نُطق اور سماعت
اِسی طرح انسان ہمیشہ بولتا تھا اور اس کے بول کو دوسرا انسان سنتا تھا۔ قدیم انسان کے لیے یہ بظاہر ایک سادہ واقعہ تھا، مگر موجودہ زمانے میں، اِس معاملے میں، بے شمار نئی چیزیں دریافت ہوئی ہیں، جنھوں نے بولنے اور سننے کے معاملے کو ایک عظیم نعمت بنا دیا ہے، ایک ایسی نعمت جس کو سوچ کر آدمی کے سینے میں اِس انوکھے عطیہ پر منعمِ حقیقی کے لیے شکر کا ایک سیلاب امنڈ پڑے۔
مثال کے طورپر الیکٹری سٹی (electricity) کو لیجئے۔ الیکٹری سٹی کی ایجاد نے بہت سے معاملات میں نئے نئے تجربات کو ممکن بنا دیا ہے۔ چناں چہ ایک سائنس داں نے تجربے کے دوران شیشے کے ایک فانوس کو لیا۔ اس نے اس کے منہ کو بند کیا اور اس کے اندر ایک برقی گھنٹی رکھی۔ پھر اس نے شیشے کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال دیا۔ اِس گھنٹی کا سوئچ باہر تھا۔ اب سوئچ کو دبایا گیاتو فانوس کے اندر گھنٹی کے بجنے کی صورت دکھائی دے رہی تھی، لیکن فانوس کے باہر گھنٹی کے بجنے کی آواز بالکل سنائی نہیں دے رہی تھی۔
اِس طرح کے تجربات کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کے منہ سے نکلی ہوئی آواز کو جب دوسرا آدمی سنتا ہے، تو یہ ایک فطری ترسیل (transmission) کے ذریعے ہوتا ہے۔ منہ سے نکلی ہوئی آواز ہوا میں لہریں پیدا کرتی ہے۔ یہ لہریں سفر کرکے انسان کے کان تک پہنچتی ہیں، اور پھر انسان اِن صوتی لہروں (sound waves) کو ناقابلِ فہم حد تک انتہائی پیچیدہ نظامِ سماعت کے ذریعے بامعنیٰ الفاظ (meaningful words)میں کنورٹ (convert)کرکے اُن کو سنتا اور سمجھتا ہے۔فطرت میں اِس طرح کے بے شمار انتظامات ہیں، جن کے ذریعے بولنے اور سننے کا واقعہ وجود میں آتا ہے۔ جو آدمی اِس معاملے میں سائنس کی جدید دریافتوں کو جانے، اس کے اندر اپنے منعم کے بارے میں جو عظیم احساس پیدا ہوگا، اُس کا تجربہ قدیم زمانے کے انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔