مکمل دین کا نظریہ
دین کی سیاسی تعبیر کی دوسری بنیاد ’’مکمل دین‘‘ کا نظریہ تھا۔ مکمل دین کا مطلب یہ تھا کہ دین میں عقیدہ اور عبادت کے احکام ہیں، اور اسی کے ساتھ اس میں دیوانی اور فوج داری قوانین بھی ہیں۔اصل یہ ہے کہ دین کا عبادتی حصہ اس کا حقیقی حصہ (real part) ہے۔ اور قوانین کے نفاذ کا معاملہ دین کااضافی حصہ (relative part)، یعنی دین کے عبادتی حصے کو ہر حال میں اور ہر شخص کو اختیار کرنا ہے۔ اِس کے برعکس، قوانین کے نفاذ کا معاملہ پورے معاشرے کا معاملہ ہے۔ معاشرہ اگر تیار ہو، تو قوانین کا نفاذ اس کی شرعی ذمے داری بن جائے گی۔ اور اگر معاشرہ تیار نہ ہو، تو قوانین کانفاذ عملاً التوا کے خانے میں رہے گا۔
مکمل دین کے نظریے میں یہ مغالطہ شامل ہے کہ اس میں دین کے حقیقی حصہ اور دین کے اضافی حصہ، دونوں کو ہر حال میں یکساں مطلوب کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اِسی سے تمام خرابیاں پیدا ہوئیں۔ حالاں کہ دین کے حقیقی حصے کی مطلوبیت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہے، اور دین کے اجتماعی حصے کی مطلوبیت معاشرے کی حالت کے ساتھ مشروط ہے۔ افراد کے لیے وہی دین مکمل دین ہے جس پر عمل کرنا، ان کی استطاعت کے مطابق، اُن سے مطلوب ہو۔
اسلام کا پولٹکل انٹرپریٹیشن ’’مکمل اسلام‘‘ کے نفاذ کے نام پر کیاگیا، مگر عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ اسلام سے مکمل انحراف کے ہم معنیٰ بن گیا۔ یہ اسلام کی حقیقت کو درہم برہم (topsy-turvy) کرنے کا ایک معاملہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں جوخرابیاں پیش آئیں، اُن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتاہے۔
اسلام کے پولٹکل انٹرپریٹیشن کا پہلا نقصان یہ ہوا کہ اسلامی عمل کا اصل نشانہ بدل گیا۔ اصل نشانہ وہ ہے جس کو قرآن میں وابتغوا إلیہ الوسیلۃ (المائدۃ: 35) کہاگیا ہے، یعنی خدا کی قربت تلاش کرنا۔ مگر اِس انٹرپریٹیشن میں اِس کے برعکس، اسلام کا اصل نشانہ یہ بن گیا کہ رائج الوقت سیاسی سسٹم کو توڑو، تاکہ تم دنیا میں مکمل اسلام کو نافذ کرسکو۔
اِس انٹرپریٹیشن کا دوسرا نقصان یہ تھا کہ اس میں اجتماعی تعلقات کی نوعیت مکمل طورپر بدل گئی۔ اسلام کے مطابق، مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو تعلق ہے، وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے، مگر پولٹکل انٹرپریٹیشن نے اس کو بدل کر مسلمانوں اوردوسرے انسانوں کے درمیان سیاسی حریف کا تعلق قائم کردیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے انسان مسلمانوں کے لیے دعوتی خیر خواہی کا موضوع نہ رہے، بلکہ وہ ان کے سیاسی مدّ مقابل بن گئے۔ اِس طرح عملاً دعوہ کلچر کے بجائے، ایک پولٹکل کلچر وجود میں آگیا۔
پھر اِسی پولٹکل انٹرپریٹیشن کا یہ نتیجہ تھا کہ ساری دنیا میں اسلامی عمل، متشددانہ عمل کے ہم معنی بن گیا۔ اُن لوگوں نے اپنے کام کا آغاز پُر امن کوشش کی صورت میں کیا، مگرجلد ہی اُن کو محسوس ہوا کہ پُر امن کوشش کے ذریعے اقتدار کو بدلنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ اِس لیے انھوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرلیا، حتی کہ انھوں نے اِس معاملے میں خود کُش بم باری کو بھی اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔ اِس طرح سیاسی انقلاب کا نظریہ عملاً سیاسی فساد کے ہم معنی بن گیا۔
اسلام کے پولٹکل انٹرپریٹیشن نے اُس سے متاثر لوگوں کو ایک ایسے کام میں مصروف کردیا جو اسلام میں سرتا سر ناجائز تھا، یعنی قائم شدہ مسلم حکومت کے خلاف بغاوت۔ موجوددہ زمانے میں ہر ملک میں ایسے مسلم لیڈر حکومت کررہے تھے جنھوں نے ماڈرن ایجوکیشن حاصل کی تھی او ر اِس بنا پر اپنی نجی زندگی میں مذہبی ہونے کے باوجود، وہ سیاسی معاملات میں جدید طرزِ فکرکے حامل تھے۔چناں چہ اِس انٹرپریٹیشن کے حاملین نے یہ اعلان کردیا کہ یہ لوگ ہمارے ملک میں مکمل اسلام نافذ نہیں کررہے ہیں، اِس لیے ہمارا فرض ہے کہ اُن سے لڑ کر اُن کو اقتدار سے ہٹائیں، اور ایسے لوگوں کو اقتدار پر قبضہ دلائیں جو ’’مکمل اسلام‘‘ کو نافذ کرنے والے ہوں۔
اِس نظریے کے تحت یہ ہوا کہ خود مسلم ملک کے لوگ دو طبقوں میں بٹ گئے— حاکم اور غیر حاکم۔ اور پھر مسلم عوام اپنے ملک کے حکم رانوں سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ فعل، فقہ کی اصطلاح میں خروج(revolt) کا فعل تھا، جو مبیّنہ طورپر اسلام میں حرام ہے۔
بیسویں صدی عیسوی، تقریباً پوری کی پوری، پولٹکل انٹرپریٹیشن سے پیدا ہونے والے ہنگاموں کی صدی تھی۔ یہ عین وہی زمانہ تھا، جب کہ سائنس کی دریافتوں نے، قرآن کے الفاظ میں، کائنات میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو آخری حد تک کھول دیا تھا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ سائنس کے دریافت کردہ حقائق کو لے کر دعوتِ حق کا کام اعلیٰ ترین سطح پر انجام دیا جائے۔ مگر عین اسی وقت یہ ٹریجڈی پیش آئی کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم قائدین، پولٹکل ہنگاموں میں مشغول ہوگئے، اورتبیینِ حق کا اعلیٰ ترین کام جو ہوسکتا تھا، وہ نہ کیا جاسکا۔
اِس معاملے میں، مسلم قائدین کی سیاسی انتہا پسندی کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے۔ سیدجمال الدین افغانی (وفات:1897) پیرس میں بیٹھ کر سیاسی ہنگاموں کی قیادت کررہے تھے۔ 1884کا واقعہ ہے، اُن کے شاگرد مفتی محمد عبدہ (وفات: 1905) نے اُن سے کہا کہ ہم سیاست کے بے فائدہ کام کو چھوڑ کر پُرامن دعوت اور تعلیم کا کام کریں، جس میں بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ جمال الدین افغانی نے اس کے جواب میں کہا: إنما أنتَ مثبِّط (جمال الدین أفغانی، محمود أبو ریّۃ، قاہرۃ 1966، صفحہ 50) یعنی تم تو پسپائی کی بات کرتے ہو۔
یہ بلاشبہہ ایک بھیانک ٹریجڈی تھی۔ یہ ٹریجڈی پولٹکل انٹرپریٹیشن کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔پولٹکل انٹرپریٹیشن کے دو سنگین نتائج نکلے— جدید دعوتی مواقع کا استعمال نہ ہونا، اور پولٹکل انقلاب کے نام پر نفرت اور تشدد کلچر کا رواج۔دین کی اِس سیاسی تعبیر کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ دعوت الی اللہ کا کام عملاً معطّل ہوگیا۔ تمام لوگ بزعم خود مفروضہ ’’مکمل اسلامی نظام‘‘ برپا کرنے میں مصروف ہوگئے، جو قانونِ فطرت کے تحت سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔ اِس طرح ایک ناممکن کے حصول کی کوشش کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ جو کام پوری طرح ممکن تھا، وہ بھی نہ ہوسکا، یعنی پُر امن دعوہ ورک۔