فتنۂ دُہیماء
فتنۂ دہیماء کے لفظی معنی ہیں— سخت سیاہ اور تاریک فتنہ (الفتنۃ السّوداء المظلمۃ۔ لسان العرب 12/211)۔ یہاں سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہوگی جو اِس عمومی سیاہی یا تاریکی کا سبب بنے گی۔ کیوں ایسا ہوگا کہ لوگ اپنے آپ کو فکری اعتبار سے تاریکی کے جنگل میں بھٹکتا ہوا محسوس کریں گے۔ اِس پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آئے گا، جب کہ لکھے اور بولے ہوئے الفاظ کی بہت زیادہ کثرت ہوجائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اِس قسم کے حالات پہلی بار موجودہ زمانے میں پیش آئے ہیں۔ موجودہ زمانے میں جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور الیکٹرانک میڈیا کا رواج عمل میں آیا، تو تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا کہ بے شمار کتابیں چھپ کر ہر جگہ پھیل گئیں۔ اِسی کے ساتھ ریڈیو اور ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے الفاظ کی ایک نئی دنیا میں وجود میں آگئی۔ انٹرنیٹ پر مختلف قسم کی جو معلومات ڈالی جارہی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ہر دو منٹ میں اس کے اندر پانچ ہزار صفحات سے زیادہ معلومات کااضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی معاملہ مطبوعہ کتابوں کا ہے۔
ایک روایت، حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اِس میں بعد کے زمانوں کا ذکر کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فتنۃ اللّسان فیہا أشدّ من السّیف (أبوداؤد، کتاب الملاحم) یعنی ایک زمانہ آئے گا، جب کہ زبان یا الفاظ کا فتنہ تلوار کے فتنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوجائے گا۔موجودہ زمانے میں الفاظ کا یہ فتنہ اپنی آخری صورت میں سامنے آچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں جوچیز سب سے زیادہ گم راہی کا سبب بن رہی ہے، وہ بلاشبہہ خوش نما قسم کے پُرفریب الفاظ ہیں، جو فضا میں اِس طرح بھر گئے ہیں کہ کوئی بھی عورت یا مرد اُس سے محفوظ نہیں۔
الفاظ کے اِس تاریک فتنے سے بچنا کس طرح ممکن ہوگا۔ اُس کا راز ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المعرفۃُ جُنّۃ من الفتن (الدارمی، مقدمۃ)۔ یعنی معرفت، فتنہ کے مقابلے میں ڈھال ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خوش نما الفاظ کے سحر سے باہر آنے کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی کے اندر معرفت موجود ہو۔ معرفت کے سوا کوئی بھی دوسری چیز نہیں جو آدمی کو اِس قسم کے فتنے سے بچاسکے۔
مہدی دراصل اِسی قسم کا ایک صاحبِ معرفت انسان ہوگا۔ اس کے اندر خدا کی خصوصی توفیق سے یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ لفظی مغالطے کو سمجھ سکے۔ وہ خوش نما الفاظ اور حقیقی استدلال کے فرق کو جانے۔ وہ ایک گم راہ کُن بیان کا تجزیہ کرکے اس کی گم راہی کو کھول سکے۔ اس کے اندر تجزیہ کی طاقت (power of analysis) کمال درجے میں موجود ہو،وہ محدَّد تبیین(precise description) کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اپنی اِسی معرفت کی بنا پر وہ خود الفاظ کے فتنے سے بچے گا اور دوسروں کے لیے الفاظ کے فتنے سے بچنے کا ذریعہ بنے گا۔ مہدی، یا رجلِ مومن کے اِسی اہم رول کی بنا پر اُس کی بابت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وجب علی کُلّ مؤمن نصرُہ أو قال إجابتہ (سنن أبی داؤد، کتاب المہدی) یعنی مہدی، یا رجلِ مومن کے ظہور کے وقت ہر مومن پر واجب ہوگا کہ وہ اس کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرے، یا آپ نے یہ فرمایا کہ وہ اس کی پکار پر لبیک کہے۔
اِس حدیث سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہدی، یا رجلِ مومن کے ظہور کا معاملہ کوئی پُر اسرار معاملہ نہیں۔ اُس کے ظہور کا معاملہ اگر کسی معجزاتی شخصیت کے ظہور کا معاملہ ہو، تو پھر ایسے شخص کی نصرت کی تاکید ایک غیر ضروری بات ہوگی۔ کیوں کہ ایک ایسا انسان جو معجزاتی شخصیت کی حیثیت رکھتا ہو، اس کو اپنا مطلوب رول ادا کرنے کے لیے خود معجزہ کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔