مغرب کا دورِ عروج
مغربی قوموں نے جدید کمیونکیشن کو لمبی جدوجہد کے بعد دریافت کیا تھا۔اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے فائدے کا بڑا حصہ(lion’s share) مغربی قوموں کو ملا۔ اِس کے ذریعے انھوں نے پہلے نوآبادیات (colonializm) کادور پیدا کیا، پھر اِسی کا یہ نتیجہ ہواکہ وہ عالمی مواصلاتی سَیطرہ وجو د میں آیا جس کو گلوبلائزیشن (globalization) کہاجاتا ہے۔ انھوں نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج (global village) کی حیثیت دے دی، جس کی مرکزی طاقت فطری طورپر اہلِ مغرب خود تھے۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو وہ ہے جو ایک حدیثِ رسول سے بطور پیشین گوئی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک لمبی حدیث ہے جو یا جوج اورماجوج کے تذکرے کے ذیل میں آئی ہے۔ اُس کے ایک حصے کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتاہے:
’’ابوسعید خُدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا— یاجوج اور ماجوج کو کھولا جائے گا، پھر وہ لوگوں کی طرف نکلیں گے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے (وہم من کلّ حَدَب ینسلون)۔ پھر وہ لوگوں کے اوپر چھا جائیں گے۔اہلِ ایمان اُن سے بچنے کے لیے اپنے شہروں اور اپنی پناہ گاہوں میں چلے جائیں گے اور اپنے مویشیوں کو وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ یاجوج اور ماجوج زمین کا سارا پانی پی جائیں گے (ویشربون میاہ الأرض)۔ اُن میں سے کچھ لوگ ایک دریا کے پاس آئیں گے اور اس کا پانی پی کر اس کو خشک کردیں گے، پھر کچھ لوگ اُس دریا سے گزریں گے، تووہ اس کو دیکھ کر کہیں گے کہ کبھی یہاں پانی موجود تھا۔ زمین کے صرف وہ لوگ یاجوج اور ماجوج سے بچیں گے جو اپنے شہر یا اپنی پناہ گاہ میں تھے۔ پھر یاجوج اور ماجوج میں سے کوئی شخص کہے گا: ہم زمین والوں سے فارغ ہوگئے، اب آسمان والے باقی ہیں (ہؤلاء أہل الأرض قد فرغنا منہم، بقی أہل السماء)۔ پھر اُن میں سے کوئی شخص اپنے حربہ کو حرکت دے گا اور وہ اس کو آسمان کی طرف پھینکے گا، اس کے بعد وہ حربہ ان کی آزمائش کے لیے خون آلود ہو کر ان کی طرف لوٹ آئے گا۔ (مسند احمد، جلد 3، صفحہ 77)