آبی قانون

اِسی طرح قدیم زمانے سے انسان دریاؤں اور سمندروں میں سفر کرتا تھا۔ اس کے لیے بھی یہ موقع تھا کہ وہ اِس آبی سفر پر خالق کا شکر ادا کرے۔ لیکن موجودہ زمانے میں اِس موضوع پر جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے اِس معاملے میں آدمی کے پوائنٹ آف ریفرنس کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔مثلاً یہ کہ کس قانونِ فطرت کے تحت کشتی پانی کے اوپر چلتی ہے، اِس کا علم پہلے انسان کو نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں وسیع تحقیقات کے ذریعے اِس معاملے میں انسان کے علم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ چناں چہ سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ ایک آبی قانون ہے جس کے تحت ایسا انوکھا واقعہ ممکن ہوتا ہے کہ کشتیاں اور جہاز سمندر میں تیرتے ہوئے دور کی منزل تک پہنچ جائیں۔ اِس آبی قانون کو آج کل کی زبان میں ہائڈرواسٹیٹکس (hydrostatics) کہاجاتا ہے، جس کا ایک شعبہ بائنسی (buoyancy) ہے۔اِس سے مراد پانی کا یہ انوکھا قانون ہے کہ جب کوئی چیز پانی میں ڈالی جاتی ہے، تو وہ پانی کے اندر جتنی جگہ گھیرتی ہے، اُسی کے بقدر وہاں اَپ ورڈ پریشر پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کشتی پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہے:

Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.

پانی کی سطح پر کشتی کا چلنا پہلے بھی انسان کے اندر شکر کا جذبہ پیدا کرتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس کی مذکورہ دریافت نے اِس معاملے میں انسان کے پوائنٹ آف ریفرنس کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اب اِن نئی معلومات کے ساتھ جب ایک انسان کشتی یا جہاز کو تیز رفتاری کے ساتھ پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے دیکھتا ہے، تو اُس کا سینہ بہت زیادہ اضافے کے ساتھ شکر ِ خداوندی کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔ اعلیٰ شکر کا یہ موقع انسان کو جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom