دورِ آخر کے مجدّد کی پہچان

اب یہ سوال ہے کہ دورِ آخر کے مجدد کی پہچان کیاہوگی۔ اُس کی پہچان بلاشبہہ یہ نہیں ہوگی کہ وہ کچھ پُر عجوبہ صفات کا مالک ہوگا۔ اس کی پہچان بنیادی طورپر دو ہوگی۔ اور یہ دونوں چیزیں واضح طورپر قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتی ہیں۔ حدیث میں دورِ آخر کے بارے میں ایک طویل روایت آئی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: لایبقیٰ من الإسلام إلاّ اسمہ، ولا یبقی من القرآن إلاّ رسمہ، مساجدہم عامرۃ، وہی خراب من الہُدیٰ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان)۔ یعنی اُس وقت اسلام میں سے کچھ نہیں بچے گا، سوائے اس کے نام کے۔ اور قرآن میں سے کچھ نہیں بچے گا، سوائے اس کے نشان کے۔ اُس وقت ان کی مسجدیں خوب آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت کے اعتبار سے بالکل ویران ہوں گی۔

اِس حدیث کا مطلب کیا ہے، وہ ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ اِس دوسری روایت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے زمانے کے بارے میں فرمایا: بدأ الإسلام غریباً، وسیعود کما بدأ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی اسلام جب شروع ہوا، تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا۔

اِس قسم کی روایتوں پر غور کرنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ دورِ آخر کے مجدد کی سب سے پہلی علامت یہ ہوگی کہ وہ خدا کی خصوصی توفیق سے، دین ِ حق کو دوبارہ اس کی حقیقی صورت میں دریافت کرے گا۔ وہ ظاہری فارم سے گزر کر، اسلام کی اصل اسپرٹ کا فہم حاصل کرے گا۔ وہ قرآن کی مغالطہ آمیز تشریح سے گزر کر قرآن کے اصل پیغام کو سمجھے گا۔ وہ دین ِاجنبی کو دوبارہ اپنے لیے دین ِ معروف بنائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ خدا کے دین کو دوبارہ اُس طرح دریافت کرے گا، جس طرح اصحابِ رسول نے اس کو دریافت کیا تھا۔ زمانے کے اعتبار سے، وہ بعد کا انسان ہوگا، لیکن معرفت کے اعتبار سے وہ اصحابِ رسول جیسی معرفت کا حامل ہوگا۔

اُس کی دوسری علامت وہ ہوگی جو قرآن میں پیغمبروں کی نسبت سے اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: وما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومہ (ابراہیم: 4) یعنی خدا نے جو رسول بھی بھیجے، وہ ان کی اپنی قوم کی زبان میں بھیجے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں، بلکہ وہ ایک نہایت اہم بات ہے جو رسول کو پہچاننے کے معاملے میں ایک یقینی معیار کو بتاتی ہے۔

اِس آیت میں ’’لسان‘‘ سے مراد صرف زبان (language)نہیں ہے، اِس میں وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک کامیاب زبان کا ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً وضوح(clarity)، مؤثر اسلوب، ایسا کلام جو معاصر ذہن کو پوری طرح ایڈریس کرنے والا ہو، وغیرہ۔

اِس قسم کا طاقت ور اسلوب کبھی اکتسابی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ وہبی طورپر کسی ایسے شخص کو عطا ہوتا ہے جس سے خدا اپنے دین کی تبیین کا کام لینا چاہے۔ اِس استثنائی صفت کے باوجود جو لوگ اس کو نہ پہچانیں، وہ اُسی قسم کے اندھے پن میں مبتلا ہیں، جس اندھے پن کی بنا پر لوگوں نے پچھلے پیغمبروں کو نہیں پہچانا اور وہ ان کے منکر بنے رہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom