصل کی ہوئی معلومات ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو جدید ترین سائنسی طریقے دریافت ہوئے ہیں، اُن کے ذریعے مسلسل مشاہداتی مطالعہ کیاگیا ہے اور پھر یہ رپورٹیں میڈیا میں بھیجی گئیں۔ یہ معلومات تمام کی تمام ایسی ہیں جن کو کوئی بھی شخص سائنسی ذرائع کو استعمال کرکے جان سکتا ہے۔