یاجوج اور ماجوج کے دو دور
قرآن میں یاجوج اور ماجوج کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک جگہ ذو القرنین کے حوالے سے (الکہف:94)، ا ور دوسری جگہ ذوالقرنین کے حوالے کے بغیر(الأنبیاء: 96)۔ اِن دونوں آیتوں کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اِن دونوں آیتوں میں یاجوج اور ماجوج کے دو دوروں کا ذکر ہے، جو ایک کے بعد ایک پیش آئیں گے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین نے جو دیوار بنائی تھی، وہ یاجوج اور ماجوج کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ دیوار اُن کی مفسدانہ کارروائی کے لیے ایک روک بن گئی۔ ایک عرصے تک یہ صورتِ حال قائم رہی۔ اس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی ابتدائی سرکش نسل ختم ہوگئی اور بعد کی نسل پیدا ہوئی جو نسبتاً معتدل نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔
اِس دوران ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ابتدائی دیوار دھیرے دھیرے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اِس کے بعد یاجوج اور ماجوج کی اگلی نسلوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ دیوار سے باہر آئیں، اور دیوار کے باہر کی دنیا میں پھیل جائیں۔ یہی دوسرا زمانہ ہے جب کہ اُن کے درمیان تہذیب کا دور شروع ہوا۔ یہ دور مختلف احوال کے درمیان بتدریج ترقی کی طرف بڑھتا رہا۔
یہ بعد کا دور دو زمانوں میں تقسیم ہے—نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) سے قبل کا زمانہ، اور نشاۃِ ثانیہ کے بعد کا زمانہ۔ اِسی زمانے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق، وہ واقعہ پیش آیا جس کو آپ نے یاجوج اور ماجوج کے بند میں شگاف (فُتح الیوم من رَدْمِ یأجوج ومأجوج) سے تعبیر کیا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے جو دیوار بنائی تھی، وہ ایک مادی دیوار تھی جو ایک عرصے کے بعد فطری طورپر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔
حدیث میں جس دیوار (رَدْم) میں شگاف ہونے کا ذکر ہے، وہ غالباً مادّی دیوار نہیں ہے، بلکہ وہ اُس سے مختلف ہے۔ اِس سے مراد فکری دیوار (intellectual barrier) ہے۔ سابق حجری دیوار کے ٹوٹنے سے یاجوج اور ماجوج کو اپنے قریبی علاقے میں پھیلنے کا موقع ملا تھا، لیکن دوسری ’’دیوار‘‘ کا ٹوٹنا زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ اُس نے یاجوج اور ماجوج کی نسل کو یہ موقع دیا کہ وہ عالمی سطح پر پھیل جائیں اور حدیث کے الفاظ میں، یہ واقعہ ہو کہ: لا یأتون علیٰ شییٔ إلاّ أکلوہ، ولا یمرّون علیٰ مائٍ إلاّ شربوہ (ابن ماجہ، کتاب الفتن) یعنی وہ جس چیز تک پہنچیں گے، اس کو کھاجائیں گے، اور جس ذخیرۂ آب سے گزریں گے، اُس کو پی جائیں گے۔
ذوالقرنین کے بنائے ہوئے مادّی بند کے ٹوٹنے کے بعد جو واقعہ پیش آئے گا، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وترکنا بعضہم یومئذ یموج فی بعض (الکہف: 99) یعنی قدیم محدود جغرافیہ سے نکل کر یاجوج اور ماجوج، لوگوں سے عمومی اختلاط کرنے لگیں گے۔ یہ گویا اُن کا دورِ اختلاط ہوگا۔ اس کے بعد حدیث میں جس واقعے کا ذکر ہے، یعنی ان کا ہر چیزکو کھاجانا، اور ساری دنیا کے پانی کو پی جانا، اس سے مراد بعد کا وہ واقعہ ہے، جب کہ انھوں نے نیچر پر فتح حاصل کی اور جدید صنعتی دور پیدا کیا۔ اِسی جدید صنعتی دور کے نتیجے میں اُن کو عالمی استحصال کا موقع ملا— قرآن کی سورہ نمبر 18 میں یاجوج اور ماجوج کے پہلے دور کا ذکر ہے، اور قرآن کی سورہ نمبر 21 میں یاجوج اور ماجوج کے دوسرے دور کا ذکر۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بظاہر یا جوج اور ماجوج کے تین بڑے دور ہیں— محصوریت کا دور، اختلاط کا دور، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور۔
یاجوج اور ماجوج کوئی پُر عجوبہ قوم نہ تھے۔ وہ عام انسانوں جیسے انسان تھے۔ قدیم زمانے میں ذرائع معاش کی قلت کی بناپر ہر جگہ کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے جو لوٹ مار کے ذریعے اپنی معاش حاصل کرتے تھے۔ اِس قسم کے لوگ عرب میں بھی تھے جن کو صَعَالیکُ العرب کہاجاتا تھا، یعنی عربی قزاق۔ یاجوج اور ماجوج کا گروہ بھی ابتداء ً اِسی قسم کا ایک گروہ تھا۔