فکری دیوار
اِس حدیثِ رسول پر اور اس کے بعد بننے والی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بند (رَدْم) سے مراد غالباً کوئی مادّی دیوار (physical barrier) نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد فکری دیوار (intellectual barrier) ہے۔ یہ فکری دیوار وہی ہے جس کو فطرت پرستی (nature worship) کہاجاتا ہے۔ اِس عقیدے کا ٹوٹنا ہی بند کا ٹوٹنا تھا، جس کے بعد مغربی قوموں کے لیے تمام ترقیوں کا دروازہ کھلا۔ اس کے بعد وہ اِس قابل ہوگئے کہ اپنے علاقے کے باہر کی دنیا میں داخل ہو کر اس میں غلبہ حاصل کرسکیں۔
اصل یہ ہے کہ فطرت (nature) کے اندر اُن تمام ترقیوں کے اسباب چھپے ہوئے تھے، جن کی دریافت کے بعد جدید مغربی تہذیب ظہور میں آئی۔یہ اسباب ہمیشہ سے فطرت کے اندر موجود تھے، لیکن فطرت کو معبود کا درجہ دے دیا گیا۔ اِسی سے فطرت پرستی کا مذہب پیدا ہوا۔ اُس وقت انسان، فطرت کو معبود کی نظر سے دیکھتا تھا، اِس لیے وہ اس کی تحقیق اور تفتیش کی جرأت نہ کرسکا۔ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں جب اسلام کے ذریعے توحید پر مبنی انقلاب واقع ہوا، اور فطرت پرستی کی جگہ خدا پرستی کا رواج دنیا میں قائم ہوا، اس کے بعد فطرت کا تقدس (holiness) ٹوٹ گیا۔ اب فطرت(nature) عبادت کے بجائے تسخیر کا موضوع بن گئی۔ یہی جدید مادّی تہذیب کا نقطۂ آغاز تھا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تاریخِ توحید میں پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا کہ توحید کا عقیدہ فکری مرحلے سے گزر کر انقلاب کے مرحلے میں پہنچ گیا۔ہجرتِ نبوی کے آٹھویں سال مکہ فتح ہوا، اور کعبہ کو بتوں سے پاک کردیاگیا۔ اِس کے جلد ہی بعد پورے عرب میں توحید کا دبدبہ قائم ہوگیا، اور پھر بہت کم مدت میں تقریباً پوری دنیا میں یہ واقعہ پیش آیا کہ فطرت پرستی یا تو ختم ہوگئی، یا وہ غیر موثر ہو کر گوشہ گیر ہونے پر مجبور ہوگئی۔
اس انقلاب کا اصل پہلو اُس کا مذہبی پہلو تھا۔ وہ اہلِ اسلام کے ذریعے دنیا میں قائم ہوا۔ اِس کا دوسرا پہلو وہ تھا جس کو اُس کا سیکولر پہلو کہا جاسکتا ہے۔ اِس دوسرے پہلو کی اشاعت زیادہ تر یورپ میں ہوئی۔ اہلِ یورپ نے اس کو اپنی خصوصی تحقیق کا موضوع بنایا اور پھر اس کو ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچا دیا۔ مغربی قوموں کے درمیان اِس دوسرے پہلو کا فروغ زیادہ واضح طورپر،صلیبی جنگوں (crusades) کے بعد چودھویں صدی عیسوی سے شروع ہوا، اور بیسویں صدی عیسوی کے آخر تک وہ ایک مکمل تہذیب کے مرحلے تک پہنچ گیا۔
وہ چیز جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کے مبنی بر توحید انقلاب کا ایک سیکولر ایڈیشن ہے۔ فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹانے کا جو کام اسلام نے انجام دیا، اُس کا یہ براہِ راست نتیجہ تھا کہ فطرت کی تحقیق اور تفتیش کا عمل شروع ہوگیا۔ یہ عمل ابتدائی طورپر قدیم بغداد اور قدیم قرطبہ، وغیرہ میں مسلمانوں کے درمیان شروع ہوچکا تھا، لیکن صلیبی جنگوں کے بعد یہ کام تمام تر اہلِ یورپ نے انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید مادّی تہذیب کو مؤرخین عام طورپر اہلِ مغرب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں جو مذکورہ انقلاب برپا ہوا، وہ دوبارہ ایک نئے انقلاب کا نقطۂ آغاز (starting point) تھا۔ اِس دوسرے انقلابی عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ واقعہ تھا جو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کی صورت میں پیدا ہوا۔ موجودہ سائنسی انقلاب بظاہر ایک سیکولر انقلاب تھا، لیکن اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے وہ گویااسلامی انقلاب کے ہم معنیٰ تھا۔
قرآن، ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ قرآن میں بار بار یہ کہاگیا ہے کہ زمین اور آسمان کی چیزوں پر غور کرو۔ اِس میں تم خدا کی نشانیاں (signs) پاؤگے۔ مگر بوقتِ نزولِ قرآن، یہ خدائی نشانیاں کلی طورپر ظاہر نہیں ہوئی تھیں، وہ نیچر میں چھپی ہوئی تھیں۔ اِس بنا پر، قرآنی غور وفکر کے لیے انسان کے پاس مطلوب فریم ورک موجود نہیں تھا۔ خدا نے چاہا کہ یہ فریم ورک انسان کو حاصل ہوجائے۔
اِس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ قدیم زمانے کا بادشاہی نظام تھا۔ بادشاہی نظام نے کائنات میں آزادانہ غور وفکر کا راستہ بند کررکھا تھا۔ اِس بنا پر یہ بادشاہت خدا کی اسکیم کے خلاف تھی۔ چناں چہ خدا نے اصحاب رسول کے ذریعے تاریخ میں مداخلت کی۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ محض ایک سیاسی تبدیلی کا واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ بعد کو ظہور میں آنے والے سائنسی انقلاب کا ابتدائی مرحلہ تھا۔ اُس وقت کے دو بڑے شہنشاہی نظام، بازنطینی ایمپائر، اور ساسانی ایمپائر کو اصحابِ رسول کے ذریعے توڑ دیاگیا، تاکہ کھلی فضا میں سائنسی غور وفکر کا آغاز ہوسکے(الأنبیاء: 18)۔ یہی انقلابی واقعہ ہے جس کا ذکر بائبل میں ایک قدیم پیغمبر کی زبان سے پیشین گوئی کے طورپر اِس طرح بیان کیا گیا ہے— اس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں۔ ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے۔ قدیم ٹیلے جھک گئے:
He looked and startled the nations. And the everlasting mountains were scattered (Habakkuk 3:6)
یہاں ’’ازلی پہاڑ‘‘سے مراد وہ سیاسی پہاڑ ہے، جو شہنشاہی نظام کی صورت میں قدیم زمانے سے دنیا میں قائم تھا۔ اسلام کے ذریعے مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کے اِس نظام کے ٹوٹنے کا ذکر مشہور فر انسیسی مؤرخ ہنری پرین (وفات: 1935) نے اِن الفاظ میں کیا ہے— اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ اکھاڑ کر پھینک دیا گیا:
Islam change the face of the globe. The traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, History of Western Europe, p. 46)